پشتون نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے کی کوتاہی


آج جب سارے پشتون ایک طرف اپنے علاقے میں ریاستی جبر واستحصال کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف ملک کے دوسرے صوبوں میں ان کے کی گئی ریسل پروفائلنگ کے بنیاد پہ مختلف مصائب سے دوچار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ریاست کی پالیسیوں اور میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ لیکن اس میں پشتون نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی کوتاہیاں ہے۔ جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

دنیا اور کسی ملک کے مختلف خطوں کے لوگ ایک دوسرے سے اشنإ نہیں ہوتے۔ انہیں جو میڈیا یا ریاست کسی کے بارے میں بتاتا ہے وہ من وعن اسی چیز کو اسی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ اور خاص کر ہمارے پاکستان میں یہ چیز بہت عام ہے کہ جو ریاست یا میڈیا اسے بتائے اسے حرف کامل سمجھ کر مان لیتی ہے۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت کسی حد اس میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔

اس نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ریاست اور میڈیا نے دنیا اور پاکستان کے باقی اقوام کے سامنے پشتون قوم کا جو خاکہ پیش کیا۔ اس میں تمام اقوام کو یہ باور کرایا گیا کہ پشتون نسلی طور پہ دہشتگرد ہے۔ جسے باقی اقوام نے حقیقت سمجھ کر پشتون قوم کو نفرت کے نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔

جب کبھی کسی ملک یا قوم پہ ایسا وقت آجائے کہ پوری دنیا اور اپنے ملک کے لوگ ان کو مشکوک نگاہ سے دیکھے تو ایسے دور میں اس قوم کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ جو باقی اقوام کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے ایک سفیر کا کردار ادا کرکے لوگوں کے سامنے اپنا حقیقی تصویر پیش کرکے ان کے خلاف قائم کی گئی دقیانوسی سوچ اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو زائل کردیتا ہے۔

لیکن افسوس کہ ہمارے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے نے ایسے وقت میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے ان کے خلاف قائم کی گئی دقیانوسی سوچ کو اور تقویت بخشی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حالات کے نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہم ایک مظلوم کی حیثیت سے ملک کے باقی اقوام کے پاس جاتے اور ان کو بتاتے کہ ہاتھ میں چھری اور بندوق لئے ہوئے پہاڑوں کے مورچوں پہ بیٹھے یہ لوگ ہماری اصل ثقافت کی نمائندہ نہیں، بلکہ پہاڑوں کے چٹانوں پہ بیٹھ کر قطار کھیلنے والے وہ سادگی و انکساری کے مثال وہ ضعیف بوڑھے ہمارے اصل ثقافت کی پہچان ہے، ہماری ثقافت گولی و بارود نہیں بلکہ ڈھول کی تھاپ پہ رقص (آتن) کرنا ہماری ثقافت ہے۔

کسی کو اغوإ کرکے مارنا پشتونوں کا شیوہ نہیں بلکہ پشتونوں کی اصل پہچان ان کے حجرے اور مہمان نوازی ہے۔ ہماری شاعری میں خودکش بمبار کا ذکر نہیں بلکہ ساقی اور لیلی کا ذکر ہوتا ہے۔ ان کو بتاتے کہ ہمارے ہیرو تشدد کرنے والے بیت اللہ اور صوفی محمد نہیں بلکہ عدم تشدد کے علمبردار باچاخان اور خان شہید ہیں۔

بجائے اس کے کہ ہم انکساری سے اپنا مقدمہ ملک کے باقی اقوام کے پاس لے جاکر ان کو اپنا ہمنوإ بناتے، ہم نے جارحانہ رویہ اپنا کر ان پہ الزامات اور گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جس سے ان کو اپنانے کی بجائے ہم نے انہیں اپنا دشمن بنادیا۔ اور اسی بنیاد پہ وہ ہمارا ساتھ دینے کی بجائے ہمیں دہشتگرد سمجھ کر ریاست کے جبر پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے، اور ہم اس جنگ میں اکیلے رہ گئے۔

یوں ہمارے نوجوانوں نے یہ رویہ اپنا کر ایک مثبت کردار ادا کرنے اور قوم کا آواز بننے کی بجائے نفی کردار ادا کرکے قوم کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).