خانوادہ اُستاد بندو خان



اُستاد بندو خان:
( 1880 سے 1955 )
دہلی گھرانہ 800 سال سے موسیقی سے وابستہ چلا آ رہا ہے۔ آج اور ماضی قریب کے کئی ایک فنکاروں نے اس گھرانے سے موسیقی کے اسرار و رموز حاصل کیے۔ عالمی شہرت یافتہ نعت خواں منیبہ شیخ المعروف کبریٰ باجی (المتوفیہ 2017) نے اُستاد امراؤ بندو خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ خاکسار کو اُستادِ موصوف کے ہاں کبریٰ باجی سے بارہا ملنے کا اعزاز حاصل ہے۔ غزل گلوکارسجّاد حسین کورنگی والے، ریڈیو پاکستان کراچی کے طبلہ نواز اور کمپوزر شبیر حسین اور گلوکارہ ثریا ملتانیکر نے بھی اُستاد امراؤ بندو خان سے سیکھا۔ٹیلی وژن گلوکارہ ٹینا ثانی نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور میرے کئی ایک موسیقی کے پروگرام کئے۔بعد میں موسیقار ارشد محمود کی بنائی ہوئی طرزوں میں اچھی غزلیں بھی گائیں۔ٹینا نے اُستاد نظام الدین خان سے سیکھا۔پی ٹی وی کراچی کی ایک اور گلوکارہ لبنیٰ ندیم نے اُستاد جہان خان سے موسیقی کا درس لیا۔ مقبول صابری (غلام فرید صابری قوال والے) نے اُستاد رمضان خان سے موسیقی کی تعلیم لی۔ پلے بیک سنگر اور غزل کی گائیک اقبال بانو نے اُستاد چاند خان سے موسیقی کے درس لئے۔ اختر علی خان سکھر والے کے بزرگوں نے اُستاد ممّن خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ اُستاد ممن، اُستاد چاند خان کے والد تھے۔اختر علی خان کے بیٹے گُل محمد ’ ناپا ‘ میں سارنگی بجاتے ہیں۔

اُستاد بندو خان نے موسیقی اور سارنگی نوازی کے ابتدائی درس اپنے والد علی جان خان سے حاصل کیے۔اِس کے بعد اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔اُستاد ممن خان، اُستاد بندو خان کو تعلیم دیتے اور اُستاد کلن خان اُن کو ریاض کرواتے تھے۔اُستاد بندو خان آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن سے اُس کے قیام ( 1935) کے فوراََ بعد منسلک ہو گئے۔ وہ ریاست رامپور اور اندور کے دربار سے بھی ایک عرصہ منسلک رہے۔ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی سے بھرپور آگاہی کے لئے انہوں نے سنسکرت بھی سیکھی۔ ” مینڈھ سُوت کی سَرگَم “ بھی اُستاد بندو خان ہی کی اختراع ہے۔ان کو 500 راگوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” تان پلٹے “، ” روایتی بندشیں“، ” راگ مالکوس “، ” راگ ملہار “ اور ” راگ بھیرویں “ آپ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔

استاد بندو خان

اُستاد بندو خان ” بندو خانی سارنگی “ کے موجِد ہیں۔ اُن کی ایجاد کردہ سارنگی جسامت میں اُس دور کی مروج سارنگی سے چھوٹی تھی۔ اس کے تانت (تاریں) بھیڑ کی آنتوں کے بجائے دھات کے تھے۔اِس سے سارنگی کی آواز دوسری سارنگیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہو گئی۔ اُستاد بُندو خان نے 1934 میں نظریہء موسیقی پر بیک وقت اُردو اور ہندی میں دو کتابیں لکھیں: اُردو میں کتاب ” جوہرِ موسیقی “ اور ہندی میں ” سنگیت وِوِیک دَرپَن “ ۔
پاکستان آنے سے لے کر اپنے انتقال 13 جنوری 1955 تک وہ کراچی میں رہے۔ اِن کے دونوں بیٹوں: اُستاد امراؤ بندو خان اور بُلند اقبال نے اِن کا نام روشن کیا۔یوں خانوادہ بندو خان نے اپنے مخصوص انداز ِ فن کو شاگردوں میں منتقل کر کے دہلی گھرانے کی موسیقی کو مزید آگے بڑھایا۔ کل بھی اور آج بھی بھارت میں موسیقی کے سنجیدہ حلقے، نامور کلاسیکل گائیک و ساز کار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُستاد بندو خان کو سارنگی ایسے مُشکل ساز پر مکمل اور بھرپور دسترس حاصل تھی۔موسیقی کے پنڈتوں کے مطابق یہ ہی ایک وجہ ہے جس نے اِن کو بیسویں صدی کا سب سے ممتاز ترین سارنگی نواز بنا دیا۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 1958 میں انہیں سِتارہء امتیاز اور صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی دیا۔

