ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب: سچ اپنا اپنا


زندگی ہر شخص کے لیے قدرت کا ایک حسین تحفہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس تحفہ کو پہلے سے طے شدہ روایتوں، اصولوں اور طریقوں کے مطابق گزار کر دنیا سے چلے جاتے ہیں اور نسلِ انسانی کے اثاثہ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتے۔ جب کہ کچھ لوگ اس حسین تحفہ کو بھر پور طریقہ سے جیتے ہیں اور زندگی کے حسیں رنگوں میں کچھ اور حسیں رنگوں کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ زندگی کی رنگینیوں کا یہ تسلسل مسلسل چلتا رہے اور نسل انسانی کے اثاثہ میں اضافہ ہوتا رہے۔

یہ نایاب لوگ روایت شکن ہوتے ہیں۔ گھِسے پِٹے راستوں پر چلنے میں ان کو مزا نہیں آتا۔ یہ لوگ اپنی زندگیوں کو سچائی کی تلاش میں تیاگ دیتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف اپنے ذاتی سچ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یہ لمحہ موجود کی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اسی لمحے کا بھر پور استعمال کرکے زندگی کے مختلف معانی تلاش کرتے ہیں پھر ان معانی کو اپنے ذاتی تجربات کی بھٹی میں ڈال کر کندن کرتے ہیں اور پھر یہی غیر روایتی لوگ، سائنسدان، فلسفی، صوفی، سنت اور سادھواپنے اپنے سچ کواپنے طریقوں سے انسانیت کو منتقل کر دیتے ہیں۔

لیکن یہ ذاتی سچ بہت کڑوے ہوتے ہیں روایتی معاشروں میں ان سچائیوں کو برداشت اور ہضم کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ کیونکہ روایتی معاشرے روایات کی جکڑ بندیوں میں پھنسے ہوتے ہیں۔ جب ہم تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایسی نابغہ روزگارشخصیات کو اپنے سچ کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ منصور حلاج نے آخر ایسی کیا بات کہ دی تھی جو اس وقت کے روایتی معاشرہ کوہضم نہیں ہوئی تھی اور بالآخر منصور کو دار پہ چڑھا دیا گیا۔

جب نیلسن منڈیلا نے اپنے سچ کا اظہار کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور تقریباًچالیس سال کے بعد اس معاشرے کو نیلسن کے سچ کا ادراک ہواتو انہیں رہائی ملی۔ اس کے علاوہ لا تعدادمثالیں موجود ہیں۔ میری نظر میں سچ ننگا اور عریاں ہوتا ہے۔ اوراس کے اوپر کسی بھی قسم کی مصلحت کا لحاف نہیں چڑھا ہوتا۔ آج میں بھی آپ کو ایک ایسی ہی نایاب کتاب کے روبرو کرنا چاہتا ہوں جو اوپر دی گئیں مثالوں کی زندہ تفسیر ہے۔ اس کتاب کی تحریر وں میں بھی کسی بھی قسم کا لحاف نہیں چڑھایا گیا بلکہ قلمی اور ذہنی دیانتداری کو مکمل طور پر بروئے کار لا کر تمام قسم کے حقائق، حالات، واقعات کو چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو، نفسیات، معیشت سے ہو، خاندان، فیملی حتٰی کہ چاہے اپنی ذات سے متعلق ہو ان کو بغیر کسی لیت و لعل کے واضح طور پر پیش کر دیا گیاہے۔

اِس نایاب کتاب کا نام (سچ اپنا اپنا) ہے۔ اور اس شاہکار کو تشکیل دینے والے کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے۔ اس کتا ب میں یادیں، تذکرے اور کچھ خواب ہیں۔ اس کتاب کی جو سب سے خوبصورت بات ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹرسہیل نے اپنی سچائی کا آغازاپنی ذات اور اپنے ہی خاندان اور فیملی کے رسم ورواج سے کیا ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ فرسودہ ریت ہے کہ جب ہم اپنی ذات کے حوالہ سے کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو مختلف قسم کی پر اسراریت کا ایسا ہالہ بُن دیتے ہیں کہ جس سے ایک قسم کا اپنی ذات سے نر گسیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

