تبدیلی کے نام پر عوام سے کھلواڑ کیا گیا


غربت، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن زدہ ادارے، امن وعامہ کی ابتر صورتحال، بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیا بی، غریب سے غریب تر ہوتی عوام اور امیر سے امیر ترہوتے حکمران تویہ ہے آج کا پاکستان بلکہ وزیر اعظم عمران خان کے فلسفہ کے مطابق یہ ہے ریاست مدینہ کی ابتدا۔ قائد کا مکمل اسلامی فلاحی ریاست کے لئے حاصل کردہ پاکستان آج اپنی تاریخ کے بدترین معاشی، سیاسی اور سماجی بحران کا شکارہے۔ بلاشک و شبہ گزشتہ سات دہائیوں میں بہت کم ایسے مرحلے آئے ہیں جب عوام نے سکھ کا سانس لیا ہو۔

مگرمعاشی نا انصافی اورانتظامی بدامنی کا موجودہ جمہوری دوراپنی مثال آپ ہے۔ اس سے بڑی تلخ حقیقت کیا ہوگی کہ قابل علاج بیماریوں کے باوجودلوگ یہاں مر رہے ہیں ناصرف ڈاکٹرز آئے روز ہڑتال پر ہوتے ہیں بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی نے غریب لوگوں کو زندہ درگور کردیا ہے۔ ایک بدترین اور تکلیف دہ زندگی کی تماتر علامات ہم اپنے اردگردکھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مسائل کے انبار تلے سسکتی ہوئی قوم جب بھی امید بھری نظروں سے حکمرانوں کی طرف دیکھتی ہے تومایوسی اور نا امیدی ہی اس کا مقدربنتی ہے۔

غریب کو روٹی میسر نہیں اورحکمرانوں کوشہ خرچیوں سے فرصت نہیں۔ جمہوریت اور تبدیلی کے نام پر عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیاہے اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ آج کے حکمرانوں کے پاس ہر مسلئے کے حل کے لئے ایک ہی تقریر ہے جو وزیراعظم کو یاد کرائی گئی ہے اور معاملہ تاحال تقریر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ بڑے فخر سے یوٹرن کا دفاع کرنیوالے وزیراعظم اگر موجودہ طرز حکمرانی سے بھی یوٹرن لے لیں توشاید کروڑوں عوام کا بھلا ہوجائے گا۔

امریکہ سے واپسی پرکہا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے ورلڈ کپ جیت کرآرہا ہوں اور نتیجے میں مقبوضہ کشمیر سے یکسر ہاتھ دھونا پڑے۔ کشمیر کے حصول کے لئے ہر ہفتہ ایک گھنٹہ احتجاج کی تجویز جس نے بھی دی اس نے توکمال کردیا اور ستم یہ کہ اس تجویز پر عمل بھی شروع ہوگیا۔ غربت کے خاتمے کے لئے جو سب سے پہلا معاشی پلان وزیراعظم نے پیش کیا وہ عوام کو مرغیاں، انڈے اور کٹے کٹیاں دینے کا تھا۔ عوام نے کیا سوچا ہوا تھا اور کیا ملا اس کو یہ اپنی جگہ ایک الگ داستان سہی مگر جس ماہر معاشیات کو اسلام آباد کی نشست سے جتوانے کے لئے خصوصی پیغام نشر کیے گئے اسی کو چند ماہ بعد ہی ملک کی معاشی پالیسیوں سے دور کردیا گیا۔