استاد بندو خان بعد کے زمانے میں

اُستاد جناب اُمراؤ بُندو خان
(1915 سے 1979 )
جِس طرح اُستاد بندو خان نے اپنے ماموں سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی بالکل اُسی طرح اُن کے بیٹے، اُستاد امراؤ بندو خان نے بھی موسیقی کے ابتدائی سبق اپنے ماموں اُستاد چاند خان سے حاصل کیے۔یہ سبق کلاسیکل گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں کے تھے۔ اِس طرح اُستاد امراؤ بندو خان اُن چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جو گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ اِن کی سارنگی نوازی میں اپنے والد کی جھلک نظر آتی تھی تو دوسری طرف گائیکی میں اُستاد چاند خان کی چھاپ۔ پاکستان منتقل ہونے سے پہلے وہ آکاش وانڑی (آل انڈیا ریڈیو کا نیا نام)کے مُستند گائیک تھے۔ 1958 میں پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی میں میوزک ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔یہ ایک ہمہ جہت گائیک تھے جن کو خیال، ٹھُمری، دادرا، ترانہ، قول اور کلبانہ (ترانے کی ایک قِسم) پر مکمل دسترس حاصل تھی۔انہوں نے کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

اُستاد اُمراؤ بُندو خان 1958سے لے کر اپنی وفات 1979 تک ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور موسیقار، کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز وابستہ رہے۔صدر ضیاء الحق نے 1981 میں اُستاد کو بعد از مرگ تمغہء حسنِ کارکردگی دیا۔ان کے والد کو بھی یہ تمغہ اور سِتارہء امتیازبعد از مرگ دیا گیا تھا۔ اِس طرح یہ ہمارے ملک کے تمغہء حسنِ کارکردگی پانے والے واحد خوش قِسمت باپ بیٹا ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سارنگی کا نام ’ سو رنگی ‘ ، یعنی جِس کے سو رنگ ہوں، سے بگڑ کر سارنگی ہو گیا۔نام ہی ظاہر کر رہا ہے کہ سارنگی میں کتنی زیادہ لچک ہے کہ موسیقی کے کئی سو انداز و طریقے اپنے اندر رکھتی ہے۔ سارنگی انسانی آواز کے مشابہہ مانی جاتی ہے۔

استاد امراو بندو خان ایک تقریب میں

خانوادہ بندو خان سے اِس کمتر کا بھی خاصا واسطہ رہا: 1965 کی دوسری پاک بھارت جنگ کے بعد راقِم نے ریڈیو پاکستا ن کراچی میں، اتوار کو نشر ہونے والے بچوں کے پروگرام میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کیا جو میری والدہ کی حوصلہ افزائی اوراپنی تمام تر مصروفیات میں سے وقت نکالنے کی وجہ سے ہی ممکن ہو تا تھا۔ یہیں اُستاد امراؤ بندو خان سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ میرے شوق اور میری والدہ کی میرے ساتھ آنے جانے کی مشقت دیکھتے ہوئے مجھے اُنہوں نے نشتر پارک کے ساتھ واقع اپنے ہاں اتوار کے روز ہونے والی ہفتہ وار موسیقی کی کلاس میں شریک ہونے کو کہا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ میں والدین کے ساتھ جاتا رہا۔ وہاں صرف دیکھ اور سُن کر ہی وہ وہ حاصل ہوتا کہ….. شاید قسمت والے ہی حاصل کر سکتے ہوں…… پھر بعد میں تو راقم کا پورا گھرانا وہاں آنے جانے لگا۔ ہمارے علاوہ کئی اور فیملیز بھی وہاں آتی تھیں۔جیسے مسز مُکلائی، مسز حُسین۔ اُستاد امراؤ بندو خا ن نہا یت شفقت کے ساتھ باتو ں باتوں میں سکھا تے تھے۔ موسیقی کے ساتھ ادب آداب، مجلس میں اُٹھنے بیٹھنے کے اطوار بہت خوبصورت انداز سے بتایا کرتے ……. راقم وہاں 1965 سے 1969 تک جاتا رہا۔

استاد بندو خان کا ایل پی ریکارڈ

اُن کی کچھ چیزیں آج تک ذہن پر نقش ہیں۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔کمشنر صاحب کی بیٹی گانا سیکھنے کے لئے آئیں، اُستاد صاحب نے کچھ سُنانے کو کہا۔ سُن کر فوراََ کہہ دیا کہ تُم گانا نہیں گا سکتیں۔اِس پر اُنہوں نے کہا کہ ماہانہ پانچ ہزار فیس ادا کی جائے گی۔اُس دور میں اِس رقم کی بہت زیادہ وقعت تھی۔اُستاد نے جواباََ کہا کہ اس بچی میں گانا گانے کی صلاحیت نہیں ……. دوسری طرف کوئی سیکھنے والا ضرورت مند ہو تو کون سے پیسے کیسی فیس؟ وہ سننے والوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔سامعین اور حاضرین میں بڑے بڑے کن رس بھی موجود ہوتے اور اچھے اور کم اچھے میں واجبی پہچان رکھنے والے بھی…… وہ خود جب کچھ سُناتے تو ان تمام لوگوں کے لئے ہوتا اور تقریباََ ہر فرد کو وہ اچھا لگتا۔

یہ اُستاد امراؤ بندو خان کے پاس مستقل بیٹھنے کا ثمر ہے کہ 50 سال ہونے کو آئے لیکن اب بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی راگ کے ابتدائی سُر چھیڑے جا رہے ہوں تو یہ کمتر بتا سکتا ہے کہ یہ فلاں راگ ہے…. گو کہ راقم کو بالکل بھی موسیقی کا دعویٰ نہیں پھر بھی اُستاد امراؤ بندوخان کے ہاں آنے جانے سے کچھ کچھ ابجد سے واقفیت ہو گئی جو آگے چل کر بے حد کام آئی۔

