سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے


یوں تو بیمار بہت اور بیماریاں بھی۔ پوری دنیامیں بیماریوں کی اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں بیماروں ک اقسام پائی جاتی ہیں۔ اصل بیمار، شوقیہ اور مسلسل بیمار۔ جو اصل بیمار ہوتے ہیں وہ ہمیشہ کسی کھاتے میں نہیں لائے جاتے۔ بلکہ ان کے تیمارداروں کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کو کیا ہے ان کی تیمارداری کر کر کے تو ہم بیمار ہو گئے ہیں یہ تو آرام سے بستر پر پڑے ہیں۔ یہ سن کر اصل بیمار مزید چپ سادھ لیتا ہے۔ اور جو چپ سادھ لیتا ہے حقیقت میں وہی بیمار ہوتا ہے۔

باقی ہمارے ہاں شوقیہ اور مسلسل بیماروں کا فقدان نہیں۔ یوں تو ہر شخص ہی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے لیکن ہمارے ہاں بیمار ہونا اتنا عام ہو چکا کہ جو بیمار نہ ہو اس پر تعجب ہوتا ہے۔ ہمارے تو ڈاکٹر حضرات بھی اس وقت تک بیمار کو مریض نہیں مانتے جب تک اس میں دس بارہ بیماریاں نہ پائی جاتی ہوں۔ یہاں تک کہ شوگر، بلڈ پریشر، نیند کی کمی، ڈپریشن، اور بار بار پیشاب آنے کو تو عدالتی سطح پر بھی خاص بیماری کا درجہ نہیں دیا گیا۔

ہمارے ہاں شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریاں اتنی عام ہیں کہ اگر یہ کسی میں نہ پائی جاتی ہوں تو وہ نارمل انسان نہیں لگتا۔ ذیابیطس ہی کو لیجیے یہ اتنی عام کہ گھر آئے مہمان کو چائے پیش کرتے وقت لازم پوچھا جاتا ہے چینی ڈال دوں شوگر تو نہیں آپ کو؟ اگر وہ شوگر کے ہونے سے انکار کردے تو ہمیں تشویش لاحق ہو جاتی ہے کہ حیرت ہے آپ کو شوگر نہیں چیک کروائیں ہو سکت ہے نکل آئے۔ اور اگر کوئی ڈائیٹنگ کے خبط میں ہی مبتلا چینی لینے سے انکار کر دے تو ایک سکون سا ہو جاتا ہے۔

یہی حال بلڈ پریشر کے مریضوں کا ہے۔ چار بلڈ پریشر کے مریضوں کے پاس بیٹھا پانچواں شخص خود میں اس کے نہ ہونے پر سُبکی محسوس کرتا ہے لہذا عزت بچانے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ اس کا اپنا بی پی بہت بڑھتا ہے ابھی بھی تین سوہے۔ تین سو بلڈ پریشر بتاتے اسے یہ تک پتہ نہیں ہوتاکہ تین سو بلڈ پریشر والا نارمل انداز میں بات نہیں کرتا بلکہ ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں انتہائی سیرئیس حالت میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کبھی سروے ہوا تو بلڈ پریشر پاکستان کی بدنام ترین بیماری مانی جائے گی۔

جس کی وجہ سے قتل جیسے جرم بھی ہو جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے پاکستان میں جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں وہ صرف بلڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ بلکہ اسے بدنامِ پاکستان بیماری کہنا چاہیے۔ جو غصہ کا تیز ہو، گالی گلوچ کرتا ہو، وہ دوسرے کی رج کے بے عزتی کرنے کے بعد آرام سے سارا ملبہ بلڈ پریشر ڈال دیتا ہے۔ کہ بی پی بڑھنے کی وجہ سے اس نے ایسا کیا۔ یوں بلڈ پریشر کی بیماری ہمارے ہاں ایک مسلسل رہنے والی اور کسی نعمت سے کم نہیں۔

ہمارے ہاں یوں تو شوقیہ بیمار ہونے کا رواج عام ہے۔ اور یہ شوق بچپن ہی سے پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ خود ساختہ بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کو معمولی سا سر درد ہو تو وہ یوں ظاہر کرتا ہے جیسے قریب المرگ ہو۔ ایسے لوگ بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عادی ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا دل کرتا ہے کہ ان کے پاس بیٹھا شخص بس ان کی بیماری کے بارے ہی بات کرتا رہے۔ جونہی سننے والے کی توجہ دوسری طرف ہو ایسے خود ساختہ مریض بلند آواز سے ہائے ہائے شروع کر دیتے ہیں۔

بیماریوں کی بہت سی قسمیں ہیں اور ان کے علاج بھی ممکن ہیں۔ لیکن ایسے خود ساختہ مریضوں کا علاج کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ ہر اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جو وہ کسی دوسرے سے سنتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماریوں کی شوقین مزاج خاتون گردوں کے مریض کی عیادت کو گئیں۔ اب مریض کی عیادت کے دوران ان کے چہرے کے زاویئے بگڑنا شروع ہو گئے۔ تکلیف کا انتہائی احساس ان کے چہرے سے عیاں ہونے لگا۔ مریض نے پوچھا خیریئت؟

