ورلڈ ٹوائلٹ ڈے، صفائی اور ہم


یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ نت نئی ایجادات اور سہولیات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں بھی اس کرہ ارض پر ایسے کروڑوں انسان موجود ہیں جو صفائی ستھرائی کے لیے بنیادی سہولتوں سے قطعی محروم زندگی گزار رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 673 ملین ایسے لوگ ہیں جو رفع حاجت کے لیے گھروں سے باہر کھلی جگہوں، کھیتوں، جھاڑیوں، گڑھوں، جنگلوں یا گلیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ لوگ ایسے ہیں جن کو حفظانِ صحت کے اصولوں کا علم ہی نہیں ہے جس کے باعث سالانہ لاکھوں بچے دست، اسہال اور انفیکشنز کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

19 نومبر 2001 میں ایک پندرہ رکنی تنظیم ورلڈ ٹائلٹ آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا بنیادی مقصد پوری دنیا میں ٹائلٹ اور حفظانِ صحت بارے آگاہی دینا اور اس بحران سے نبرد آزما ہونا تھا اور اب یہ تنظیم 151 ممبران پر مشتمل ہے جو کہ پچاس سے زائد ممالک میں کام کر رہی ہے۔

24 جولائی 2013 میں اس تنظیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اقوام متحدہ نے 19 نومبر کو باقاعدہ ورلڈ ٹوائلٹ ڈے کے طور پر مخصوص کر لیا۔ اب پوری دنیا میں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ 2030 تک ہر انسان کو ٹوائلٹ سمیت حفظان صحت کی تمام بنیادی سہولیات پہنچانا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہر سال ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منانے کے لیے مختلف سلوگنز بنائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ کئی طرح کے گول سیٹ کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کے لیے صاف پانی کی فراہمی، ٹوائلٹس کا قیام، بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات اور مختلف ذرائع ابلاغ کی مدد سے آگہی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس سال کا سلوگن ”Leaving no one behind“ ہے۔

یعنی صفائی ستھرائی کی یہ تمام بنیادی سہولیات ہر انسان کا حق ہیں، اور انسانیت کے وقار کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی ایک بھی فردصحت و صفائی سے محروم نہ رہے۔

اگر ہم اسلامی نقطۂ نظر کو سامنے رکھیں تو اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے، اور اسلام نے صفائی و پاکیزگی کو ہمارا نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حفظانِ صحت کی سہولیات کا فقدان سراسر شرفِ انسانی کے منافی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوا دو کروڑ کے قریب لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں اور وہ اب بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے نتائج بہت خطرناک ہیں۔ خواتین اور نوجوان بچیوں کے لیے یہ نہایت غیر محفوظ اور ان کی عزت و وقار پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کی وجہ سے گندگی اور کوڑا کرکٹ کے جو ڈھیر لگ جاتے ہیں، انھیں ٹھکانے لگانے کا کوئی سدِباب نہیں ہو پاتا، یہ گندگی اور فضلات ندی نالوں کو بھی آلودہ رکھتے ہیں، اسی لیے ہاتھ دھونے کے لئے صا ف پانی تو کیا، پینے کے لیے بھی بڑی آبادی جراثیم سے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر 53000 بچے ہر سال اسہا ل، دست اور دیگر خطرناک انفیکشنز کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیہی علاقوں میں شعورو آگہی پہنچانے کے لیے کئی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں، جن کی مدد سے لوگوں کو صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے حکومت اس سلسلے میں بہت سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں اور سکولوں میں غیر ملکی تنظیموں کے اشتراک سے حکومت پاکستان صفائی اور حفظانِ صحت کے طریقوں پر آگاہی پروگرامز کا انعقاد کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ انہی اقدامات کی بدولت پاکستان کا شمار اب ان چھ بہترین ملکوں میں ہو گیا ہے جو حفظانِ صحت کی سہولتوں میں بہتری لا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی دیہی آبادی کا باون فیصد حصہ رفع حاجات کے سلسلے میں غیر محفوظ طریقے اختیار کرتے ہیں یعنی دیہی آبادی کی اکثریت ٹائلٹ کی مناسب سہولیات سے محروم ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان اس ساری بدترین صورتحال پر قابو پانے کے لیے UNICEF اور WaterAid جیسی تنظیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے، اور یہ تعاون وقت کی ضرورت بھی ہے، تبھی Leaving no one behind جیسے مقاصد کو حاصل کرنا ممکن ہو پائے گا۔

دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں اس ٹارگٹ کو حاصل کرنا اگلے کئی سالوں میں شاید ممکن ہو ہی جائے، لیکن کم ازکم شہروں میں پبلک ٹوائلٹس اور صاف پانی کی فراہمی اور عوامی شعور کی آگاہی وقت کی فوری اور اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہر کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں پبلک ٹوائلٹ کی صفائی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی عوامی جگہوں پر موجود ٹوائلٹس صرف مرد حضرات کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن خواتین و بچے بھی وہی استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بس اڈوں، اسپتالوں، ریلوے اسٹیشنوں پر بھی زیادہ تر یہی صورت حال ہوتی ہے۔

پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس کی صفائی کی حالت دیکھ کر بنیادی اخلاقی تعلیمات کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے، لوگ صفائی و پاکیزگی کا چنداں خیال نہیں رکھتے۔ خواتین پبلک ٹوائلٹس میں بچوں کے ڈائپرز ایسے ہی چھوڑ جاتی ہیں جو نہ صرف گندگی بلکہ ٹوائلٹ کی بندش کا باعث بھی بنتے ہیں۔ بعض لوگ استعمال کے بعد پانی استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ استعمال کے بعد ٹوائلٹس کو اتنی غلیظ حالت میں چھوڑتے ہیں کہ دوسرے کے استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ صفائی نصف ایمان کا عقیدہ رکھنے والی قوم کا یہ رویہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرم ناک بھی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی عوام کو شعور و آگہی کی اشد ضرورت ہے۔

ایک اسلامی ملک میں صفائی و ستھرائی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہم عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ حفظانِ صحت کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کو ہر علاقے میں یقینی بنانا حکومتِ وقت کی اولین ترجیحات میں تو ہونا ہی چاہیے لیکن صحت و صفائی کی سہولیات عوامی شعور اور تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).