سب لوگوں کے ساتھ ا تنی شفقت اور پیار محبت سے پیش آنے والے کا یقیناََ اپنے گھر اور عزیزوں سے بھی ویسا ہی سلوک ہو گا۔ اُس زمانے میں بھی تھوڑا بہت اندازہ ہو جاتا تھا۔زبان کے بہت میٹھے تھے۔ مذاق میں بھی کبھی تہذیب سے گری بات نہیں سُنی۔ اُنہیں اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کرتے ہی سُنا۔ لال محمد اور بلند اقبال 1972میں کراچی میں فلم پازیب کی موسیقی ترتیب د ے رہے تھے۔ ایک کلاسیکل گیت شہناز بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا جانا تھا، یہ واحد فلمی گیت ہے جو سین اور کہانی کی خاطر اُستاد امراؤ بندو خان نے خود اُن کے ساتھ اپنی آواز میں صدا بند کرایا۔

اِن کے بیٹے مظہر امراؤ بندو خان کا کہنا ہے: ” ابا کی زندگی میں روزانہ گھر میں 50 سے 60 روٹیاں بنا کرتی تھیں، ان کا کیا، کیا جاتا تھا میں بھی نہیں جانتا۔وہ بہت رحم دِل اور خاندان نواز تھے۔ یہ والد، تایا، ماموں اور بھائی وغیرہ کی حیثیت سے خاندان کی جان تھے۔اِن کے جو بھانجے، بہنیں اِن سے ملنے ہمارے ہاں آتیں سب اپنے ماموں اور بھائی سے خوش ہو کر جاتیں۔ 1977 میں بھٹو دور کے ہنگاموں میں ہمارے ہاں لالو کھیت سے چچا، پھوپھیاں اور خالہ کے پورے پورے خاندان بمع بچے تقریباََ 4 ماہ ہمارے گھر رہے۔ یہ کوئی 70 سے 80 افراد بنتے ہیں۔ہماری والدہ نے کبھی بھی منہ نہیں پھُلایا۔1970 کی دہائی کا ذکر ہے کہ حیدرآباد میں کسی خان صاحب کی بیٹی کی شادی تھی۔ ابا کو اُن کے مالی معاملات کا اندازہ تھا۔ ہماری امّی سے بات کی کہ تمہارا کوئی زیور سیٹ ایسا ہے جو بیچ کر….. . صاحب کا بوجھ ہلکا کیا جا سکے؟ ہماری امّی بھی آخر اُن کی بیوی تھیں فوراَ َ اجازت دے دی۔ والد صاحب نے وہ سیٹ ہونے والی دلہن کو دے دیا۔یہی نہیں بلکہ حیدرآباد میں اسی دورے میں ایک پرائیویٹ پروگرام کرنے کے والد صاحب کو 25,000/ روپے ملے۔یہ اُس زمانے میں ایک خاصی معقول رقم تھی۔ یہ بھی والد صاحب نے شادی والے گھر میں دے دی۔میں نے 40 سال میں ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جِس نے والد صاحب کو بُرا کہا“۔

اُستاد مظہر امراو بندو خان سارنگی پر

برسبیلِ تذکرہ ایک دل چسپ بات جو اُستاد امراؤ بندو خان نے میرے والد کو بتلائی اور انہوں نے مجھے: ” ہمارے محلہ (نشتر پارک) میں ایک موذن تھے جو قطعاََ خوش الحان نہیں تھے۔ ایک دن کسی نماز کے بعد میں نے اُنہیں چپکے سے کہا کہ میاں! کسی وقت میرے پاس آنا میں تمہیں کچھ رموز سکھاؤں گا تو پھر لوگ تمہاری آذان سے ’ بِد کیں ‘ گے نہیں، پھر وہ ایک دن میرے پاس آ ہی گیا۔میں نے اُس کو کچھ کام کی باتیں اور گر بتائے۔ اُس نے محنت بھی کی اور بیچ بیچ میں میرے پاس آتا بھی رہا۔پھر کچھ عرصے بعد واقعی لوگوں نے اُس کی آذان کی تعریف شروع کر دی“۔گویا آواز کے اتار چڑھاؤ کی اہمیت ثابت ہو گئی۔ایسے پر خلوص اور سادہ لوگ اور دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے والے اب کہاں۔اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے!