اس کے بعد جن موصوف کو تلاش کیا گیا اور دعوی کیاگیا کہ یہ ملکی معیشت کو ٹھیک کردیں گے ان کی معاشی پالیسیوں کا مستقبل میں کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ تو آگے جا کر معلوم ہوگا مگر اسوقت جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چھوٹے تاجر سے لے کر بڑے صنعت کاروں تک ہر کوئی پریشان ہے کہ کیا کرے۔ اور حکومت آئے روز عوام کو معاشی کامیابیوں کے قصے سناتی ہے جبکہ ملک کی معاشی صورتحال کی اصل حقیقت ملک کے ایک معروف صحافی انصار عباسی کی حالیہ ایک رپورٹ سے پتہ چلتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ”پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے اپنی مدت کے ابتدائی 13 ماہ کے دوران پاکستان پر گزشتہ 71 سال سے لیے گئے مجموعی قرضہ جات کا 35 فیصد مزید اضافہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے مجموعی قرضہ جات اور واجبات 30 جون 2018 ء کو 29 ہزار 879؟ ارب روپے تھیں جو 30 ستمبر 2019 ء تک بڑھ کر 41 ہزار 489 ارب روپے تک جا پہنچی ہیں۔ صرف 15 مہینوں میں یہ اضافہ، جس میں پی ٹی آئی حکومت کے 13 مہینے سے تھوڑا زیادہ کا عرصہ شامل ہے، 38.8 فیصد بنتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 جون 2018 ء کو جملہ سرکاری قرضہ جات 24 ہزار 952 ارب روپے تھے جو 30 ستمبر 2019 ء کو بڑھ کر 34 ہزار 240 ارب روپے ہوگئے۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی قرضہ جات اور واجبات جون 2019 ء میں 40 ہزار 223 ارب روپے تھیں جو رواں مالی سال کی پہلے سہ ماہی یعنی ستمبر 2019 ء میں بڑھ کر 41 ہزار 489 ارب روپے تک جا پہنچیں۔ جملہ سرکاری قرضہ جات جون 2019 ء تک 32 ہزار 707 ارب روپے تھے جو ستمبر 2019 ء تک بڑھ کر 34 ہزار 240 ہوگئے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی تین ماہ میں ملک کے جملہ سرکاری قرضہ جات میں 1266 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وزیراعظم پاکستان اکثر اپنے بیانات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے دس سال ( 2008 ء تا 2018 ء) کے دوران لیے گئے تقریباً 23 ہزار ارب روپے کے قرضوں کو ملک کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ قرار دے چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے قرضہ کمیشن قائم کیا تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ 23 ہزار ارب روپے کے قرضوں کی اتنی بڑی رقم مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں کسی کی جیبوں میں گئی۔

تاہم، کئی لوگوں کے لئے مایوسی کی بات ہے کہ عمران خان کی حکومت نے بھی اپنی مدت کے صرف 13 مہینوں میں مجموعی قرضہ جات میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا ہے جو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے 10 سال میں لیے گئے قرضوں کا 40 فیصد بنتا ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملکی قرضہ جات میں اتنی تیزی سے اضافہ کر رہی ہے جتنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ دور میں لیے گئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی اکثر 30 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا ذکر کرتے رہے ہیں جو 2007 ء میں 6691 ارب روپے سے بڑھ کر جون 2018 ء تک اس سطح پر پہنچا تھا۔ پارٹی کی رائے ہے کہ یہ نمایاں اور پریشان کن اضافہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ہونے والی کرپشن کا نتیجہ ہے۔ دونوں جماعتوں نے اس عرصہ کے دوران حکومت کی تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جون 2013 ء کے آخر تک پاکستان پر واجبات اور قرضہ جات 16 ہزار 228 ارب روپے تھے۔

جب مسلم لیگ نون کی حکومت نے اقتدار چھوڑا تو مجموعی قرضہ جات اور واجبات 29 ہزار ارب روپے تھیں۔ جبکہ اس ضمن میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باعث معیشت کو بہت زیادہ حد تک نقصان پہنچا تھا جس کے ازالے کے لئے موجودہ حکومت نے ہنگامی اقدامات کیے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے جو قرضے لیے گئے ہیں وہ گزشتہ حکومتوں کے نقصانات کو پورا کرنے اور پچھلی حکومتوں کے قرضوں کا سود چکانے کے لئے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے معاشی محاذ پر جو اقدامات کیے ہیں ان کے ثمرات آہستہ آہستہ ملنا شروع ہوگئے ہیں اور صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے جس کا فائدہ جلد ہی عوام تک بھی پہنچنا شروع ہو جائے گا ”۔

اب اگر ان اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو حکومتی وزرا کی بات پر یقین کیسے کرلیں۔ گردوپیش کے معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو حالات ہی کچھ اور ہیں۔ غریب آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی عوام کوتبدیلی سرکار میں بھی ریلیف نہ مل سکا۔ خلق خدا کی حالت زار دیکھ کے ایک بات تو برے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حکومت تو شاید چل رہی ہیں مگر ملک نہیں چل رہا۔ مثل مشہو رہے کہ کفرکی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم و نا انصافی کی نہیں۔ اور مملکت خداداد کی ترقی کے لیے معاشی نا انصافی پر مبنی اس نظام کو تبدیل کرنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔

نظام کی تبدیلی کے بغیر عوام کی حالت زار موجودہ جاری نظام میں کسی صور ت بہتر نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ موجودہ معاشی سرمایہ دارانہ نظام کے سینے میں کسی غریب کے لئے کوئی رحم موجود نہیں ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر اس مسلئے کا حل سوچنا ہوگا باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر غریب عوام کے متعلق سوچنا ہوگا۔ سب کو مل کر عملی طورپر کچھ کرنا ہوگا وگرنہ سیاسی افق پر موجود سیاسی قیادت سے تو کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).