تیس روپے


نومبر کی نیم سرد شام میں شہر کے مرکزی چوک کے سگنل پر گرم انڈے، گرم انڈے کی آواز گونج رہی تھی۔ بازو کے ساتھ لٹکتے انڈوں سے بھرے کولر کا وزن اسے اپنے کندھوں پر پڑ ی ذ مہ داری سے بھاری نہیں لگ رہا تھا۔

سگنل سبز ہوتے ہی جلد بازی میں نکلتی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سے خود کو بچاتے ہوئے وہ گرین بیلٹ کے پاس واپس پہنچا، دیوار کی ٹوٹی ہوئی دو اینٹوں کو اوپر نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گیا اور اب تک کی کمائی گننے لگا۔ دس اور بیس کے چند نوٹوں کے درمیان سو روپے کے نوٹ نے اس کی آنکھوں میں تھوڑی دیر کے لئے چمک پیدا کر دی۔ یہ سوچ کر اس کا دل مطمئن ہو گیا کہ ماں کی دوا کے لئے اسے بس اب چند روپوں کی ضرورت تھی۔ سگنل سرخ ہوتے ہی خالی سڑک پر رش بڑھنے لگا۔  بڑی گاڑیوں کے درمیان موجود تھوڑے تھوڑے فاصلے کو عبور کرتا وہ گرم انڈے  کی آواز لگاتا جاتا اور دل ہی دل میں خواہش کرتا کہ ٹریفک دیر کے لئے رک جائے تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو انڈے بیچ سکے۔

کالے رنگ کی ایک بڑی سی گاڑی آ کر رکی جس کی عقبی نشست پر بیٹھے دو بچے آپس میں کسی بات پرجھگڑا کر رہے تھے۔ لڑتے ہوئے بچوں نے ایک کاپی گاڑی کی کھڑکھی سے باہر پھینکی۔ ناصرکاپی کی جانب لپکا اور کاپی کو اٹھا کر واپس مڑا ہی تھا کہ اشارہ کھل گیا اور گاڑی چلی گئی۔ جہاں اسے بچوں کی کاپی ان تک نا پہنچانے کا رنج تھا وہیں وہ دل ہی دل میں خوش بھی ہوا۔ کاپی ہاتھ میں لئے بھاگتا ہوا کھمبے پر لگی سٹریٹ لائٹ کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ انڈوں کے کولر کو ایک طرف رکھا اور کاپی کے صفحے الٹ پلٹ کرنے لگا۔ کاپی کا گتا پھٹاہوا تھا جو ممکن ہے گاڑی میں ہونے والی لڑائی کے دوران پھٹا ہو۔

پہلے صفحے پرانگریزی کے بڑے حروف میں ناصرلکھا تھا۔ وہ اپنے باپ کے زندہ ہوتے جو دو جماعتیں پڑھ سکا تھا اس دوران اس نے اپنا نام لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا۔  این، اے، ایس، آئی، آر، ناصر۔ وہ بار بار ان لفظوں کو دہرا کر خوش ہو رہا تھاکہ دوبارہ اشارہ بند ہوا۔ گھاس پر بیٹھا خواجہ سرا زور زور سے تالیاں بجاتا گاڑیوں کی جانب بھاگا اور ساتھ ہی ساتھ ناصر کو بھی آوازیں دینے لگا، ارے موئے کیا رٹے لگا رہا ہے چل جو دو انڈے بچ گئے ہیں بیچ اور گھر کو جا۔

رانی بھی روزانہ اسی سگنل پر بھیک مانگتی تھی جہاں ناصر گھر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر انڈے بیچا کرتاتھا۔ روز کی ملاقات سے ناصر اور رانی کی کافی دوستی ہو گئی تھی دونوں ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ بانٹا کرتے تھے۔

اشارہ دیر تک بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی تھیں۔ موٹر سائیکل پر سوار نوجوان خیرات کے پیسے رانی کی جانب بڑھاتے اور پھر ہٹا لیتے اور رانی کے دعائیہ جملے اسی کے انداز میں دہراتے ہوئے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے۔

سڑک کی بائیں جانب شور مچاتا چنگ چی رکشہ آ کر رکا جس پر اونچی آواز مین عطا اللہ عیسی خیلوی کا مشہور گانا قمیض تیری کالی چل رہا تھا۔ اب ناصر کوگرم انڈے کی آواز لگانے کے لئے مزید اونچا بولنا پڑ رہا تھا۔ چنگ چی پر بیٹھے ہوئے لڑکوں نے اشارے سے اسے اپنی جانب بلایا اور دو انڈے خرید کر قیمت پر بحث کرنے لگے۔ ناصرنے انہیں دو، چارروایتی جملے بولے کہ صاحب 15 روپے میں تو اپنی خرید ہے مہنگائی بہت ہے سردی میں انڈہ مہنگا ملتا ہے۔

بحث جاری تھی کہ گاڑیاں چل پڑیں۔ چنگ چی رکشہ والا تیز رفتاری سے گاڑیوں کو پار کرنے لگا۔ ناصرپیسوں کے لئے پیچھے بھاگا، لڑکوں نے خود مقرر کردہ قیمت کے مطابق جیب سے تیس روپے نکال کر ہوا میں اچھال دیے۔ ناصر جو سرد رات میں ماں کی دوا کی لئے ان تیس رپوں کی خاطر رکا ہوا تھا ا ن کے پیچھے سڑک کے درمیان بھاگنے لگا۔ برق رفتار گاڑیوں کے ہارن بلند ہونے لگے۔ رواں ٹریفک کی تیز رفتاری سے دس دس کے تین نوٹ ہوا میں اڑ

رہے تھے۔ اڑتا ہوا ایک نوٹ سفید گاڑی کی مین سکرین پر جا کر چپک گیا۔ ناصر نے لپک کر تھامنے کی کوشش کی کہ گاڑی سے ٹکرایا اور اس کا مصوم وجود نوٹوں کی طرح ہوا میں لہراتا ہوا دور جا گرا۔

گرم انڈ ے، کی آواز آنا بند ہو گئی تھی، تیز رفتار گاڑیاں رک گئیں، رانی کے تالیاں بجاتے ہاتھ منجمد ہو گئے، مسلسل بجنے والے ہارنز میں ایمبولینس کے سائرن کی آواز بلند ہورہی تھی اور رکی ہوئی گاڑیوں کی روشن ہیڈ لائٹس میں تیس روپے سڑک پر پڑے دکھائی دے رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).