دوسرا مسلئہ۔ کسی بھی موبائل فون کا نیٹ ورک نہیں ہے۔


کہتے ہیں کہ کسی دوردراز کے پسماندہ گاؤں میں ایک سیاست دان گیا۔ اُس علاقہ کے لوگ سیاست دان کی آمد کا سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنے مسائل لے کر اُس سیاست دان کے ڈیرے پر ایک وفد کی صورت میں پیش ہوئے۔ سیاست دان نے ان مسائل زدہ لوگوں کو اپنی کارکردگی پر ایک لمبا چوڑا بھاشن دیتے ہوئے خوش خبری سنائی کہ اب ان لوگوں کے اچھے دن زیادہ دور نہیں ہیں اور بہت جلد اس خطے کی پسماندگی دور ہونے والی ہے اور ان کے مسائل حل ہونے والے ہیں۔

سیاست دان نے وفد سے کہا کہ وہ اپنے مسائل بیان کرئے تو وفد میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ ہمارے دو مسلئے بہت اہم ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ جلد سے جلد حل ہوجائیں۔ اس پر سیاست دان نے کہا کہ بالکل حل ہوں گے اپنا پہلا مسئلہ بیان کرو تو وفدکی ترجمانی کرنے والے شخص نے کہا کہ ان کاپہلا مسئلہ یہ ہے کہ اس بستی سے ہسپتال اور ڈاکٹر بہت دور ہیں اگر بستی کا کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کے علاج معالجہ میں بہت تکلیف ہوتی ہے اور سفر کی وجہ سے کئی بیماروں کو ہسپتال تک لے جانا ممکن نہیں ہوتا تو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بستی میں ڈاکٹر تعینات کیا جائے۔

یہ سن کر سیاست دان نے کہا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور چونکہ آپ کامطالبہ بالکل جائز ہے تو میں ابھی محکمہ صحت سے رابطہ کرتا ہوں اور ڈاکٹر کی تعیناتی کا حکم دیتا ہوں۔ یہ سن کر وفدمیں شامل افرادکے پریشان زدہ چہرو ں پر رونق آگئی۔ سیاست دان نے فورا اپنا فون نکالا کہ محکمہ صحت کے کسی افسر کو فون کرے مگر فون دیکھ کر وفد کے چہروں پر کچھ دیر پہلے پیدا ہونے والے خوشی کے تاثرات یکلخت گم ہوگئے اور اس کی جگہ پریشانی نے لے لی۔

خیر سیاست دان نے موبائل فون سے کسی افسر کا نمبر ملایا اور اس کو مذکورہ بستی میں صحت کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے اہل علاقہ کی پریشانی کا ذکر کیا اور فوری طورپراس بستی میں ڈاکٹر کی تعیناتی کا حکم جاری کیا۔ بات ختم ہوئی تو سیاست دان نے فون بند کرکے وفد پر ایک فاتحانہ نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے باآواز بلند کہا کہ آپ لوگوں کا پہلا مسئلہ حل ہوگیا ہے اور محکمہ صحت والے بہت جلد یہا ں پر ڈاکٹر کو تعینات کردیں گے اس طرح صحت کے حوالے سے آپ کو درپیش مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔

سیاست دان نے اب مسائل بیان کرنے والے شخص پر نظر ڈالی اور پوچھا تمہارا دوسرا مسئلہ کیا ہے تو جو شخص ابھی تک حیرت کے سمند ر میں غرق تھا بلکہ حیران ہونے سے زیادہ پریشان بھی تھا چپ کرکے کھڑا رہا۔ سیاست دان نے اس کی حیرانی اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ شاید ان لوگوں کومسائل کے اتنے جلد حل ہونے کی توقع نہیں تھی شاید اس وجہ سے حیران ہیں تو اُس نے دوبارہ پوچھا کہ اپنا دوسرا مسئلہ بیان کرو مگر مسائل بیان کرنے والا شخص توجیسے پتھر کاہوگیا ہو۔

حیران و پریشان اور ساکت وجامد۔ اس خاموشی سے وفد میں موجود افرادکی بے چینی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور چہروں پر پریشانی مزید گہری ہونے لگی۔ سیاست دان نے ایک بار پھر پوچھ اکہ تمہارا دوسرا مسئلہ کیا ہے بیان کرو مگر جواب ندارد۔ وہی پہلے والی خاموشی اور سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر پریشانی مزید بڑھ گئی۔ سیاست دان نے پہلے سے زیادہ بلند آواز میں زور دے کر کہا کہ تم اپنا دوسر امسئلہ کیوں بیان نہیں کررہے جلدی بتاؤ تو سامنے کھڑے شخص نے دھیرے سے کہا کہ سرکار ہماری بستی میں کسی موبائل فون کا نیٹ ورک نہیں ہے۔

یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور کس کے ساتھ پیش آیا یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔ اہمیت ہے تو اس بات کی سیاست دان نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا۔ اس نے اپنے فو ن سے جس افسر کوفون کرکے ڈاکٹر کی تعیناتی کا حکم جاری کیا وہ ڈاکٹر تو خیر کیا آنا تھا در حقیقت اس بستی میں موبائل فو ن کام ہی نہیں کرتا تھا۔ یہی کچھ آج عوام کے ساتھ ہورہا ہے۔ حکومتی سیاست دان عوام کو اُن کے مسائل کے حل کی کی خوش خبریاں سنا رہے ہیں اوربتا رہے ہیں کہ حکمرانوں نے بہت مشکل فیصلے کرکے ملکی معیشت کو سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے۔

سابقہ حکمرانو ں کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہی سے ہمکنا رہوچکی تھی مگر ہم نے اس تباہ ہوتی معیشت کو سہارا دیا ہے کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی کی ہے۔ امپورٹ کم ہوئی ہے اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔ قرضوں کی ادائیگیاں بہتر ہورہی ہیں اور ایف بی آر پہلے سے زیادہ ایمانداری سے کام کررہا ہے اور ریکارڈ ٹیکس اکٹھا ہورہا ہے۔ یہ عوام کا حکومت پر اعتماد ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ حکومتی خزانے میں ٹیکس جمع کرارہے ہیں۔

تبدیلی سرکار نے گویا ایک معاشی انقلاب برپا کردیا ہے۔ اور یہ خوشخبری آئے روز حکومتی وزیر مشیر اور ترجمان عوام کو میڈیا پر سناتے ہیں مگر عوام ہے کہ اُس کے چہرے پر پریشانی مزید بڑھتی جارہی ہے۔ عوام کی پریشانی کا عالم یہ ہے کہ کہنے کو کوئی بات نہیں اور بولنے کو لفظ نہیں جبکہ حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید عوام ان کی معاشی کارکردگی سے متاثر ہے اور خوشی سے عوام کی بولتی بند ہوگئی ہے۔ معاشی نظام کو ٹھیک کرنے کے بعد حکمران اب عوام سے دوسرے مسلئے کا پوچھ رہے ہیں تاکہ اس کو حل کیا جاسکے مگرعوام کی طرف سے جواب ندارد۔ باربار اصرار پرخدشہ ہے کہ کہیں عوام یہ ہی نا کہہ دے کہ سرکار ہماری بستی میں کسی موبائل فون کا نیٹ ورک نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).