اُستاد بلند اقبال
(1930-2013)
1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہمارے گھر ریڈیو پاکِستان کراچی سے جنگی ترانے اور نغمات بہت شوق سے سُنے جاتے تھے۔ یہ ترانے سُن سُن کر مجھے بھی یاد ہو گئے۔ اِن کو میں بہت شوق سے گاتا تھا۔اُس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سے اِتوار کی صبح بچوں کا پروگرام آیا کرتا تھا۔ جنگ کے اِختتام پر محض میرے شوق کی خاطر میری والدہ مجھے ریڈیو اسٹیشن لے گئیں۔ پروگرام ’ بچوں کی دُنیا ‘ کے پروڈیوسر ظفر اِقبال تھے۔اب بھلا بچوں کے آڈیشن کا کیا معیار ہوتا ہو گا! بہر حال…… ایک سنجیدہ سے صاحب نے آڈیشن لیا۔ مجھے تو لفظ آڈیشن کا مطلب بھی نہیں آتا تھا۔اُس وقت دستیاب بچوں میں شاید میں ’ اندھوں میں کانا راجا‘ تھا جب ہی تو مجھ ایسے کو اُن صاحب نے پاس کر دیا۔وہ حضرت میری والدہ سے کہنے لگے کہ اگر اِس کو باقاعدہ اِسٹیشن لاتی رہیں تو یہ کچھ سیکھ جائے گا۔یہ صاحب لال مُحمد تھے۔ اِن کے ساتھ ہی بُلند اِقبال صاحب سے بھی واسطہ پڑنے لگا۔دونوں حضرات کی یہ جوڑی فِلموں میں لال مُحمداِقبال کے نام سے جانی جاتی تھی۔یوں ریڈیو پاکِستان کا دروازہ مجھ پر کھُلا اور میں بہت جلد کورس سے نکل کر انفرادی / سولو گیت گانے لگا۔

اُستاد بلند اقبال

شایداُس زمانے میں سینٹرل پروڈکشن نئی شروع ہوئی تھی جہاں بچوں کے کئی ایک گیت موسیقارلال محمد اور بلند اقبال نے میری آواز میں صدابند کرائے۔ مجھے یہ دونوں حضرات اپنی اپنی جگہ موسیقی کا خزانہ لگتے تھے۔ اِن کو میں فخر کے ساتھ اپنا اوّلین اُستاد کہتا ہوں۔ موسیقی کی ابجد سے واقفیت اِن دونوں کی مرہونِ منّت ہے۔

بلند اقبال بھی سارنگی بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور اسی بنیاد پر ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ ہو گئے۔اُس زمانے میں خود اُن کے بڑے بھائی اُستاد امراؤ بندو خان، اُستاد حامد حسین، اُستاد نتھو خان جیسے قد آور سارنگی نواز اس انجمن میں تھے۔ بہت جلد بلند اقبال نے فیصلہ کر لیا کہ ریڈیو میں کمپوزیشن شروع کرنا چاہیے۔ پھر گیت و غزل کی موسیقی ترتیب دینے لگے۔یہی زمانہ تھا جب لال محمد بھی ریڈیو پاکستان میں وارد ہوئے۔اِن کی دریافت کا سہرا ریڈیو کی عظیم شخصیت جناب سجاد سرور نیازی کے سر ہے۔یہ پلے بیک سنگر ناہید نیازی اور نجمہ نیازی کے والد ہیں۔ بلند اقبال نہایت میٹھے آدمی تھے۔ نرمی سے بات کرنے اور اسرار و رموز سمجھانے میں اپنی مِثال آپ تھے۔ میں نے اُنہیں کبھی غصّہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔جبکہ لال مُحمد مزاج کے کچھ سخت اور بظاہر سنجیدہ اِنسان تھے۔ بانسری بجانے میں اِن کو ملکہ حاصل تھا۔ لال مُحمد صاحب تعلقاتِ عامّہ میں بہت اچھے تھے۔ فلمسازوں، ہدایت کاروں، ہنرمندوں اور فلمی صحافیوں سے لال مُحمد ہی امور نبٹاتے تھے۔میں نے ایسا ہوتے خود دیکھا ہے۔ لال مُحمد صاحب کمال بیچ کا راستہ نِکال لیا کرتے تھے۔ بُلند اقبال راگ راگنیوں کی ابجد اور اُن کی اشکال اتنے آسان اور دِلچسپ پیرائے میں بتایا کرتے کہ میں اب کیا بتاؤں …… سیمابؔ ا کبرآباد ی کی مشہور غزل کی دُھن بُلند صاحب نے میرے سامنے بنائی جو ریڈیو پاکستان سے بہت نشر ہوئی:
کوئی موجِ گل سے کہہ دے نہ چلے مچل مچل کے
وہ نظر بدل گئی ہے میری زندگی بدل کے

سامنے استاد امیر سلطان طبلہ پر اور پیچھے سید آصف علی ہارمونیم پر

فلم ” دوسری ماں “ (1968) کے اس گیت کی دُھن بھی میرے سامنے بنائی گئی۔ بعد میں یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا:
دنیا کے غموں کو ٹھکرا دو ہر درد کو تم سہنا سیکھو
پھولوں کی طلب کرنے والو کانٹوں پہ ذرا چلنا سیکھو