تو وہ صاحبہ اپنی پنڈلی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی کیا بتاؤں مجھے بھی گردوں کا شدید درد رہتا ہے چلا نہیں جاتا اور گردوں کے مرض کی وجہ سے میرا پیر کام نہیں کرتا۔ ایسے شوقیہ مریض اگر دمہ کے مرض میں مبتلا کسی کو دیکھ لیں تو یہ ان کی برداشت سے باہر ہو جاتا ہے لہذا آکسیجن لگے مریض کو دیکھ کر وہ خود بھی زور زور سے سانس لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پاس بیٹھے شخص کے متوجہ نہ ہونے پر زور سے لیتا سانس روکٰ کر بتاتے ہیں کہ میرا سانس بھی بہت خراب ہے اور انھیں بھی سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ جملہ ادا کرتے وقت وہ مکمل روانی سے کام لیتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو آئے دن ٹیسٹ کروانے کا بھی شوق ہوتا ہے ایسی ہی ایک اسی سال کی عمر رسیدہ خاتون بہو کو گائنی کی ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں تو ضد کر کے بیٹھ گئی کہ ان کے لئے بھی حمل کا ٹیسٹ تجویز کیا جائے۔ ایسے لوگ اگر کسی ایکسرا کرنے والے کلینک کے پاس سے گزریں تو ایکسرا کروانے کو بھی مچل مچل جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون میرے پڑوس میں رہتی ہیں ایک دفعہ ان کو نمونیا ہو گیا تو وہ ہر آئے گئے کو بتاتیں کہ انھیں نمونیا کیسے ہوا۔

ان کی بحالئی صحت کے تین ماہ بعد ان سے سامنا ہواتو میں نے پوچھا کیا حال ہے طبیعت ٹھیک ہے آپ کی۔ میرے یہ پوچھنے کی دیر تھی کہ داستانِ نمونیا پھر سے شروع ہو گئی اور مجال ہے کہ ایک جملہ بھی اِدھر سے اُدھر ہوا ہو۔ وہ پھر سے بتانا شروع ہوگئیں کہ وہ ہیٹر کے آگے بیٹھی تھیں۔ پھر کمرے کی حرارت کی وجہ سے ان کا سانس رکا تو وہ کھڑکی کھول کر تازہ ہوا لینے لگیں۔ پھر انھیں ٹھنڈک کی وجہ سے سردی لگنا شروع ہو گئی۔

صبح سردی لگنے کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئیں تو ڈاکٹر پریشان ہوگیا اس نے بتایا کہ انھیں نمونیا ہو گیا ہے۔ یہ داستان سنتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ کس اعلیٰ درجے داستان گو ہیں اگر وہ لکھنا پڑھنا جانتیں تو اپنی بیماریوں کی داستان لکھ کر یقیناً باغ و بہار کے مصنف میر امن کو پیچھے چھوڑ دیتیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ایسے لوگوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ یہ بھی بتائیں کہ کس وقت خدا نے انھیں بیمار کرنے کا ارادہ کیا۔ اورایک فرشتے کوانھیں بیمار کرنے کو آسمانوں سے بھیجا۔

کچھ لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں۔ حالانکہ وہ بالکل تندرست ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا دل کرتا ہے کہ وہ بیمار ہی لگیں۔ اور لوگ ان کی بیماری کے بارے باتیں کرتے رہیں۔ تشویش کا اظہار کرتے رہیں۔ ایسے لوگ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ خاندان اور آس پڑوس کے لوگ ان کی عیادت کو بلاناغہ آتے رہیں اور پوری توجہ سے ان کی بیماری کا حال سنتے رہیں۔ ایسے خود ساختہ مریضوں کو اگریہ کہا جائے کہ وہ ٹھیک ہیں تو وہ غصہ میں آجاتے ہیں اور اس زبان میں شکوہ کرتے ہیں

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ایسے لوگ تسلی دینے پر بھی بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ شدید بیمار ہیں اور لوگ انھیں تندرست کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکٹر بھی انھیں ”ٹھیک“ کہنے کی حماقت کر لے تو وہ دوبارہ اس ڈاکٹر کے پاس جانے کی غلطی نہیں کرتے۔ بلکہ ایسے لوگوں کی نظر میں ان کی ڈاکٹری کی ڈگری مشکوک ہو جاتی ہے۔ اور ان کو اس ڈاکٹر کے بارے یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے رشوت دے کر ڈگری لی ہے۔ لہذا ان سے فی الفور ایم بی بی ایس کی ڈگری واپس لی جائے اور انسانی صحت سے کھلواڑ کرنے پر سزا کے طور پر انھیں ہسپتال کے باہر موٹر سائیکل سٹینڈ پر کھڑا کر دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).