برطانوی سامراج اور مسلمانوں کا جذبہ ایمانی


اس میں کوئی شک نہیں ہم مسلمان ہیں اسلام ہماری شناخت اور مقصد حیات ہے، ہماری تاریخ اور ورثہ ہے اور اسلام کی جڑیں برصغیر میں بہت گہری ہیں۔ برصغیر ہندوستان میں اسلامی حکومت کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں اندلس (سپین) کی فتح کے قریب قریب جا کر ملتی ہے۔ عرب مسلمانوں نے محمد بن قاسم کے ذریعے اس سرزمین کو فتح کیا اور بعد ازاں محمود غزنوی ( 1030۔ 998 ) ، محمد غوری اور قطب الدین ایبک، کہ جس نے 1206 میں دلی میں مسلم حکمرانی کے مرکز کی داغ بیل ڈالی اور اس توسیع کے سلسلے کو جاری رکھا۔

یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کے برطانیہ قابض ہو گیا۔ ہمارا دین نہ صرف اسلام کے نفاذ کو ہمارے اوپر لازم قرار دیتا ہے بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے لیے خلیفہ واحد کے وجود کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔ ہم نے صدیوں تک اسلام کے ذریعے حکمرانی کی۔ یہ اسلام کا نفاذ ہی تھا جس نے اس سرزمین کو دنیا کے سامنے ایک زبردست خوشحال ریاست کے طور پر ابھارا اور بعد ازاں یہ سرزمین بیرونی طاقتوں کی حرص کا نشانہ بنی۔ اسلام سے ہماری غفلت اور ہماری اپنی صفوں میں موجود غداروں کے سامنے ہماری خاموشی اس خطے میں برطانوی تسلط کے آغاز کی وجہ بنی۔

پس برصغیر ہندوستان پر صدیوں پر محیط ہمارے اس غلبہ کو پہلا چیلنج 23 جون 1757 کو جنگ پلاسی کے موقع پر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی غداروں سے ملی بھگت کی صورت میں پیش آیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600 میں قائم کیا گیا تھا مسلمان حکمرانوں کے قابل بننے کے لیے اس کمپنی کو 150 سال لگے۔ اس نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جو آج کل امریکہ کر رہا ہے۔ 1693 تک طاقت کے ایوانوں میں موجود لوگوں کو تحائف دے کر خرید لیا جا تا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آج امریکہ ہمارے اندر کے موجود غداروں کی وفاداریاں خرید لیتا ہے یہ غدار آج بھی ہماری صفوں میں موجود ہیں جن کی مدد سے برطانوی سامراج نے برصغیر ہندوستان میں قدم جمائے تھے۔

لیکن یہ ان غداروں کے سامنے ہماری خاموشی ہی تھی جس نے ہماری قسمت طے کر دی برطانیہ نے فیصلہ کن وار کیا اور ہم نے اپنی غفلت کا وہ مزہ چکھا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہم نے رسول ﷺ کی اس تنبیہ کی پروا نہ کی۔ رسول ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ چند مخصوص لوگوں کے عمل کی وجہ سے سب لوگوں کو سزا نہیں دیتا، جب تک کہ وہ اپنے درمیان منکر دیکھیں اور اس کا انکار کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کا انکار نہ کریں۔ پس جب انہوں نے ایسا کیا توا للہ عام اور خاص دونوں کو عذاب دے گا، (مسند احمد) ۔

مسلمان اس صدمے سے لڑ کھڑا گے لیکن ہمت نہیں ہاری اور اسلامی مرکز کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے مزحمت بڑھائی اور ہمارے کئی ممتاز ترین لوگوں میں سے ایک میسور کا حکمران ٹیپو سلطان بھی تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنے تقوے اور تدبر کی بدولت دشمن کے دل دہلا دیے۔ ان تدابیر میں شامل تیز دھار دھاتی پلیٹوں والے میز ائلوں کا استعمال بھی تھا جس نے دشمن کی صفوں کو چیر ڈالا۔ ٹیپو سلطان سولہ سال کی عمر ہی سے دشمنوں سے جنگیں لڑ رہا تھا اس نے اپنے ان الفاظ کے مصداق جام شہادت نوش کیا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کے سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“۔

ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعد اس کی بہادری بشمول اس کے بیٹوں کے مسلمانوں کے خون کو گرماتی رہی جنہوں نے 1806 میں ویلورے بغاوت کا آغاز کیا جسے انتہائی بربریت کے ساتھ کچل دیا گیا اور اس بغاوت کے قائدین کو توپوں کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا۔ 42۔ 1839 میں برطانوی فوج کو مسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اس شکست نے برطانوی سامراج کی طاقت اور مضبوطی کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا جو بعد میں برصغیر ہندوستان سے برطانوی فوج کے انخلاء کا باعث بنی۔ ہتھیاروں کی برتری کے باوجود کفار مسلمانوں کے جذبہ شہادت کے سب سے بڑے ہتھیار کو زیر نہ کر سکے۔ 1857 میں مسلمانوں نے برطانوی تسلط کے خلاف طاقت ور اور وسیع پیمانے پر بغاوت کا آغاز کر دیا۔ یہ بغاوت مسلمان لشکریوں تک بھی پھیل چکی تھی۔

Majer General W۔ H۔ Sleeman جو لکھنو میں تعینات تھا، نے کہا کہ ”ہندوستان میں مسلمان اسی محمدی ﷺ طرز حکومت کی بحالی چاہتے ہیں۔ اس سے خبردار ہوتے ہوئے برطانیہ نے مسلمانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے بنیادی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہو گیا۔ مسلح افواج کی بھرتیوں کی پالیسی تبدیل ہو گی۔ مسلمان بنگال اور اترپردیش میں مسلم حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے ان کی بھرتیوں سے کنارہ کشی اور نئے علاقوں میں ہندوؤں پر مزید انحصار کرنا شروع کر دیا، دوسری طرف بیروانی افواج کی تعداد کو بڑھانا شروع کیا اور مسلمان علماء پر بھرپور حملے شروع کر دیے۔

خلافت اور جہاد کے تصور کو تباہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو تہ و بالا کرنا شروع کر دیا۔ سیاسی لحاظ سے انہوں نے ہندوں کی سرپرستی کی اور برصغیر ہندوستان کے شہریوں کے درمیان ثقافتی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم ڈالنا شروع کر دی۔ 14 اگست 1947 کو ہمارے آباواجدا نے بڑی قربانیاں دینے کے بعد پاکستان کو آزاد تو کروالیا لیکن برطانیہ جاتے جاتے اپنے آلہ کار چھوڑ گیا جنہوں نے بعد میں مخلص لوگوں کو اقتدار سے ہٹانا شروع کر دیا اور ملک کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں کرلی اور خود کفار کے آلہ کا ر بن گے۔

کفار ہمیشہ سے اسلامی حکومت کی واپسی پر خوفزدہ تھے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ دنیا کے کسی بھی خطے پر کوئی مضبوط اسلامی حکومت ہو۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے۔ ترجمہ: ”کافر خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو، جبکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے“ (البقرہ : 105 ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).