1968 تک میں تواتر کے ساتھ ’ بچوں کی دُنیا ‘ میں اپنی والدہ کے ساتھ جاتا رہا۔ہر ہفتہ ریڈیو پاکستان کراچی سے 10 روپے کا چیک میرے اسکول، کلثوم بائی ولیکا سیکنڈری اسکول کراچی ائیر پورٹ کے پتہ پر آتا تھا جو پرنسپل صبح اسمبلی کے موقعے پر مجھے بلواکر دیا کرتیں۔ پروڈیوسر ظفر اِقبال اور خاتون پروڈیوسر فاروق جہاں تیموری نے مجھے پروگرام ’ نئی آواز ‘ او ر ’نئے فنکار‘ میں 1969 کے اوائل تک بہت مواقع دیے۔اُس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ اِس عمر میں لڑکوں کی آواز میں تبدیلیاں آنا شروع ہوتی ہیں لہٰذا لال محمد اور بُلند اِقبال صاحبان نے مجھے گلا استعمال کرنے سے منع کر دیا۔ یہ وقت تھا جب میں نے اپنی والدہ اور والد صاحب کے ساتھ اُستاد امراؤ بندو خان صاحب کے گھر واقع نِشتر پارک باقاعدگی سے جانا شروع کیا۔یہ وہاں تعلیم دیا کرتے اور تمام آنے والوں کو اپنے گھر کے فرد کا درجہ دیتے تھے۔ وہاں تو صرف مشاہدہ کرنے سے ہی بہت کچھ حاصل ہونے لگا۔ یہیں پر راگ ایمن، راگ پیلو، راگ بہار، راگ گونڈ سارنگ، راگ دیس، راگ بھیرو سے واقفیت ہوئی۔ یہیں اُستاد امیر سُلطان سے بھی ملاقات ہوئی۔ صورتاََ یہ جتنے وجیہہ تھے اُس سے کہیں زیادہ نفیس اِنسان اور بہترین طبلہ نواز تھے۔ موسیقار سُہیل رعنا کے معرکتہ الآرا فِلمی گیتوں میں آپ ہی نے طبلہ بجایا جو اُن گیتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ اُستاد امراؤ بندو خان اور بلند اقبال کے بھانجے، وائلن نواز اور موسیقار اُستاد وزیر احمد خان کے سسر بھی تھے۔

موسیقار لال محمد اقبال نے جہاں ملکی پلے بیک آوازوں کو استعمال کیا وہاں اِن تین بھارتی آوازوں سے بھی گیت گوائے: سی ایچ آتما، طلعت محمود اور مُبارک بیگم۔
یوں تو اِن کے مشہور گیتوں کی لمبی فہرست ہے لیکن مندرجہ ذیل وہ گیت ہیں جو آج بھی مقبول ہیں:
1 بارہ بجے(1961) ملک کی پہلی جاسوسی فلم۔
ہار گئی ہار گئی تو سے جی لگا کے ……
نِشی کماری
شبیؔ فاروقی
2 جاگ اٹھا انسان (1966)
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں ……
مہدی حسن
دُکھی پریم نگری
3 اکیلے نہ جانا  ( 1966)
جو کہیں مجھ کو بہاروں کا خدا مل جاتا ……
مہدی حسن

4 آزادی یا موت (1966)
او دنیا جانے میرے وطن کی شان……
عالم لوہار
صہباؔ اختر

5 لاڈلا ( 1969)
سوچا تھا پیار نہ کریں گے ہم نہ کسی پہ مریں گے……
احمد رشدی
تنویرؔ نقوی
6 یوسف خان شیر بانو ( 1970)
تمام گیت علی حیدر جوشیؔ
7 نصیب اپنا اپنا (1970)
اے ابرِ کرم آج اتنا برس ……
احمد رشدی
مسرورؔ انور
8 جین بونڈ 008 آپریشن کراچی ( 1971) پہلی ایکشن فلم
اک اڑن کھٹولا آئے گا اک لال پری کو لائے گا ……
احمد رشدی

9 پازیب (1972)
آئی ہے بہار جیا را مورا ناچے ……
شہناز بیگم۔ تانیں اُستاد امراؤ بندو خان
فیاضؔ ہاشمی
10 گاتا جائے بنجارہ ( 1972)
پتہ جو کھڑکا تو دل میر ا دھڑکا ……
احمد رشدی

11 انہونی ( 1973)
ہے کہاں وہ کلی جو کبھی نہ ملی……
احمد رشدی
دکھی پریم نگری
12 نادان (1973 )
بھولا بھولا میرا نام ……
احمد رشدی

دائیں سے بائیں موسیقار بلند اقبال اور لال محمد

ذکر بلند اقبال کا ہو رہا ہے۔ گو لا ل محمد کے ساتھ مل کر انہوں نے بہت زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب نہیں دی لیکن جو کام کیا معیاری کیا۔جب ہی تو ہر روز ریڈیو پاکستان اور دیگر ایف ایم اسٹیشنوں سے اِن کے بنائے ہو ئے فلمی گیت آج بھی سننے کو ملتے ہیں۔ مجھے اُن کے بھتیجے، اُستاد مظہر امراؤ بندو خان نے بتایا: ” میرے چچا بُلند اقبال نے سارنگی کے علاوہ ’ چیلو ‘ بھی بجایا ہے “۔ اُستاد بلند اقبال سادا زندگی والے سادا انسان تھے۔ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے اپنی زندگی موسیقی کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ ویسے ماشاء اللہ چلتے پھرتے تھے لیکن جولائی 2013 کے رمضان میں دل کی تکلیف کے سلسلے میں اسپتال میں داخل ہوئے اور 12 روز بعد 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

اُستاد امیر احمد خان:
اُستاد وزیر احمد خان کے بڑے بھائی اُستاد امیر احمد خان مشہور فلمی شاعر یونسؔ ہمدم کے قریبی دوست اور ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام پروڈیوسر تھے۔بعد میں یہ اسی مرکز میں پروگرامز منیجر اور ڈپٹی کنٹرولر بھی رہے۔یہ بہترین گلوکار اور موسیقار تھے اور رشتے میں اُستاد امراؤ بندو خان کے بھانجے داماد بھی تھے۔
” بھائی امیر ہمارے بہنوئی اور والد صاحب کے بہت ہونہار شاگرد بھی تھے۔والد صاحب کی ریکارڈنگوں میں اکثر اوقات بھائی امیر ساتھ گاتے۔ ایک مرتبہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں اسلامیہ کالج میں موسیقی کے مقابلے میں کوئی انعام جیت کر لائے۔ والد صاحب کو علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ تم کلاسیکل سیکھو یہ فلمی گانے چھوڑو…… اُس دن کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کے اسرار و رموز حاصل کرنے میں اپنی جان لگا دی “۔

