ہاں میں شدت پسند ہوں


کوئی بھی معاشرہ اپنے رسم و رواج اور قوانین کی بدولت پہچانا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ قوانین اور رسم و رواج مذہب اور تہذیب کی بنا پر رائج ہوتے ہیں۔ معاشرے میں بسنے والے انہیں قوانین کی بنا پر اپنے تہوار مناتے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی اور ملی اخوت کا ثبوت دیتے ہیں۔ معاشرے میں بسنے والے بعض افراد کو اپنی سوچ کے مطابق کچھ تہواروں اور قوانین سے انکار بھی ہوتا ہے جن کا وہ آزادی حق رائے (freedom of speech) کی بنا پر نا صرف انکار کرتے ہیں بلکہ ان کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔

ایسے افراد کے گروہ کو شدت پسند (extremist) بھی کہا جاتا ہے جبکہ ان کی سوچ کی مخالفت کرنے والوں کو یہ گروہ بھی شدت پسند کہتا ہے۔ اس طرح ایک ہی معاشرے میں دو قسم کی سوچ کے حامل افراد بس رہے ہوتے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کی نظر میں شدت پسند ٹھہرتے ہیں۔ ان میں پنپنے والی مذہبی مخالفت، تکرار اور انتہا پسندی ان کے معاشرے کی مذہبی ہم آہنگی اور ملی اخوت کو نا صرف ٹھیس پہنچاتی ہے بلکہ ان کو آپس میں جوڑے رکھنے کے اس عنصر کو مکمل طور پر ختم بھی کر سکتی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں ان تہواروں اور ملی محبت کی چاشنی سے محروم ہو جائیں۔

پاکستان میں بہت سی قومیں، مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف تہذیبوں کے حامل افراد کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ خیالات کا ٹکراؤ یہاں بھی موجود ہے۔ سب سے زیادہ یہاں مذہب کارڈ کھیلا جاتا ہے۔ یہاں اکثریت رکھنے والا مذہب کے اکثر ماننے والے اپنے فرقوں، مسالک، فقہی مسائل اور عقائد کی بنا پر اپنے مخالفین کو آن کی آن میں مذہب سے فارغ قرار دیتے رہتے ہیں۔ جب ان امور سے فراغت نصیب ہوتی ہے تو ان انتہا پسندوں میں سے چند گنے چنے لوگ اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر نہ صرف زبردستی اپنے عقائد لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ جب جب موقع ملتا ہے ان کے مذہب، عقائد اور عبادت گاہوں کو اپنی شدت پسندی کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

پھر چاہے وہ زبردستی اسلام قبول کروانے کا معاملہ ہو، مندر کو توڑنے کی کوشش ہو یا گرجا گھر کو خاکستر کرنے کا امر ہو۔ مجھے اکثر اس بات کا خوف رہتا ہے کہ معاشرہ اپنی آنے والی نسل کے لیے تہواروں، مذہبی ہم آہنگی اور ملی اخوت کی بے جان لاش نہ چھوڑ جائے۔ کیونکہ معاشرہ ہم سے ہے اور اسے اپنی مثبت سوچ سے بھی ہم نے ہی پروان چڑھانا ہے۔

مندرجہ بالا بیان کیے گئے چند کارناموں کی وجہ سے ہمارے اوپر دہشت گردی اور شدت پسندی کی مہر ثبت ہو چکی ہے جبکہ اس میں قصور کسی طور بھی تمام پاکستانی مسلمانوں کا نہیں۔ ہمیشہ شدت پسند چند ہی ہوتے ہیں خواہ مثبت سوچ کے حامل شدت پسند ہوں یا منفی سوچ کے۔ باقی افراد درمیانے درجے میں ٹھہرتے ہیں جنہیں کسی بھی واقعے، تہوار اور کسی بھی امر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

گزشتہ روز ناروے میں چند شدت پسندوں نے دین اسلام کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جس کی اجازت وہاں کی لوکل اتھارٹیز نے دی۔ کسی مذہب کے خلاف احتجاجی ریلی کسی طور بھی حق آزادی رائے نہیں ہو سکتی کیونکہ کوئی بھی معاشرہ کسی دوسرے مذہب کی توہین کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پولیس نے مظاہرین کو پیشگی (in advance) اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ احتجاج کے دوران کوئی بھی عمل اس طرح کا نہ کیا جائے جس کا فی الفور رد عمل وہاں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے آئے اور امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔

پولیس کے ان احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ریلی کے لیڈر Lars Thorsen نے مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کریم کے دو نسخے کوڑے دان میں پھینکے جب کہ ایک نسخے کو نذر آتش کیا۔ اسی عمل کے دوران ایک مسلمان شدت پسند الیاس نامی نوجوان برق رفتاری سے Thorsen کی جانب لپکا اور اس پر حملہ کر دیا۔ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے دونوں کو حراست میں لیا اور ریلی کو فی الفور تحلیل کر دیا۔

یہ تو ہے ناروے کے واقعے کا سین۔ جو مختلف میڈیا رپورٹس میں من و عن بیان کیا گیا ہے۔ قارئین کے ذہنوں میں ہو سکتا ہے یہ سوال اٹھے کہ دونوں ہی شدت پسند کیسے؟ اپنی تحریر کے ابتدائی حصے میں میں نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک تو مہر جو ہم مسلمانوں پر ثبت ہو چکی کہ ہم شدت پسند ہیں اور دوسری مثبت شدت پسندی۔ اب چونکہ میرے معاشرے میں بھی مختلف سوچوں کے حامل افراد موجود ہیں اور آپ کے Freedom of Speech کے ساتھ Freedom of Thinking بھی ہے تو آپ آزاد ہیں کہ الیاس نامی مسلمان کو آپ جیسا بھی شدت پسند سمجھنا چاہیں سمجھ لیں مگر ایک احسان میری ذات پر بھی کیجئے گا کہ مجھے بھی الیاس کی کیٹگری میں شامل حال رکھئے گا کیونکہ ہاں میں بھی شدت پسند ہوں۔

میں اور مجھ سمیت ہر جذبہ ایمانی رکھنے والا مسلمان شدت پسندی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے جب جب عیسائیوں کے گرجا گھروں کو آگ میں جلایا گیا، جب جب معصوم ہندو بہنوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا گیا، جب بھی کسی غیر مسلم پر جھوٹا الزام لگا کر اسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنایا گیا، جب بھی مندروں کو توڑا گیا، جب اسلام کی غلط شکل پیش کر کے اسے دوسروں پر تھوپا گیا، میں شدت پسند رہا جب بھی اسلام کے نام پر لوگوں کے گلے کاٹے گئے، میں شدت پسند رہا جب پشاور کے 144 معصوم پھولوں کو جہاد کے نام پر مسلا گیا۔

جی ہاں قارئین میں شدت پسند رہا جب فرانس کے چرچ میں کسی بد بخت نے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور میں نے اپنی فیس بک کی پروفائل پکچر فرانس کے جھنڈے میں بدل دی۔ میں کرتار پور راہداری کھلنے پر بھی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتا رہا کہ چلو ہم تو اجمیر شریف نہیں جا سکتے مگر ہمارے سکھ اور ہندو بھائی بہن اپنے روحانی پیشوا کے پاس با آزادی آ سکتے ہیں۔ میں شدت پسند رہا جب مذہبی ہم آہنگی اور ملی اخوت کی خاطر میں عیسائی دوستوں کو کرسمس، ایسٹر اور ہندو دوستوں کو دیوالی اور ہولی کی مبارکبادیں دیتا رہا یہ سب سوچے بغیر کہ ان تہواروں کا میرے عقائد اور میرے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ بھی میری شدت پسندی ہی تھی کہ عید کی سوئیاں اور محرم کی نیاز اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بانٹتا رہا۔ میں شدت پسند ایسا کہ کل جہان کے لیے ہدایت بن کر آنے والے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی محفل میرے ہندو دوستوں نے سجائی اور آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعتیں وہاں میں پڑھتا رہا۔ میری شدت پسندی کا عالم دیکھیے کہ سکھ دوستوں کی دستار میں نے اپنے سر پر سجا لی اور گرو نانک کی درگاہ پر حاضری بھی دی۔ میں شدت پسند ہی تھا کہ میرے والدین حج سے واپس آئے تو عرب کی کھجوریں، آب زم زم، تسبیح اور دیگر تبرکات بطور تحفہ اپنے غیر مسلم دوستوں میں بانٹتا رہا۔

پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ پیو سب دے سوہنڑے، اپنے پیو ورگا کوئی نہیں (باپ سب کے پیارے ہوتے ہیں مگر اپنے باپ جیسا کوئی نہیں ) بالکل اسی طرح مذہب سب کے پیارے ہیں مگر اپنے مذہب جیسا کوئی نہیں۔ میں نے شدت پسندی کی جو مثالیں بیان کی ہیں وہ شدت پسندی میری دوسرے مذاہب کے لیے تھی تو سوچیں کہ جب بات اپنے مذہب پر آئے گی تو میں کس قدر شدت پسند ثابت ہونگا۔ میں اخوت، بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور ملی اخوت کا قائل ہوں مگر جب میرے مذہب، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے قرآن پر کوئی بھی آنچ آئے گی تو میں شدت پسند ہی ثابت ہوں گا اور اس کے لیے مجھے اس سوچ کی ضرورت نہیں کہ اس کا تعلق میرے انسٹی ٹیوٹ، میرے کاروبار، میرے فرینڈ سرکل یا میرے دیگر معاملات زندگی سے ہے یا نہیں، جب میں نے دوسرے مذاہب یا انسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ نہ سوچا اور محبت کا پرچار کرتا رہا تو میرا ایمان اپنے مذہب کے بارے میں ایسا سوچنے کی مجھے گنجائش نہیں دیتا پھر چاہے میرے احتجاج، میری اس تحریر یا میری ایسی شدت پسندی سے کسی کو بھی کیسی بھی تکلیف ہو۔

میرا تعلق ان چند فیصد مسلمانوں سے نہیں جو دوسرے مذاہب کو اپنے مفاد اور اپنی نفرت کی آگ میں جلا کر جنت میں جانا چاہتے ہیں۔ میرا تعلق تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور نبی بھی وہ جو خود محبت میں شدت پسند تھے کہ پتھر کھا کر بھی دعا دیتے رہے اور کچرے سے کپڑے ناپاک ہوتے رہے مگر اف تک نہ کی اور پھر شدت پسندی ایسی کہ عیادت کے لیے بھی پہنچے۔

ہم مزید کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم کسی بھی صورت احتجاج تو کر سکتے ہیں۔ میں اور باقی مثبت سوچ کے مسلمان دوسرے مذاہب کے لیے کھڑے ہوتے آئے ہیں۔ ظلم تو ظلم ہے وہ کسی بھی انسان، کسی بھی مذہب اور کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ لہذا میری مسلمان دوستوں کے علاوہ غیر مسلم دوستوں سے بھی درد مندانہ ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ ملی اخوت اور مذہبی ہم آہنگی کو قائم رکھیں۔ احتجاج ضرور کریں پھر چاہے وہ کسی بھی صورت ہو۔

کاشف اعوان
Latest posts by کاشف اعوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).