کرتار پور سے گلگت بلتستان تک


کرتار پور راہداری کا مسئلہ بلکہ اس کی تعمیر ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کو پاکستان میں تو حکومتی سطح پر مستقل ایک خاص اہمیت دی جا رہی ہے مگر اس کے برخلاف عالمی میڈیا یا اقوام عالم کے ارباب اختیار اس کو پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی تناظر میں کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ ویسے بھی ان کے خیال میں اس فیصلے کے جو اثرات مرتب ہونے تھے وہ ایک برس قبل جب اس کا اعلان ہوا تھا ہو چکے۔ اور اب تو ایک تسلسل ہے کہ جس کے سیاسی اثرات کم از کم دکھائی نہیں دے رہے۔

جب کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا تو اس سے وزارت خارجہ کی جانب سے غیر ملکی سفارتکاروں کو آنے کی دعوت دی گئی۔ اس دوران وہ لاہور بھی آئے۔ G۔ 7 ممالک کے کچھ سفارتکاروں نے میرے سے ملاقات کی خواہش کی۔ میں نے ان تمام کو مشترکہ طور پر رات کے کھانے پر اپنے گھر میں مدعو کر لیا۔ سب سے اہم موضوع تو نواز شریف کی بیماری سے ہی متعلق تھا کہ جو گفتگو کا آغاز قرار پایا۔ نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرات درحقیقت وفاق پاکستان کو لاحق خطرات سے ان سفارتکاروں نے تعبیر کر رکھا ہے۔

اور یہ سمجھنے سے صریحاً قاصر نظر آئے کہ جو ملک مشرقی پاکستان کا سانحہ دیکھ چکا ہے اس کے مقتدر آخر کیوں کچھ سمجھے سے عاری ہے کہ وہ یہ سب دبادب کیے ہی چلے جا رہے ہیں کہ جس کے نتائج معاشی بدحالی کی صورت میں سامنے آ ہی رہے ہیں۔ خدانخواستہ اس سے بھی بات نہ بڑھ جائے۔ پھر گفتگو کا رخ تقریب اور اس کے اثرات پر چل نکلا تو سب کی ایک ہی رائے تھی کہ ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ بار بار ہمیں کیوں بلایا جا رہا ہے۔

اور کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی کوئی سیاسی اہمیت اس وقت بنتی جب بھارت کی سرکار پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے۔ مگر وہاں تو انہوں نے اپنے آئین میں ایسی تبدیلی کر ڈالی ہے کہ جس کے بعد کشمیر میں ایک خاص کیفیت قائم ہے۔ تعلقات میں بہتری کا امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ پھر اگر یہ خالصتاً مذہبی بنیادوں پر تھی تو اس میں ایسا رنگ بھرنے کی بار بار کوشش کیوں کی جا رہی ہے کہ اس کے سیاسی اثرات بلکہ مضمرات سے بھارت کو سابقہ پڑے گا۔

ایک سفارتکار نے استفسار کیا کہ ایک دوسرے مذہبی گروہ کے حوالے سے بھی خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ وہ بھی اس راہداری سے مستفید ہوں گے۔ کیا یہ درست ہے؟ ایک دوسرا معاملہ سی پیک کے حوالے سے سفارتکاروں کی زبانوں پر رہتا ہے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور موجودہ سست روی سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں ویسے بھی بہت رکاوٹیں موجود ہیں پر سبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ ایک سفارتکار نے بیان کیا کہ ان کا ملک پاکستان میں پنجاب میں آئی ٹی سنٹر قائم کرنا چاہتا ہے۔

وہ اس ضمن میں پنجاب کے ارباب اختیار سے ملے اور ان سے گفتگو کرنا چاہی مگر انہیں نے کہا کہ آپ ہماری بجائے مناسب ہے کہ ادھر رابطہ کریں کہ جہاں پر سر سر ہوتا ہے۔ کیونکہ فیصلہ ادھر ہی ہوتا ہے۔ کہنے لگے کہ ہم بھونچکا رہ گئے۔ اسی طرح سی پیک کے معاملات بھی تذبذب کا شکار ہیں اور سب سے اہم تذبذب یہ ہے کہ اس کے ترقیاتی کام وہاں پر اس رفتار سے نہیں ہو رہے کہ جو اس کا داخلی دروازہ ہے۔ یعنی کہ گلگت بلتستان میں معاملات ایک سستی روی کا شکار ہیں۔

حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے بہت شاندار جا رہی ہے۔ ان تمام سفارتکاروں نے گلگت بلتستان کی سیر کر رکھی تھی اور وہاں کے دلکش فطری مناظر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہاں کی حکومت کی کارکردگی کے بھی قائل تھے کہ محدود وسائل کے باوجود ترقیاتی کاموں اور امن و امان میں مثالی کارکردگی دکھائی گئی ہے۔ امن و امان ترقی کا پہلا زینہ ہوا کرتا ہے اور گلگت بلتستان میں امن و امان کو درپیش سب سے دردناک مسئلہ فرقہ ورانہ تشددتھا۔

مگرگذشتہ 4 سال سے وہاں پر ایک بھی فرقہ وارانہ تشدد کا سانحہ رونما نہیں ہوا۔ جس کا لازمی نتیجہ ترقیاتی عمل ہے۔ لیکن یہ سن کر میں سُن ہی ہو گیا کہ جب ان سفارتکاروں کی زبانی علم ہوا کہ گلگت بلتستان میں ماسوائے سی پیک کی ایک سڑک بننے کے اور تینوں منصوبوں کو شروع ہی نہیں کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ شروع کرنیکی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے۔ ابھی یہ کالم لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کا فون آ گیا۔

ان سے جب اس حوالے سے دریافت کیا کہ انہوں نے بھی اس کی من و عن تصدیق کر ڈالی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر فی الفور سی پیک پر عملدرآمد سے متعلق تمام اداروں اور افراد کو توجہ دینی چاہیے کیونکہ اسی نوعیت کی شکایات گوادار کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ سی پیک پاکستان اور چین کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ لہٰذا چین کو بھی چاہیے کہ وہ اس سے منسلک ملک کے کسی بھی حصے میں سست روی کے حوالے سے پاکستان کے ذمہ دار ان سے بات کرے کیونکہ ہم جتنی مرضی راہداریاں کھول لیں دشمن موقع کی تاک میں ہے اور یہ موقع صرف غلطیوں سے ہی مل سکتا ہے۔

کہ جن سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ گلگت بلتستان میں یہ تصور بہت مضبوط ہے کہ وہاں پر سی پیک کے منصوبوں کو اس لئے نہیں شروع کیا گیا کہ بھارت کا خوف ہے کہ وہ اس کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے۔ وہاں کے عوام کو اس تصور سے نکالنا از حد ضروری ہے کیونکہ غلط فہمی کسی نا مناسب حالات کی بنیاد بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).