ہمارا معاشرہ ابھی تک اس کڑوی حقیقت کا ادراک نہیں کر پایا کہ انسان کمیوں، کوتاہیوں اورغلطیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی کو تسلیم کرنے پہ آتے ہیں تو اس شخصیت کو تقدس کے بہت اونچے مچان پر بٹھا دیتے ہیں اور اس کو غلطیوں سے مبّرا خیال کرنے لگتے ہیں اور جب کسی کو تسلیم نہیں کرتے تو اس پر کفرکے فتوے لگا کر اپنے خود کے تشکیل کردہ دائرہ ایمان سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس دائرے کو حقیقت پسندی پر مبنی رویے کو پروان چڑھا کروسیع کرنا چاہیے تاکہ انسانی دامن مختلف الخیال لوگوں اور ان کے مختلف قِسم کے تجربات سے مالا مال ہو۔

اس کتاب کے پہلے حصّہ میں ڈاکٹرسہیل روایات سے باغی اور خیالات کی آزاد فضاؤں میں پروازکرنے کی تمنا لیے ہوئے ایک ایسے پرندے کا تذکرہ کرتے ہیں جو اپنے مشرقی ماحول میں بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ آخر ایک دن وہ باغی پرندہ اپنی دھرتی ماں کے دیگر سوتیلے بیٹوں کی طرح ایک نئی دھرتی ماں کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ یہ پرندہ آزاد فضاؤں میں اڑ کر اپنی صحیح پرواز کا اندازہ لگاناچاہتا ہے آخر ایک دن اس کو وہ نئی دھرتی ماں مل جاتی ہے وہ ایک ایسی نئی دھرتی ماں ہے جہاں پر اسے اپنے خیالات کو صحیح طور پر بیان کرنے کا موقع ملا۔

اس کو اس دھرتی پر ایسے لوگ ملے جو کشادہ ذہن تھے۔ جو رنگ، نسل، زبان، اور ثقافت کے فرق کو خوش آمدیدکہتے تھے۔ یہ پرندہ خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے کہ اِ س نے اس آزاد فضاء میں بیٹھ کرانسانیت کے نام مختلف کتابوں کی صورت میں ادبی محبت نامے رقم کیے ہیں جِس میں سے ایک محبت نامہ (سچ اپنا اپنا) ہے۔ آگے چل کر ڈاکٹر سہیل اپنے خاندان کی ہجرتوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ کیسے ہمارا خاندان مسلسل ہجرتوں میں رہا۔ وہ ان ہجرتوں کو زمین سے نہیں بلکہ انسانی رشتوں سے جوڑتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہجرت زمینی نہیں ہوتی بلکہ صدیوں سے قائم انسانوں کے رشتوں کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ہی دھرتی ماں کے بیٹے تقسیم کی وجہ سے ہابیل اور قابیل بن جاتے ہیں۔ اس ہجرت کی وجہ سے ان کے خاندان پر جو ستم ٹوٹے انہوں نے بڑے واضح انداز میں اس کی تصویر کشی کی ہے۔ اگلے کچھ ابواب میں ڈاکٹر سہیل اپنی پیدائش اور بچپن کی کچھ یادیں شیئر کرتے ہیں۔ ان خوبصورت یادوں میں سے ایک خوبصورت یاد یہ ہے کہ ڈاکٹر سہیل اپنی پیاری بہن عنبرین کا تذکرہ بڑے ہی خوبصورت انداز میں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شروع میں تو مجھے اپنی بہن عنبر بہت کالی ا وربدصورت لگتی تھی لیکن آہستہ آہستہ ایک گڑیا کی طرح مجھے اچھی لگنے لگی۔

