دھرنے کا مرض، مولانا اور چند حقائق


سرد ہواکے جھونکوں نے موسم کی خنکی کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی کافی کمی کردی ہے۔ مارگلہ کے دامن میں ہفتوں سے جاری شورش وہیجان ختم ہوگیا اور روای اب چین ہی چین لکھتا ہے۔ اسلام آباد قدرتی خوبصورت کی وجہ سے یوں تو اپنی اندر ایک جاذبیت اور کشش رکھتا ہی ہے لیکن ماضی قریب پر نظر ڈال کر محسوس ہوتا ہے کہ دارالحکومت میں کچھ ایسی مغناطیسی طاقت ہے کہ ہرسال ایک سیاسی جتھا ملک بھر سے جمع ہوتا ہے اور اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔

لشکر کشوں کو اسلام آباد کی آب وہوا کچھ ایسی بھا جاتی ہے کہ ان کا شہر چھوڑنے کو من ہی نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالنے والے خود توخوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان کی اس معصومانہ سیاسی و تفریحی سرگرمی سے اسلام آباد کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کار سرکار متاثر ہوتی ہے اور امور مملکت معطل نہیں تو سست ضرور ہوجاتے ہیں۔ سنجیدہ و بے رحم سیاسی حق و باطل کی بحث سے قطع نظر دھرنوں کے مرض کا نفسیاتی مطالعہ کیا جائے توباآسانی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اسلام آباد کے شہری، وقت کی حکومتیں اور عوام اس مستقل سر درد سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہیں۔

حل کی تفصیلات سے پہلے مرض کی تشخیص بیان کرنا مناسب ہوگا۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں حکومت کی مدت پانچ سال ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات میں جیت کی امید اور اقتدار کا خواب دیکھنے والی جماعت اور شخصیات جب انتخابی نتیجہ کی حقیقت کا سامنا کرتی ہیں اور ان کو شکست کی صورت میں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال کے لیے کھیل سے باہر ہے تو وہ نفسیاتی پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور حقیقت سے انکاری ہوجاتی ہیں، اس انکار کی عملی شکل اکثردھرنوں کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ حل یہ ہے کہ حکومت کی مدت پانچ کے بجائے چار سال کردی جائے، اس سے شکست خوردہ جماعتوں کو نفسیاتی دھچکا نہیں لگے گا اور وہ انکار کی عملی شکل کے اظہار کے بجائے برداشت کا راستہ اختیار کریں گے، اور یوں پورا ملک اس سالانہ اذیت سے محفوظ ہوجائے گا۔

مولانا اسلام آباد کے پہلے قاصد نہیں تھے، 2012 میں طاہر القادری نظام کی تبدیلی کی خواہش لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ پیپلز پارٹی نے بہت مشکل سے مذاکرات کرکے ان کو روانہ کیا۔ 2013 میں انتخابات کی وجہ سے دھرنا ٹل گیا، 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری نے لشکر کشی کی، ہفتوں نہیں مہینوں تک سیاسی میلہ لگا رہا، حکومت شل ہوگئی اور دارالحکومت پر مظاہرین کا قبضہ ہوگیا۔ اس دوران ریڈ زون میں دونوں اطراف کے درمیان کشیدگی بھی دیکھی گئی جس سے پورے ملک میں سراسیمگی پھیل گئی اور نظام خطرہ میں نظر آنے لگا، لیکن بالآخر چار مہینوں بعد یہ سلسلہ بھی تمام ہوا۔