یہ الفاظ اُستاد امراؤ بندو خان کے بیٹے اُستاد مظہر امراؤ بندو خان کے ہیں۔ ” 1996میں جب یہ ریڈیو پاکستان کراچی میں پروگرامز منیجر تھے تب پہلی مرتبہ ریڈیو سے میری غزل نشر ہوئی۔ اس کی دُھن شریف خان صاحب نے بنائی تھی“۔ایک سوال کے جواب میں اُستاد مظہر امراؤ نے بتایا: ” جہاں تک ممکن ہوا بھائی امیر ریڈیو پاکستان کراچی میں موسیقی کے شعبے میں بہتری اور با صلاحیت اور اہل لوگوں کو آگے لائے۔وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں ڈپٹی کنٹرولر کی حیثیت سے دورانِ ملازمت انتقال کر گئے“۔

ویسے تو اُستاد امیر احمد خان کلاسیکی گائیک تھے لیکن محفلوں میں لائٹ کلاسیکل، فلمی گیت و غزل بھی سُنا دیا کرتے۔خاکسار کی ہمشیرہ کی شادی کے سلسلے میں وہ اپنا وقت نکال کر کراچی ائر پورٹ پر واقع ہمارے گھر آئے۔شادی کے گیت یاد کروائے۔اب وہ دنیا میں نہیں لیکن زندگی بھر وہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔

اُستاد وزیر احمد خان:
اُستاد وزیر احمد خان بہت ہی زندہ دل اِنسان تھے۔ انہیں بھی خانوادہ بندو خان کی روایت کے مطابق موسیقی کی تعلیم حاصل تھی۔لیکن انہوں نے گائیکی اور سارنگی کے مقابلے میں وائلن کا انتخاب کیا۔وائلن بجانا انہوں نے اُستاد ظہور خان سے سیکھا۔اُستاد وزیر احمد خان نے کمپوزیشن کے میدان میں بھی کام کیا۔سید آصف علی کی آواز میں ایک فلم کے لئے موسیقار کی حیثیت سے ابنِ انشاء کے اِس گیت کی دھُن بنائی۔یہ آج بھی سدا بہار ہے ( فلم کا نام ذہن سے نکل گیا):
ہم گھوم چکے بستی بن میں
ٍ اک آس کی پھانس لئے من میں
کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارہ ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
یہ گراموفون ریکارڈ 1970 کی دہائی میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اِس گیت کی فرمائش سید آصف علی سے ہر ایک محفل میں کی جاتی تھی۔ انہوں نے یہ گیت 2000 کے اوائل میں ریاست ویسٹ ورجینا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں میری موجودگی میں بھی ایک تقریب میں سُنا یا اور داد وصول کی۔
میری بڑی ہمشیرہ نے اُستاد وزیر احمد خان سے وائلن سیکھا۔خاکسار نے بھی وائلن کے ابتدائی سبق وزیر احمد خان سے حاصل کئے۔چھوٹی بڑی، کالج یونیورسٹی کی موسیقی کی محفلوں میں وزیر احمد خان کے آنے سے چار چاند لگ جاتے تھے۔اُس دور کے لوگوں کو یونیورسٹی کے پروگراموں میں اِن کا یہ گیت آج بھی یاد ہے:
شہر سے بارہ میل پرے ہے اِک البیلی بستی، یو نیورسٹی…… اِن کا ایک مزاحیہ قول تھا: ” اُس پروگرام میں جانا نہیں جِس پروگرام میں کھانا نہیں“۔ریڈیو،چھوٹے بڑے فنکشنوں کے ساتھ ساتھ یہ اسکولوں میں میوزک ٹیچر بھی تھے۔ہر وقت خوش رہتے تھے۔اِن کی مجلس میں عام لوگ اپنے غم اور تکالیف بھول جاتے تھے۔ دوسروں کو خوش رہنے کا ڈھنگ سکھاتے سکھاتے ایک روز یہ خود دنیا کے غموں سے آزاد ہو گئے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔

استاد وزیر احمد خان

اُستاد مظہر امراؤ بندو خان:
” میرے دادا برِ صغیر کے سب سے بہترین سارنگی نواز مانے جاتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میرے اتنے زیادہ اُستاد ہیں کہ اگر اُستادی کے گنڈے پہنوں تو دونوں بازو بھر جائیں“۔
” 1977 وہ یادگار سال تھا جب میں نے اپنے بھائی اطہر امراؤ بندو خان کے ساتھ ریڈیو کے مقبول پروگرام ’ بزمِ طلبہ ‘ میں راگ جونپوری اور راگ ایمن کلیان سُنایا۔ میں 1996 سے ریڈیومیں کلاسیکل گائیکی کا اسٹاف آرٹسٹ تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کراچی میں سَن 2000 میں سارنگی بجائی۔ اپنی پہلی ریکارڈنگ میں ’ ایمن کلیان ‘ سُنایا۔اُسی رات والد صاحب نے خواب میں آ کر شاباشی دی۔چند روز بعد ہی اسٹاف کمپوزر کا بھی کام ملنا شروع ہوا۔میں نے 35 سے 40 کمپوزیشنیں کی ہیں۔اِن پر مجھے ہیڈ آفس، اسلام آباد سے 4 عدد ستائیشی خطوط ملے۔ اب 23 سال بعد کہیں جا کر میرا درجہ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں
’ آؤٹ اسٹینڈنگ ‘ کیا گیا ہے۔ جس کا میں مشکور ہوں! “۔
” دہلی میں 31 مارچ 2005 میں اُستاد بندو خان کی یاد میں ایک محفل میں مجھے خاص طور سے مدعو کیا گیا۔وہاں میں نے راگ بہار، ضلع کافی اور ایمن کلیان سُنایا۔ اِس محفل کے سامعین اور ناظرین بھی خوب تھے۔جیسے دہلی یونیورسٹی کی ڈین کِرشنا ڈِشٹ۔ بھارت کے نامور اُستا د رفیع احمد خان بھی آئے جو سرود نواز اُستاد امجد علی خان کے والد کے شاگردتھے۔کلاسیکل موسیقی کے گائک اور دہلی گھرانے کے خلیفہ، اُستاد اقبال احمد خان بہ نفسِ نفیس خود آئے۔ اِن کے علاوہ طبلہ نواز استاد شفاعت احمد خان اور ستار نواز سعید احمد خان بھی تشریف لائے۔میرے لئے دہلی یونیورسٹی کی ڈین کِرشنا ڈِشٹ نے کہا: ’ یہ بچہ بندو خان کے گھرانے کا نام روشن کرے گا‘،“۔
” میرے دادا کے ہم عصر بھی اُن کا انگ نہیں بجا سکے۔ استاد بڑے صابری خان سارنگی نوازنے خود مجھ سے 2013 میں دہلی میں کہا: ” ہم نے بُندو خان کا انگ بجانے کی کوشش کی لیکن ویسا نہ بجا سکے “۔میں نے دہلی میں یہ بات بھی سُنی کہ پنڈت نا رائن کہتے تھے کہ ہم بُندو خان کے مقابلے میں ایک فی صد ہی بجا پاتے ہیں۔ 2013 میں دہلی کے ہوائی اڈے پر امیگریشن افسر نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا بندو خان سے کیا تعلق ہے؟ جب میں نے کہا کہ وہ میرے دادا تھے۔تو اُس نے مجھے بہت عزت دی۔اور اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی بلا لایا۔میں نے وہاں حکومت کاکوئی شعبہ، اسکول، کالج یونیورسٹی ایسی نہیں دیکھی جہاں بندو خان کو نہ جانا جاتا ہو۔ میری سنتور نواز پنڈت شِیو کُمار شرما، بانسری نواز پنڈت ہری پَراساد چوراسیا، ستار نواز پنڈت روی شنکر اور سرود نواز اُستاد امجد علی خان سے 2012 میں ملاقات ہوئی۔اِن سب نے کہا کہ بندو خان کی کیا بات تھی۔پنڈت روی شنکر نے تو مجھے گلے لگایا کہ میں اُن کا پُوتا ہوں“۔

پوتا، والد اور دادا استاد مظہر امراو، استاد امرائو بندو خان اور استاد بندو خان

” مجھے 2006 میں سرکاری طور پر بھارتی حکومت نے ’ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز ‘ کے پلیٹ فارم سے بُلایا۔ ہم نے 7 شہروں میں اپنی کارکردگی دکھانا تھی۔ہمارا پہلا پروگرام مقبوضہ کشمیر میں سری نگر میں ہوا۔یہاں میں نے پہلا آئیٹم ’ مَن کُنتُ مولا ……‘ سُنایا۔دوسرا پروگرام بارہ مولا، تیسرا پہلگام، چوتھا پروگرام حیدرآباد (دَکن) میں ہوا جہاں میں نے راگ ’ پوربی ‘ سنایا۔ پانچواں دہلی، چھٹا لکھنوؤ اور ساتواں اجمیر شریف میں منعقد ہوا۔دلاور حسین ہارمونیم نواز کراچی سے میرے ساتھ گئے تھے۔مجھ سے منتظمین نے کہا تھا کہ آپ اپنے میوزیشن ساتھ لا سکتے ہیں۔میں نے ہی اُن سے کہا کہ میں اپنے ساتھ صرف ایک میوزیشن لاؤں گا“۔
” مجھے 2012 کے اواخر میں بھی ’ سُر ساگَر اکیڈمی ‘ نے بھارت بلوایا۔ اِس طرح جب سال 2013 شروع ہوا تو میں دہلی میں تھا۔میرے ساتھ دہلی کے میو زیشن سنگت کر رہے تھے: اُستاد اختر حسین نے طبلہ، محمد علیم نے وائلن، ناصر حسین نے سارنگی، رئیس احمد خان نے آرگن بجایا۔ ہارمونیم نواز دلاور خان میرے ساتھ کراچی سے گئے تھے“۔