پھر یہ خوبصورت رشتہ سار ی عمر کے لیے امر ہو گیا۔ میں ذاتی طور پر اس خوبصورت رشتے کا چشم دید گواہ ہوں۔ رواں سال فروری میں لاہور آئے تھے تو اس وقت اپنی پیاری بہن عنبرین کوثرکے گھر پر ہی قیام کیا تھا۔ جب میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ڈاکٹر خالد سہیل سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے عنبر کے گھر گیاتو عنبر نے بڑے پر تپاک طریقے سے ہمارا استقبال کیا تھا اور ہماری انواع و اقسام کھانوں سے مہمان داری کی تھی۔

میں محبت بھرے یہ پُر خلوص مناظر کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن مجھے ادراک ہوا کہ عنبرین کوثر کا رشتہ اپنے پیارے بھائی ڈاکٹر سہیل کے ساتھ کتنا مثالی ہے۔ اگلے ابواب میں ڈاکٹر سہیل اپنے خاندانی بحران کا بڑے واضح انداز میں تذکرہ کرتے ہیں۔ اس تذکرے میں اتنی صاف گوئی ہے کہ پڑھنے والا حیران و پریشان ہو جاتا ہے ڈاکٹر صاحب اپنے والد عبدالباسط اور اپنی والدہ عائشہ کے ازدواجی رشتوں کو کچھ اس نظرسے دیکھتے ہیں۔ ”میری عمر تقریباً آٹھ یا نو سال ہوگی جب میں نے اپنے والدین کے درمیان ایک تشنج کی سی کیفیت محسوس کرنی شروع کی۔ وہ کئی دفعہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے دکھائی دیتے“

ڈاکٹر صاحب اس تعلق کو نفسیات کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمار ا معا شرہ بے جوڑ رشتوں کا نمائیندہ ہے۔ یہاں پر شادی کہ نام پردو بُعدالمشرقین ذہنوں کو ہمیشہ کے رشتے میں جوڑنے کی ایک ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ رشتوں میں اکتاہٹ اور بوریت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بیٹی کو اپنے گھر سے والدین یہ بے رحمانہ جملے اس کے کان میں ڈال کر بھیجتے ہیں کہ (بیٹی اب تمہاری لاش ہی اس گھر میں آنی چاہیے ) روایت زدہ معاشروں میں مجبوریوں کے رشتے پروان چڑھتے ہیں نہ کہ خوش دلی اور سمجھ بوجھ کے رشتے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والدین کے رشتہ کے حوالہ سے مزید لکھتے ہیں۔

”اب میں ان کے رشتے کے بارے میں سوچتا ہوں تواحساس ہوتا ہے کہ دونوں ایک روایتی شادی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن وہ دونوں نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ وہ دونوں ایک ہی گھر میں رہ کر بھی دو مختلف دنیاؤں میں رہتے تھے۔ وہ ایک ہی معاشرہ میں پلے بڑھے تھے لیکن مختلف روایتوں کو پسند کرتے تھے“

ڈاکٹر صاحب بڑے واضح انداز میں دونوں کے رشتہ میں حائل بڑی بڑی دیواروں کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے رشتے کی چاشنی اور اپنائیت ختم ہو جاتی ہے۔ اِسی تشنج کی سی کیفیت کی وجہ سے ایک دن آپ کے والد عبدالباسط کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری طول پکڑ لیتی ہے۔ کافی طویل عرصہ کہ بعد جب وہ ٹھیک ہوتے ہیں تو ان کی زندگی کا پورے کا پورا راستہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل اپنے والد کی زندگی کے اس پڑاؤکوبا لکل اسی طرح لکھتے ہیں جس طرح سے وہ محسوس کرتے اور سمجھتے ہیں