2016 میں ایک بار پھر پانامہ انکشافات کی بنا پر اسلام آباد لاک ڈاون کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، ملک بھر سے قافلوں نے شہر اقتدار کا رخ کیا، راستے بند ہوئے، جھڑپیں اور گرفتاریاں ہوئی، لیکن عدالتی مداخلت کی وجہ سے یہ معاملہ بھی تھم گیا۔ 2017 میں خادم رضوی صاحب نے اسلام آباد یاترا کی اور وزیر قانون کو فارغ کرواکر ہی ٹلے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد 2019 میں ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب حکومت مخالفین نے پیش قدمی کی، اس مرتبہ کا مارچ اور دھرنا مگر قدرے مختلف تھا، اس کے محرکات سیاسی تھے لیکن قیادت مذہبی تھی، لہذا اس انوکھے دھرنے نے کئی حقائق پاکستانی قوم پر آشکار کیے جو دھرنا نہ ہونے کی صورت میں کبھی بھی سامنے نہ آتے۔

2019 کے آزادی مارچ میں قوم نے پہلی مرتبہ اس مذہبی طبقے کو دیکھا جس کے متعلق اس سے پہلے میڈیا پر صرف قیاس آرئیاں ہی کی جاتی تھی۔ مدارس کے طلبا کی اتنی بڑی تعداد اتنے طویل عرصے میں منظر عام پر پہلے نہیں آئی۔ توجہ کا مرکز بننے سے اس طبقے کی کئی اچھائیاں اور برائیاں عوام کے سامنے آئیں۔ آزادی مارچ کے آغاز سے لے کر اسلام آباد پہنچنے تک، اور اسلام آباد میں پہلے دن سے روانگی تک، شرکا نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا وہ مثالی تھا۔

دوران سفر قافلے نے دیگر مسافرین کے لیے مشکلات پیدا نہیں کی، جس جگہ قیام کیا وہاں پر بھی اس طرح انتظام کیا گیا کہ دیگر لوگوں کو مشکل نہ ہو۔ املاک عامہ وخاصہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا، حتی کہ لاہور میں آزادی مارچ کے پہنچنے پر میٹرو بس بھی معطل نہیں ہوئی، شرکا کا یہ رویہ قابل تحسین ہے، کیونکہ فساد و ہنگامہ حکومت کو زیر کرنے کا آسان طریقہ ہوتا ہے، آزادی مارچ میں اس سے گریز کیا گیا اور عوام کی سہولت کو مد نظر رکھا گیا۔

اسی طرح اسلام آباد میں قیام کے دوران صفائی ستھرائی، اور امن عامہ کا خیال بھی بھرپور طریقے سے رکھا گیا۔ آزادی مارچ کے شرکا کے اس رویے سے عوام کو معلوم ہوا کہ مذہبی طبقہ جس کو اکثر دہشت گردی، انتہا پسندی، بدتہذیبی سے جوڑا جاتا تھا وہ درحقیقت ایک منظم اور مہذب طبقہ ہے، اور اس کو سیاسی تحریک کے ان آداب کا بھی خیال ہے جو دیگر روشن خیال جماعتوں کے کارکنوں کو نہیں ہے۔

دوسری جانب آزادی مارچ کے دوران مذہبی جماعت کی قیادت کی جانب سے جو بیانات دیے گئے اس سے ایک مرتبہ پھر ان کی سیاسی غیر سنجیدگی اور ذہنی نا پختگی منکشف ہوگئی۔ علیمہ خان کے 70 ارب کے اثاثوں کا ذکر، نوجوت سنگھ سدھو کو قادیانی قرار دینا، مارچ کی وجہ سے اسرائیل کی چالیس سالہ سرمایہ کاری ڈوب جانے کا دعوی اوروکی لیکس کے وکی کو جمائما کا کزن قرار دینا ایسے مضحکہ خیز بیانات تھے جس نے مارچ کی قیادت کو ایک لطیفہ بنادیا اور قوم کے سامنے ان کی سوچ کی سطحیت واضح کردی۔

آزادی مارچ کے گرم شعلوں کو شمالی ہواوں نے ٹھنڈا کردیا، مولانا روانہ ہوگئے اور اپنے پیچھے قوم اور تاریخ کے لیے ایسے نشانات چھوڑ گئے جس کی بنا پر ان کو اور ان کے پیروکاروں کو عرصہ دراز تک جچا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).