جماعت اسلامی کا مستقبل کیا ہو گا؟


میرے پچھلے کالم کا عنوان ”اشتہار برائے گمشدہ جماعت اسلامی“ تھا جو 20 نومبر 2019 ء کو شائع ہوا۔ آج کا کالم اُسی کا دوسرا حصہ ہے جس میں جماعت اسلامی کے مستقبل کے حوالے سے کچھ عملی نکات زیربحث لائے گئے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے مستقبل کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے موجودہ انسانی وسائل، نئے شامل ہونے والے انسانی وسائل اور نظریاتی پختگی کا جائزہ لیا جائے۔

یہی فارمولہ موجودہ جماعت اسلامی پر لاگو کریں تو پتا لگانا ممکن ہے کہ مستقبل کی جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہوگی؟ جماعت اسلامی کے موجودہ انسانی وسائل کے سرمائے کا موازنہ مولانا مودودی سے قاضی حسین احمد کے عہد تک سے کیا جائے تو اُس میں واضح فرق ہے۔ وہ شخصیات مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے انفرادی علمی مرتبے اور اپنے نظریے کے حوالے سے بڑے قدوقامت کی مالک تھیں۔ بعد میں جماعت اسلامی کی سربراہی سنبھالنے والے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر وہ مقام حاصل نہیں کرسکے۔

پارٹی کے سربراہی عہدے کو چھوڑ کر جماعت اسلامی کی شخصیات کو انفرادی سطح پر بھی پرکھیں تو ان کی شناخت میں بتدریج ڈھلوان محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، نعیم صدیقی، میاں طفیل، خرم مراد، ڈاکٹر نذیر احمد، مولانا عبدالغفور احمد، پروفیسرخورشید احمد، قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ، اِن کے بعد سید منور حسن، ڈاکٹر معراج صدیقی، اسد اللہ بھٹو، فرید پراچہ، میاں محمد اسلم، خالد رحمان وغیرہ کے نام سب کے لیے شناسا ہیں اور اِن کے بعد اب جماعت اسلامی میں اِن جیسی شخصیات کہاں ہیں؟

انہی کے ادوار میں نئے انسانی وسائل کے سرمائے کی صورت میں جماعت اسلامی کے نظریے میں شامل ہونے والے اُس وقت کے نوجوانوں میں سراج الحق، امیر العظیم، وقار ندیم وڑائچ، چوہدری عبدالطیف، اظہر اقبال حسن، چوہدری ضیاء الرحمان، اظہر ملک، رانا عبدالمنان، جاویدسردار اور عبدالحنان وغیرہ تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نوجوانی سے نکل کر سینئر ہوگئے۔ اِن کے بعد اب جماعت اسلامی میں اِن جیسے نوجوان کہاں ہیں؟ شخصیات کے ذکر سے آگے بڑھ کر جماعت اسلامی کے نظریاتی پختگی کے علمی سرمائے کی بات کریں تو وہاں بھی دن ڈھلتا نظر آتا ہے۔

جماعت اسلامی کی پہچان علمی سیاسی جماعت کی سی تھی۔ جہاں اس جماعت کے کارکن اپنے نظریاتی لٹریچر سے مسلسل مستفید ہوتے رہتے وہیں جماعت اسلامی کے لکھاریوں کی طرف سے جماعتی لٹریچر میں منفرد کتابوں اور تحریروں کا مسلسل اضافہ ہوتا رہتا۔ مثلاً مولانا مودودی کی تفہیم القرآن، خطبات، دینیات، خلافت و ملوکیت، اسلامی ریاست، پردہ، نیا نظام تعلیم اور مسئلہ جبرو قدر وغیرہ جیسی بیشمار کتابیں، نعیم صدیقی کی محسن انسانیت، تعلیم کا تہذیبی نظریہ اور شعلہ نوائے اقبال وغیرہ جیسی دیگر درجنوں کتابیں اور نامور دانشور اور ماہرمعاشیات پروفیسر خورشید احمد کی اسلامی نظریہ حیات، ترقیاتی پالیسی کی اسلامی تشکیل اور فیملی لائف اِن اسلام وغیرہ جیسی کئی سنجیدہ کتابیں سامنے آتی رہیں لیکن اس کے بعد جماعت اسلامی کے علمی لٹریچر کی مقدار اور معیار میں اترائی شروع ہوگئی۔

اب سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ موجودہ جماعت اسلامی میں اِن جیسے لکھاری کہاں ہیں؟ پہلے کے تمام امیر جماعت اسلامی حکومت سے نظریاتی اختلاف کے باعث جیل گئے یا نظربند ہوئے۔ ان کے بعد سید منور حسن اور سراج الحق کی امارت میں یہ سلسلہ رک گیا۔ کیا اِن کے ادوار کی حکومتیں جماعت اسلامی کے نظریے سے ہم آہنگ ہوگئیں یا جماعت اسلامی نے اپنے نظریے پر کاربند رہنے کا اپنا نظریہ چھوڑ دیا؟ پاکستانی معاشرے میں فحاشی اور عریانی کے خلاف جماعت اسلامی ہمیشہ برسر پیکار رہتی تھی۔ ایک زمانے میں جب پاکستانی فلموں کے سائن بورڈ اور پوسٹرز کھمبوں، مارکیٹوں، تانگوں یا رکشوں وغیرہ پر لگائے جاتے تو جماعت اسلامی اِسے بھی فحاشی و عریانی کا ایک ذریعہ مانتی اور ان کے خلاف تحریک چلاتی۔ اس حوالے سے قاضی حسین احمد کے احتجاج مشہور زمانہ ہیں۔ اب پاکستانی چینلز پر چلنے والے کئی کمرشل ایسے ہیں جو فیملی میں بیٹھ کر دیکھے نہیں جاسکتے۔ آج کل کے کمرشلز کے سامنے پرانے فلمی اشتہارات بڑے نیک اور معصوم لگتے ہیں لیکن اب جماعت اسلامی خاموش تماشائی ہے۔

