پنکی سرکار کے موکل اور چوہدریوں کے پیر


ایک ہفتے میں ہونے والی وزیراعظم اور عسکری قیادت کی ملاقاتوں نے حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کو کافی کمزور کردیا ہے۔ وزیراعظم کی ایک تقریر کے بعد تو ایسا طوفان برپا کردیاگیا تھا کہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ حکومت 2019 کا آخری مہینہ بھی پورا نہیں کرسکے گی۔ وزیراعظم کی پہلے ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات اور پھر آرمی چیف سے ملاقات نے غیر یقینی صورتحال کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ البتہ وزیراعظم عمران خان کی جمعہ کے روز کی گئی تقریر نے نہ صرف ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو اعتماد دیا ہے بلکہ اس تقریر کے ذریعے انہوں نے میاں نواز شریف کی بیماری کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔

یہ بھی ایک عجیب معاملہ ہے کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد کم از کم 24 گھنٹے کے لئے اپوزیشن اور عوام سمیت میڈیا کوبھی مہنگائی کا جن بھول جاتا ہے۔ وزیراعظم کی تقریریں مہنگائی کے خلاف ”سٹیرائیڈ“ کا کام کررہی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں وزیراعظم کی رضا مندی شامل تھی خواہ یہ ”رضا بالجبر“ ہی تھی لیکن عدالتوں سے پہلے انہوں نے ”ہاں“ کی تھی لیکن گزشتہ روز کی تقریر کے ذریعے انہوں نے اپنے ووٹرز اور پاکستان کی عوام کو یہ یقین دلایا ہے کہ میاں نواز شریف جعلی میڈیکل رپورٹس کے سہارے بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے اقتدار کے چودہ ماہ بعد پہلی بار دو دن چھٹی کرکے اپنے مداحین کو پریشان کردیا تھا لیکن پھر چھٹیوں کے بعد انہوں نے دو تقریروں کے ذریعے مخالفین کو پریشان بھی کیا اور حیران بھی کیا۔ وزیراعظم کی تقریر میں ایک بات معنی خیز تھی جس میں انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں جمہوری جرنیل قرار دیا۔ اس جملے سے یوں محسوس ہوا جیسے جنرل قمرجاوید باجوہ کے بعد آمریت پسند جرنیلوں کی کھیپ پڑی ہوئی ہے۔ اس جملے سے ایک خوف اور پیدا ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا اور ان کی حکومت اٹھارہ ماہ میں لپیٹ دی گئی تھی اللہ کرے ”خان اعظم“ کے ساتھ ایسا نہ ہو ویسے بھی اب حالات کافی بدل چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی تقریروں اور میاں نواز شریف کی اداؤں سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ عمران خان کو ابھی تک اپنے اقتدار میں ہونے کا پورا یقین نہیں ہے جبکہ میاں نواز شریف کو ابھی تک اقتدار بدر ہونے کا یقین نہیں ہے۔ عمران کی طبعیت میں جس طرح ”قائد حزب اختلافی“ رچی ہوئی ہے بالکل اسی طرح میاں نواز شریف کی طبعیت سے ”شہنشاہیت“ دور ہونے کو تیار نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے بعد نہ صرف خود کو مضبوط کیا ہے بلکہ تیزی سے سازشوں کی سرکوبی بھی کی ہے اس کے باوجود ان کے اہم ترین قلعے پنجاب میں اب بھی نقب لگنے کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو عمران خان بے شک وسیم اکرم پلس قرار دیتے رہے ہیں لیکن تمام سیاسی طبیب، عامل، سنیاسی بابے اور سائنسی ماہرین اس وسیم اکرم پلس کے بارے میں اپنی رائے دے چکے ہیں کہ موصوف میں ”پلس“ والی کوئی شے ہی موجود نہیں ہے اور موصوف کے سیاسی ”پلگ“ بھی شارٹ ہیں۔

پنجاب کے اقتدار پر قبضے کے لئے جب بھی مسلم لیگ (ن) یا مسلم لیگ (ق) کو موقع ملا تو وسیم اکرم پلس اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ نہیں رکھ پائیں گے۔ اقتدار کے چودہ ماہ کے بعد مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) نے وسیم اکرم پلس سے پنجاب کی پگ چھیننے کے لئے کافی گنجائش پیدا کرلی ہے۔ سردار عثمان بزدار کے پاس پنجاب کی وزارت اعلیٰ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چھت پر بیٹھے ہوئے کسی بچے کے پاس پراٹھا یا مرونڈا ہو اور ہوا میں اڑنے والے پرندے ایک ہی جھپٹ میں اسے چھین کر لے جاتے ہیں اور بچہ روتا روتا پھر ماں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

پنجاب میں چوہدری برادران کی پیش قدمی گزشتہ ہفتے بہت تیز ہوگئی تھی اور خود وزیراعلیٰ پنجاب نے جب سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ اور عثمان بزدار ایک عام کارکن محسوس ہورہے تھے۔ عثمان بزدار کو پنجاب میں نہ تو اتحادی جماعتوں کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے اور نہ ہی انہیں گورنر پنجاب چوہدری سرور کی سرپرستی حاصل ہے۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور کے زیادہ تعلقات چوہدری برادران کے ساتھ ہیں اور یہ دونوں اس نکتے پر متفق ہیں کہ عثمان بزدار کارکردگی کے لحاظ سے بانجھ ترین وزیراعلیٰ ہے عثمان بزدار کو گزشتہ 14 ماہ میں یہ ملکہ ضرور حاصل ہوا ہے کہ وہ ”ملکہ عالیہ“ کے ذریعے وزیراعظم تک شکایتوں کے انبار پہنچا دیتے ہیں عثمان بزدار اپنی انہی صلاحیتوں کے بل بوتے پر چوہدری سرور سے وزیراعظم کو بھی بدظن کرچکے ہیں۔

پی ٹی آئی سمیت اب تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سردار عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ تک رسائی بنی گالہ کے ”چھو منتر“ کا نتیجہ ہے اور وزیراعلیٰ کو بھی یقین ہے کہ جب تک ”چھو منتری“ کیمپ ان کے ساتھ ہے چوہدری پرویز الٰہی کچھ حاصل نہیں کرسکتے حالانکہ انہیں علم ہونا چاہیے چوہدری برادران جہاں سے ”فیض“ حاصل کرتے ہیں وہ پیر بھی بہت کرامت والا ہے۔ بنی گالہ والے تو صرف دو مؤکلوں پر تکیہ کرتے ہیں جبکہ چوہدریوں کے پیر کے پاس لاتعدد مؤکلات ہیں اور یہ مؤکلات بیک وقت حکومتوں کی تعمیر کے کام بھی کرتے ہیں اور انہیں منہدم کرتے ہوئے بھی دیر نہیں لگاتے حتیٰ کہ اپوزیشن والے بھی اسی پیر کے مرید ہیں اور تمام سہولتیں اور آسانیاں یہی پیر تو ان کے لئے پیدا کرتا ہے یہی وہ پیر ہے جو دھرنے بٹھاتا بھی ہے اور دھرنے اٹھاتا بھی ہے۔ وزیراعظم وہ خوش نصیب ہیں جنہیں گھر میں بھی پیر میسر ہے اورباہر بھی وہ اسی پیر کے مرید ہیں جس کے چوہدری مرید ہیں۔ عثمان بزدار کا سہارا صرف بنی گالہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو پتہ ہونا چاہیے پنکی سرکار کے موکل چوہدریوں کے پیر کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat