کیا آنے والے دنوں میں عمران خان کے ساتھ کچھ ہونے والاہے؟


 پاکستان میں سیاست کا میدان جم نہیں رہا، نامعلوم اندیشے بیان کیے جارہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا اندازہے کہ تحریک انصاف کی سرکار خطرے میں ہے، ہمارے سیاسی نیتا آج کل جو بیان دے رہے ہیں ان پراعتبار کرنا مشکل لگتا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیماری مکمل طور پر پُراسرار ہے۔ ان کی وجہ سے نواز لیگ میں کئی اور بھی بیمار ہونے کا سوچ رہے ہیں۔

کوئی بھی اپنے دل کی بات بتانے کو تیارنہیں۔ ؀ ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے سے بہت قریب نظر آرہے ہیں جب سابق وزیراعظم نواز شریف کو علاج معالجے کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے تو ان کا نام اس لسٹ میں شامل تھا جو سزا کے باعث ملک چھوڑ نہیں سکتے، پھر بیرونی دباؤ کی وجہ سے عمران خان سرکار نے فیصلہ کیا وہ ایک معقول رقم سرکار کو ضمانت کے طور دے کر مقررہ وقت کے لیے ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔

ملکی قانون میں ایسا کرنا آسان نہ تھا پھر قانون اور انصاف کے سامنے انسانی ہمدردی کے نام پر عدالتی تحفظ ضروری تھا سو پنجاب کی اعلی عدالت نے ایسا ممکن بنایا جبکہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کو ملک سے باہر روانہ کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ دروغ برگردنِ راوی ’جب مولانا نے سرکار وقت کے خلاف اعلان جنگ کیا تو ابتدائی منصوبے کے مطابق انہوں نے خیبر پختونخوا سے آغاز کرنا تھا اور وزیراعظم کا استعفیٰ لینے کے بعد نماز شکرانہ ادا کرکے گھر آنا تھا مگر ان کے حلیفوں نے باور کرایا کہ خیبر پختونخوا میں آپ کو مطلوبہ مراعات کا ملنا مشکل لگ رہا ہے آپ اپنا دھرنا مارچ سندھ سے شروع کریں وہاں کی سرکار آپ کی مددگار ہو گی۔

مولانا کے غیر ملکی دوست افغانستان سے بھی ہم خیالوں کو دھرنے کا حصہ بنانے پر تیار ہو گئے مگر رنج و الم رہا نہ کسی کی خوشی رہی کب زندگی میں کوئی گھڑی دائمی رہی۔ دوسری طرف مرکزی سرکار کے وزیر داخلہ اس دھرنے کے سلسلہ میں اپنی منصوبہ بندی کر چکے تھے، اسلام آباد میں مولانا کے سواگت کا اچھا انتظام کروایا اور مولانا کو مکمل خوش رکھا۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ بتانا مشکل ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے جمہوریت کو بے بس اور لاچار بنا دیا، قومی اسمبلی میں چند ووٹوں کے بدل سے مرکزی سرکار بدل سکتی ہے تاہم مرکزی سرکار کے حلیف آزادی مارچ اور دھرنے سے متاثر نظر آئے۔

وزیر داخلہ نے وزیراعظم کویقین دلایا کہ آزادی مارچ کے لوگوں سے بات چیت ضروری ہے اور سرکار کے ایک وفد نے کئی دن تک آزادی مارچ کے لوگوں سے مذاکرات کیے مگر مشکل یہ تھی کہ آزادی مارچ کے لوگ کوئی بھی وعدہ کرنے پرتیار نہ تھے، پھر مرکزی سرکار نے اپنے حلیفوں میں سے کچھ لوگوں کو نامزد کیا اور مولانا کی کمیٹی سے بات چیت کا اختیار دیا، ان لوگوں میں پنجا اسمبلی کے سپیکر پرویز الٰہی کو بھی شامل کیا گیا وہ مولانا سے ملے اورباہمی شکر رنجی کو ختم کرنے کے لئے کچھ دو اور کچھ لو فارمولے کو یقینی بنایا اور اس کے بعد ہی حلیفوں (قاف لیگ اور ایم کیو ایم) نے سابق وزیراعظم کے لئے بیرونی ملک سفر کو آسان بنایا۔