اب تو غیرملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لبرل ازم اور شخصی آزادی کے نام پر ملک میں چلنے والی تحریکیں بھی سرجھکائی ہوئی جماعت اسلامی کے سامنے بلند آواز میں چل رہی ہیں۔ اہم سیاسی ایشوز کے ٹاک شوز میں جماعت اسلامی غائب ہے۔ جماعت اسلامی الیکٹرانک میڈیا سے تو غائب ہوہی چکی ہے، پرنٹ میڈیا میں بھی جماعت اسلامی کے میڈیا ونگ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اِس کی خبروں کو نمایاں صفحات پر جگہ نہیں ملتی۔ میڈیا میں جماعت کی کسمپرسی کا اندازہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ووٹ بینک نہ ہونے کے باوجود بھی پہلے کسی جماعتی رہنما کا بیان صحافتی، حکومتی اور عوامی توجہ کھینچ لیتا تھا۔

اس کے علاوہ جماعتی رہنماؤں کے بیانات کی سرخی کے آخر میں بیان دینے والے کا نام صرف مولانا مودودی، میاں طفیل یا قاضی وغیرہ لکھا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگ ان ناموں اور ان کی وابستگی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اب سب سے بڑے انگریزی اخبار میں جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کے بیان کی سرخی میں لکھا گیا ”جے آئی سراج الحق“۔ یعنی لوگوں پر واضح کیا گیا کہ یہ سراج الحق ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ جماعتی اراکین کے مزاج میں بھی فرق آگیا ہے۔

وہ بھی اب خوشی غمی کے اجتماعات ایلیٹ لوگوں اور پبلک ریلیشننگ کی بنیاد پر سجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن جماعت اسلامی ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا سے بھی شرماتی ہے۔ جماعت اسلامی کی اپنی اور اہم شخصیات کی معلومات ویب سائٹ، وکی پیڈیا یا گوگل وغیرہ پر بھی بہت کم موجود ہیں۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کی طلباء، مزدور، خواتین، اساتذہ اور وکلاء وغیرہ جیسی ذیلی تنظیمیں اپنے اندر رعب رکھتی تھیں۔

اب یہ رعب ماضی کا قصہ ہے۔ جماعت اسلامی عملی جہاد کے نظریے پر یقین رکھتی تھی۔ اب جماعت اسلامی شاید ایمان کے آخری درجے پر کھڑی ہے یعنی برائی کو دل میں برا جان لینے کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے جماعت اسلامی جینے مرنے کو تیار تھی۔ اب مال روڈ یا شہر کی سڑکوں کو بند کرکے سمجھ لیتی ہے کہ اُس نے کشمیر کی آزادی کا حق ادا کردیا۔ پچھلی صدی نظریات کی صدی تھی جس میں کمیونزم، سوشلزم اور اسلام ازم ابھرکر سامنے آئے۔

ہوسکتا ہے ان کا تعلق کولڈ وار کی کسی گیم سے ہو۔ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ صدی لبرل ازم، مغربی طرز جمہوریت، مخلوط تعلیم، کام کرنے کی مخلوط جگہ یعنی مردو خواتین کے باہمی میل ملاپ میں آزادی وغیرہ کی صدی ہے۔ چونکہ جماعت اسلامی نے پچھلی صدی میں جنم لیا۔ اسی لیے اس کا سٹرکچر اُسی کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ موجودہ نئی صدی جماعت اسلامی کے سٹرکچر سے میچ نہیں کرتی۔ کیا جماعت اسلامی اپنے آپ کو نئی صدی کے مطابق ڈھالے گی؟

اگر وہ ایسا کرے گی تو کیا جماعت اسلامی کے نظریے کی بنیاد بدل نہیں جائے گی؟ اگر جماعت اسلامی پرانے سٹرکچر پر قائم رہی تو کیا وہ اپنے آپ کو قائم رکھ سکے گی؟ کیونکہ قانون فطرت ہے کہ جو بھی شے اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں کرتی رہتی وہ اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی دکان بہت اچھی چل رہی ہو لیکن کسی وجہ سے اُس کی دکانداری ختم ہو جائے تو اس دکان کا دوبارہ پرانی کامیاب کاروباری حیثیت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی کامیاب اخبار نقصان میں چلا جائے تو اس کا دوبارہ ابھرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی پاپولر سیاسی جماعت عوام میں ایک دفعہ غیرمقبول ہوجائے تو اس کا دوبارہ پاپولر ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہ یونیورسل ٹروتھ یعنی عالمگیر سچائی ہے۔ کیا جماعت اسلامی بھی اپنا ”نیچرل ٹائم یعنی فطری وقت“ پورا کرچکی ہے؟ کیا وہ وقت قریب آرہا ہے جب کہا جائے گا کہ ”الوداع، الوداع جماعت اسلامی الوداع؟ “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).