”2016 میں ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے بھارت میں پروگرام کے لئے بلوایا گیا۔ وہاں دہلی کے قریب ایک شہر ڈی ایل ایف میں ہنڈا موٹر کمپنی کا ایک پروگرام بھی کیا۔یہاں 400 سے زیادہ سکھ افراد سننے آئے۔تمام میوزیشن وہیں کے تھے۔ اسی طرح میں نے بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں 6 دنوں میں چھ غیر سرکاری پروگرام کئے۔کسی بنگالی کمپنی نے بُلوایا تھا۔میرا نیپال بھی جانا ہوا۔وہا ں پر 12 روز قیام رہا۔بہت توقیر اور پذیرائی ملی۔ محمد اسلم طبلہ نواز میرے ساتھ گئے۔یہ مُنی بیگم کے ساتھ سنگت کرتے رہے ہیں۔نیپالی بہت سادا لوگ ہیں۔ بنگلہ دیش اور نیپال کے یہ نجی دورے تھے “۔

دائیں سے بائیں اۤستاد مظہر امراو بندو خان اور اظہر امراو بندو خان

ایک سوال کے جواب میں اُستاد مظہر امراؤ بندو خان نے کہا: ” والد صاحب نے ہم پر کبھی کلاسیکل گانا اور سارنگی سیکھنے کی زبردستی نہیں کی۔یہ ہماری اپنی خوشی اور شوق تھا۔لیکن اس میں بھی انہوں نے اسکول کی پڑھائی اور موسیقی کی تعلیم میں ایک خوبصورت توازن قائم رکھا۔ میں اور میرے بھائی ا طہر ابھی چار یا پانچ سال کے ہوں گے جب والد صاحب نے دونوں بھائیوں کو آ لتی پالتی مار کر بیٹھنا
سکھلایا۔وہ کہا کرتے تھے کہ گانا تب آئے گا جب بیٹھنا آئے گا۔اسی طرح جب ہمارا سارنگی سیکھنے کا زمانہ آیا تو ایک ماہ تک تو ہم سے محض سارنگی پر گز ہی بجوایا۔ والد صاحب نے بتایا کہ جب تک گز سیدھا نہ ہو مزہ نہیں آئے گا۔ والد صاحب مجھے اور میرے چھوٹے بھائی اطہر اُمراؤ بندو خان کو روزانہ ایک بَندِش یاد کراتے تھے۔ اپنے انتقال سے دو دِن پہلے انہوں نے راگ گونڈ ملہار کی بندش سکھلائی تھی۔والد صاحب نے ہمیں لَے اور سُر کی کاٹ اور ماتروں کے وزن کی تقسیم بھی سکھلائی۔یہ آج کے دور میں قطعی مفقود ہے“۔
راگوں کا ذکر چل نکلا۔جس پر اُستاد مظہر اُمراؤ بندو خان نے بتایا: ” راگ ایمن کو ہمارے ہاں ’ آدم راگ ‘ بھی کہا جاتا ہے۔گویا سب راگوں کا جدِ امجد۔سب سے پہلے یہ ہی راگ سکھایا جاتا ہے۔اس کے بعد بھیرویں۔راگ بھیرویں ہر ایک علاقے میں اپنے اپنے انداز سے گایا جاتا ہے“۔
اپنے دادا کے زیرِ استعمال بندو خانی سارنگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہا : ” میں نے چچا کے ہاں اپنے دادا کی سارنگی رواں حالت میں دیکھی۔دادا کی ایک بندو خانی سارنگی میرے پاس بھی ہے۔میں اس کو بنوا رہا ہوں“۔
دہلی گھرانے کے بزرگوں کا ذکر کرتے ہوئے انہو ں نے بتایا: ” اُستاد چاند خان میرے والد کے ماموں اور والدہ کے تایا تھے۔ یہ اُستاد رمضان خان اور میرے دادا کے رشتے کے بھائی بھی تھے۔ اُستاد جہان خان، اُستاد عثمان خان اور اُستاد چاند خان سگے بھائی تھے“۔
دہلی گھرانے کے موجودہ نامور موسیقاروں کے بارے میں انہوں نے کہا: ” اُستاد رمضان خان۔یہ دادا کے رشتے کے بھائی تھے۔ اُستاد نصیر احمد خان۔موسیقی کے درجوں میں یہ سنگیت سمراٹ اور تان سمراٹ تھے۔اُستاد بلال احمد خان۔یہ جامعہ ملیہ دہلی میں موسیقی کے پروفیسر ہیں۔اُستاد ظفر احمد خان ستار نواز۔اُستادظہور احمد خان وائلن نواز۔اُستاد اقبال احمد خان۔یہ کلاسیکل گائیک اور دہلی میں دہلی گھرانے کے موجودہ خلیفہ ہیں “۔
خانوادہ اُستاد بندو خان کی بجا طور پر نمائندگی کرنے والے اُستاد مظہر اُمراؤ بندو خان کی گائیکی اور سارنگی سُن کر مجھے بہت اطمینان ہوتا ہے کہ کراچی میں دہلی گھرانے کا ورثہ بہت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اِس خانوادہ کے موجودہ اُستاد، اُستاد مظہر امراؤ بندو خان دہلی گھرانے کی مخصوص چھاپ کو احسن طریقے سے فن کے طالبوں اور اگلی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خانوادہ اُستاد بندو خان سدا دہلی گھرانے کا نام روشن کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).