جب یہ بات یقینی ہوگئی کہ مرکزی سرکار اور وزیراعظم، سابق وزیراعظم کے لئے نرم رویہ رکھیں گے (زبانی گولہ باری پر فریقیننے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی) اور مولانا فضل الرحمٰن کو جب میاں نواز شریف کے سفر کے بارے میں یقین دہانی ہو گئی تو انہوں نے اسلام آباد سے دھرنے کو لپیٹنے کا حکم صادر فرمایا اور نئے فارمولے کے مطابق بڑی شاہراہوں کو بند کرنے کے لئے جتھے ترتیب دیے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ آزادی مارچ اور دھرنے میں شریکِ سفر اخلاقی طور پر ضرور ہوئیں مگر ان کے لوگ لاتعلق ہی رہے۔

استعفیٰ کا ورد صرف مولانا کرتے تھے جبکہ دھرنے والے کچھ اور ہی نعرے لگاتے رہے مگر فریقین نے وقتی طور پر جنگ بندی کا خاموشی سے اعلان کر دیا کیونکہ عمران خان اپنی روش بدلنے کو تیار نہ ہوئے ؎مشعل امید تھا وہ رہنما جیسا بھی ہے اب تو چلنا ہی پڑے گا راستہ جیسا بھی ہے عمران خان کو اپنی مشکلات کا مکمل اندازہ ہے اور وہ کسی بھی ناگہانی آفت کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔ روحانی ہالہ اور عبادت نے اس کو کھڑا کر رکھا ہے۔

اس سیاسی دھینگا مشتی میں ہمارے غیر ملکی حلیف مہربان اوردوست در پردہ ہمارے ملک کے اہم اداروں سے مسلسل مشاورت کرتے رہے۔ برطانیہ جو پاکستان کادوست ملک تصور کیا جاتا ہے، اپنے ہاں پاکستان کے خود ساختہ جلا وطن لوگوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے، اسحاق ڈار کے معاملات میں پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرتا۔ جب میاں نواز شریف کو عدالتی رعایت دینے کی بات چیت چلی تو وہ اور امریکہ کے اہم لوگ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے لئے محفوظ راستے کا مشورہ دیتے نظر آئے، وہ بھی عمران خان کی سیاست سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لوگ ہمارے لئے معاشی منصوبہ بندی ضرور کرتے ہیں مگر وہ کرپشن کے معاملات میں دوسروں سے کم نہیں، ان کی دھونس کی وجہ سے ہی تحریک انصاف کی سرکار کو اپنے گول تبدیل کرنا پڑے۔ پاکستان میں کپتان عمران خان تبدیلی لانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی امید لے کر آیا تھا مگرتبدیلی کا نعرہ تنقید کی نذر ہو گیا اور اب تمام عمران مخالف لوگ پھر سے پُرامید نظر آنے لگے ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں اسمبلی کے اندر جوڑ توڑ سے نئی تبدیلی لائیں گے۔

نکل پڑے ہیں سبھی اب پناہ گاہوں سے گزر گئی ہے یہ شب غمِ سحر دے کر۔ اب آنے والے دنوں میں ملک کے دو اہم لوگ اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے فارغ ہونے جا رہے ہیں، ایک دفعہ پھر انقلاب اور تبدیلی کے نعرے لگیں گے۔ میاں نواز شریف اپنی صحت کی مکمل صحتیابی تک وطن سے دور خاموشی سے آرام کرتے رہیں گے، ان کا واحد مقصد مریم نواز کی سزا میں کمی اور اعلیٰ عدالت سے رحم کی درخواست رہے گا پھر سابق وزیراعلیٰ پنجاب جو ولایت اس لئے بھی گئے ہیں کہ اپنے سپوت اور داماد کے لئے کچھ کر سکیں، ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری اب حقیقی بیمار نظر آ رہے ہیں، ان کا علاج بھی باہر ہی ممکن ہے۔ مگر وہ مردِ حر اپنے دوستوں کے لئے بھی کچھ نرمی اور سلوک چاہتا ہے اورکچھ دنوں میں معافی تلافی شروع ہو سکتی ہے۔ کیا آنے والے دنوں میں عمران خان کے ساتھ کچھ ہونے والاہے؟ خطرے کا نعرہ تو سب طرف سے لگ رہا ہے۔ دیکھیں جمہوریت کے لئے رب کس کے ساتھ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).