وہ لکھتے ہیں

”میرے لئے دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ شخص جو ساری عمرخدا اور مذہب سے دور رہا تھا اور قیمتی سوٹ اور ٹائیاں پہنتا تھا اور روزانہ شیو کرتا تھا۔ ا س نے نہ صرف خدا اور مذہب کو گلے لگا لیابلکہ ایک درویشانہ زندگی بسر کرنا شروع کر دی۔ سادہ لباس، سادہ کھانا اور سادہ طرزِ زندگی۔ خاندان والوں کا خیال تھا کہ وہ ذہنی توازن کھو چکے تھے۔ اور انہیں یقین تھا کہ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو گئے تھے“۔

ڈاکٹر صاحب یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گھٹن زدہ ماحول میں بڑے بڑے دماغ پروان نہیں چڑھ سکتے کیونکہ ہمارے معاشرے کی روایات کی دیواریں بہت زیادہ اونچی ہیں۔ ایسی دباؤ والی ٖفضا ایک آزاد خیال انسان کے لیے معتدل نہیں ہوتی۔ جو بڑے اذہان اِن روایات کی لمبی دیواروں کو پھلانگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ معتدل اور آزاد فضا کی طرف پرواز کر جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے اندر پائے جانے والے تخلیقی جوہر کی وسیع بنیادوں پر پرورش کر سکیں۔ جب کہ جو لوگ کچھ گھریلو اور اپنی روایتی لیت ولعل کی وجہ سے روایات کی بلند و بالادیواروں کونہیں پھلانگ پاتے تو ان کی صلاحیتں زوال پذیر ہو جاتی ہیں

ڈاکٹر خالد آگے مزیدتصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میری امی جان جنہوں نے مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ایک وفاشعار بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار ماں ہونے کا فرض بھی اچھے سے نبھایا اور اپنے چھوٹے چھوٹے نفیس جذبوں کی قربانی دے دی۔ اِس کا جو نتیجہ نکلا وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

”جو جو ابو جان کی حالت بہتر ہوتی گئی امی جان کی حالت بدتر ہوتی گئی۔ وہ جنت کی بلندیاں چھونے لگے اور وہ جیتے جی جہنم کی گہرائیوں میں اترنے لگیں۔ وہی جوایک چٹان کی طرح مضبوط اور توانا تھیں ریت بن کر بکھرنے لگیں۔ ان مسائل کے باوجود وہ اپنی مشرقی اقدار کومضبوطی سے تھامے ر ہیں۔ وہ ایک ذمہ دار ماں اور وفا شعار بیوی تھیں“۔ اس تناظر میں ڈاکٹر سہیل یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرقی ماحول میں عورتوں پر بے جاپابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔

اور اسی گھٹن زدہ ماحول میں جب ایک عورت پیدا ہوتی ہے تو اسی دن سے اس کی ذہنی تربیت شروع کر دی جاتی ہے۔ اور اس کو مختلف روایات کی نجیریں پہنا دی جاتی ہیں۔ اور وقت کہ ساتھ ساتھ اس کو ان روایات کا پابند بنادیا جاتا ہے جسے وہ بخوشی قبول بھی کر لیتی ہے۔ یہ ہمار ے معاشرے کا بچیوں کے حوالہ سے دوہرا معیار ہے۔

ڈاکٹر سہیل مزید لکھتے ہیں کہ امی جان کی بیماری کے دوران کا رشتہ مجھ سے بدلنے لگا اور وہ میرے اندر اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کرنے کے خواب دیکھنے لگیں۔ انہوں نے مجھے کہاں کہ سہیل میں تمہارے ابو سے بہت نا امید ہوئی ہوں اب میری یہ خواہش کہ تم ایک ڈاکٹر بنو اور ایک دن وہ سب کچھ کر کہ دکھاؤجو تمہارے ابو نہ کر سکے۔ شاید یہ ان کہ خوابوں کا ہی ثمر تھا کہ خالد سہیل ایک سائیکا ٹرسٹ بنے۔ ڈاکٹر سہیل آگے چل کر اسی بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر میری امی جان مجھے اچھے سکول نہ بھیجتیں تو میں ایک ماہرِ نفسیات نہ بن پاتا۔ اگر وہ میرے ہاتھ میں کاغذ اور قلم نہ پکڑاتیں تو میں ایک لکھاری نہ بن سکتا۔ شاید انہوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہ ہوگاکہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر بیسیوں کتابوں کا مصنف بنے گا۔ اگلا باب بڑ ا دلچسپ ہے ایک خوش قسمت بیٹا اپنے باپ کو ایک خط لکھتا ہے۔

