محبت وحبت کچھ نہیں ہوتی


ڈاکٹر خالد سہیل جب بھی لکھتے ہیں کمال کرتے ہیں۔  انہوں نے محبت کی نفسیات پہ ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں محبت کی نفسیات پہ بات کی گئی ہے اور اس کا جنس اور شادی سے تعلق بتایا گیا ہے۔  کوئی پانچ قسم کے ذہنی رحجانات کی اس آرٹیکل میں بات کی گئی۔ جس میں بنا محبت کے شادی جسے ارینج میرج کہا جا سکتا ہے۔  ناکام محبت، مطلب جس میں شادی نہیں ہوتی گو کہ میری رائے میں شادی ہو بھی جائے تب بھی محبت منہ کی ہی کھاتی ہے۔  کامیاب محبت، ایک وقت میں ایک محبوب اور ہمیشہ کے لیے وہی۔  پھر وہ لوگ جو ایک محبوب سے وفادار رہتے ہیں لیکن اس کے بعد دوسرا محبوب بنا لیتے ہیں۔  پھر ان لوگوں کی بات جو بیک وقت بہت سے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔  اور آخری یک طرفہ محبت والے ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تومحبت جذبے سے زیادہ ضرورت لگتی ہے اور شاید ہوتی بھی ہے۔  اس کے بغیر جینا قدرے مشکل ہے۔  یہ ایک طرح کی طاقت ہے جو آپ کو کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے، آگے بڑھنے، مستقبل کے خواب بننے میں مدد کرتی ہے۔  کہیں نہ کہیں ایسا ضرور ہے یہ آپ کی زندہ رہنے کی ضرورت، جنسی خواہش اور جذباتی ضرورت کے ساتھ بندھی ہے۔  اسے جتنے خوبصورت ریپیر میں لپیٹ کے ہمارے سماج میں پیش کیا جاتا ہے وہ بہت ہی غیر حقیقی بات ہے۔

محبت کا ایک ایسا تصور جس کے ساتھ ایثار، قربانی، وفاداری، ایک ہی محبوب، وہی مرکز اور زندگی بھر کے ساتھ کا خیال ہے وہ فرد کی اپنی سپیس کو ختم کر دیتا ہے۔  احساس ملکیت جب اوبسیشن کی صورت اختیار کرتا ہے تب انسان تو جیتے ہیں لیکن کھل کے سانس نہیں لینے پاتے۔  پھر اس سماج میں جہاں ایک انسان کے ساتھ نام جڑ جانے کا مطلب اسی کے ساتھ جینا مرنا ہے۔  محبت اور شادی کا مطلب کمپرومائز ہے۔  ہر بات پہ سمجھوتہ، طرز زندگی پہ، سوچ پہ، جذبات پہ، احساسات پہ، خیالات پہ گویا زندگی نہ ہوئی شرائط پہ گروی رکھی سانسیں ہو گئی۔

اس میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہے۔  اس جنونی طرز فکر و جذبات کے افراد دونوں اصناف میں پائے جاتے ہیں۔  نتیجتاً چور دروازے نکلتے ہیں۔  جنہیں بے وفائی کا نام دیا جاتا ہے در حقیقت وہ ایک طرح کا ایگزاسٹ ہیں اس دباؤ کا جو یہ اکٹوپس نما تعلق پیدا کرتا ہے۔  یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ہر رشتے کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے اگر کوئی ایک رشتہ تمام رشتوں کو اور انسان کی ذاتی سپیس کو نگلنے کی کوشش کرے گا تو جب ایک چونٹی بھی مرتے ہوئے مذاحمت کرتی ہے تو کیا جیتا جاگتا عقل رکھنے والا انسان نہیں کرے گا۔

کہنے کا مقصد ہے کہ اپنی نفسیاتی، جذباتی، جنسی اور جذباتی ضرورت پوری کرنا ہر انسان کا حق ہے۔  اسے تسلیم کرنا ضروری ہے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے آپ کا پارٹنر، محبوب، شوہر یا بیوی ایک پراپرٹی نہیں کہ اس کا دم نکال دیا جائے وہ انسان ہے۔  یہ طے کر لینا یا فرض کرلینا بھی سراسر غلط ہے کہ ایک جذباتی تعلق کو ہر صورت میں نبھانا ضروری ہے۔  اگر وقت کے ساتھ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ نہیں چل سکتا یا آپ دونوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے تو اسے آرام سے عزت و احترام سے چھوڑا جا سکتا ہے۔

لیکن ہمارا سماج یہ بات نہیں سمجھتا نہ ہی اس کا سٹرکچر ایسا ہے کہ اس کو کوپ کر سکے۔  جس کی وجہ سے ہمارے سامنے ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اپنے تعلق کو مجبوری میں گھسیٹتی ہے اور جذباتی اور نفسیاتی طور پہ ٹوٹی پھوٹی مسخ شدہ نئی نسل اس معاشرے کو سونپ رہی ہے۔  اس پہ نہ احتجاج ہوتاہے نہ کوئی کھل کے بات کرتا ہے وہ لوگ جو اس بات کو محسوس کرتے ہیں۔  وہ بھی خاموشی سے ان چاہے تعلق کو نبھاتے ہیں۔  کیونکہ یہ زندگی کا لازمی حصہ تصور کرلیا گیا ہے۔

اور سب سے ستم ظریفی یہ ہے کہ جس سماج میں جنس اور محبت پہ کھل کے بات کرنا ٹیبو ہے اسی سماج میں سب سے زیادہ فخر اور زور خاندانی اکائی پہ ہے۔  مطلب تضاد در تضاد جو ہمارے معاشرے کا خاصا ہے۔  یہاں منافقت تو قابل قبول ہے لیکن حقیقت کا اعتراف، اس کی موجودگی کا حساس اور اس پہ اظہار خیال ایک گالی ہے۔  اگر وہی زبردستی کا تعلق ہے تو یہ محبت کیا ضرورت بھی نہیں بلکہ بے بسی اور لاچاری ہے جو نسلوں سے چلی آ رہی اور شاید آگے بھی ایسے چلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).