ؒ ”جب بادشاہ فوت ہوتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے محلات، کھیت، گھوڑے، کشتیاں اور بہت سی دوسری دنیاوی چیزیں ورثے میں چھوڑ جاتے ہیں لیکن جب صوفی اور ولی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے ورثے میں اپنی دانائی، علم اور سبق آموز کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں جو نسل د ر نسل ان کے بچوں، پوتوں کی زندگی کی تاریک راہوں میں مشعلِ راہ کا کام کرتی ہیں“۔

بہت ہی متاثر کن انداز میں ڈاکٹر سہیل اپنے ذہنی ورثہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ورثہ ہے جوبہت ہی کم خوش نصیبوں کے حصّہ میں آتا ہے۔ اس خوش نصیب بیٹے نے نہ صرف اِس ورثہ کی حفاظت کی بلکہ اِس ورثہ کو اپنی کتابوں کی صورت میں انسانیت کے لیے وقف کر دیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل نے اگلا باب اپنی پیاری بہن عنبرین کے نام کیا ہے۔ ایسی پیاری بہن جس کو اس کے والد عبدالباسط (جنت کا پھول) کہتے تھے۔

اس حسین اور پیارے رشتے کے بارے میں ڈاکٹر سہیل لکھتے ہیں کہ میری زندگی میں عورتوں کے ساتھ تمام محبت بھرے رشتوں میں سب سے پیارا اور عمدہ رشتہ میری چھوٹی بہن عنبرین کا ہے۔ وہ عمر میں پانچ سال چھوٹی ہے اوریوم پیدائش میں صرف ایک دن کا فرق ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ عنبر کافلسفہ حیات اپنے بھائی کے فلسفہ حیات سے با لکل ہی مختلف ہے۔ اپنے فلسفے اور طرزِ زندگی کے اختلاف کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا دل سے احترام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل چونکہ ایک سیکولر ہیومنسٹ ہیں۔ جب کبھی عنبر ماہ رمضان میں اپنے بھائی سے ملنے کینڈاگئیں تو بھائی نے اپنی بہن کے فلسفہ حیات کا احترام کرتے ہوئے سحر ی اور افطاری میں ان کے لیے اہتمام کیا۔ ڈاکٹر سہیل لکھتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ مجھے صرف اپنی بہن سے ہی پیار نہیں بلکہ ان کے خاوند ارشادمیراور ان کے بچوں غفیفہ، ذیشان، عروج اور وردہ کے ساتھ رشتہ بھی نہایت عمدہ ہے۔ اپنی بہن کے ساتھ اس خلوص بھرے جذبے کو اِس نظم میں یوں بیان کیا ہے۔

(ایک معجزہ)

میری پیاری بہن، عنبر

تمہاری زندگی کسی معجزے سے کم نہیں

جب کبھی میں تمہارے بارے میں سوچتا ہوں

تم نے کیونکر

اپنے والدین کے تضاد ات کو ورثے میں پایا

ایک اجنبی سے شادی کی

زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کیا

بچوں کی دیکھ بھا ل کی

اپنے زمانے کے جبر برداشت کیے

اور پھر بھی نہ گھبرائیں، نہ حواس باختہ ہوئیں

تمہیں دیکھ کر

میرے ذہن کو سکون

روح کو تحریک اور

قلب کو خوشی ملتی ہے

ایسی خوشی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔

میری پیاری بہن

میرے قریب آؤ

میں تمیں گلے لگاؤ ں

تمہاری پیشانی پہ بوسہ دوں

تم عمر میں مجھ سے چھوٹی ہو

لیکن زندگی میں مجھ سے بہت آگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).