پاکستان اور دائرے کا سفر


آج اس ملک کو ایک ایسے قطعہ اراضی کے طور پر سمجھنا ضروری ہوگیا ہے جسے اندازِ سیاست اور حقِ حکمرانی کا عفریت نہایت سرعت سے نگل رہا ہے۔ آج اس ملک کے مضمحل وجود سے تقسیمِ ہند کے خواب کا خون یوں رِس رہا ہے کہ سوچنے والے ایک نظریاتی ریاست کے اِس غیر فطری مرگ کو چشمِ تصور میں لاتے ہیں اور لرز جاتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ کن عوامل نے دائرے کا یہ لا متناہی سفر ہمارے مقدر میں لکھ ڈالا ہے۔

پاکستان اور سیاست۔ یہ دو نام لازم و ملزوم محسوس ہوتے ہیں۔ نفیس تشبیہات اور پُر تکلف استعارات کا کیسا ہی سہارا لے لیا جائے، اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں برتی جا سکتی کہ پاکستان کو سمجھنا ہے تو سیاست کو بالعموم اور پاکستانی سیاست کو بالخصوص سمجھنا ہوگا۔ اور سمجھنے کے اس سفر میں یہ بظاہر دقیق مگر اصلاً ایک سادہ سا نقطہ بھی منظرِ عام پر رہنا ضروری ہے کہ پاکستانی سیاست نہ تو پولیٹیکل سائنس سے منسلک کتابوں کی عرق ریزی سے سمجھ میں آتی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر موجود قابلِ اعتماد جریدوں میں بلند پایہ مکالے اور مضامین چھاپنے سے۔

اسی طرح پاکستانی سیاست کا مکمل احاطہ نہ تو ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے وہ ”سینئر تجزیہ نگار“ کر سکتے ہیں جن کی اکثریت کا روزگار ٹی وی چینلز کی ریٹنگز اور جملہ سیاست دانوں کی داد سمیٹنے پر منحصر ہے، اور نہ وہ اخباری تراشے جن کی چکاچوند سے ہمارے صبح شام روشن ہیں۔ میری نظر میں پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک ابنِ خُلدون چاہیے جو سطح زمین سے اوپر اٹھ کر اور زمینی تعصبات سے آزاد ہو کر روز مرہ میں گزرنے والے حالات و واقعات کا ایک غیر جذباتی جائزہ لے اور تاریخ کی بے رحم روشنی میں پاکستانی سیاست پر اپنی ایک بے لاگ رائے قائم کرے۔ اب چونکہ تا دمِ تحریر پاکستان کو یہ سہولت میسر نہیں ہے، اس لیے گزارش ہے کہ سرِ دست راقم پر گزارہ کیا جائے۔

میری نظر میں پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی نقطہ ہائے نظر کا احاطہ ضروری ہے۔

پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اور سیاستدان بننے کے عمل کے تین مدارج ہیں۔ پہلا درجہ پیدائش کا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سیاست آپ کے گھر کی باندی بنے تو ضروری ہے کہ آپ مقتدر حلقوں کے ہاں از سرِ نو پیدا ہوں۔ اُن کی گود میں کھیلیں، ان کے سایہ شفقت میں تربیت پائیں اور یوں عنفوانِ شباب کو پہنچیں کہ ایک مدت تک اپنے مستعار شدہ ماں باپ کے مطیع و فرمانبردار رہیں۔ اس صورت میں آپ کی بلند پروازی آپ کی اپنے ”اسلاف“ سے مضبوط تعلق کی مرہونِ منت ہوگی۔

لڑکپن کی حدود سے نکل کر جوانی کی سرحدوں میں پہنچنے تک دوسرے درجے کا آغاز ہو جائے گا جہاں آپ کے اندر یہ احساس جاگزیں ہوگا کہ محض اقتدار کی پر فسوں غلام گردشوں کی سیر کر لینے سے ایک مصنوعی سیاست دان تو تخلیق کیا جا سکتا ہے مگر آپ اُس فطری ارتقا سے محروم رہ جاتے ہیں جو ایک حقیقی سیاست دان کا طرہ امتیاز ہو سکتا ہے۔ اس درجے میں آپ عام جنتا کی طرف رخ کرتے ہیں، عوام سے اپنا تعلق استوار کرتے ہیں، اپنی پارٹی کی تنظیمِ نو کرتے ہیں اور یوں ایک اور سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

اس سفر کے سرے پر ہی مگر ایک پل صراط ہے۔ جس کا نام تیسرا درجہ ہے۔ یہاں ممکن ہے آپ کا سامنا اپنے اسلاف سے اس طرح ہو جائے کہ آپ دونوں کے مفادات ٹکرا جائیں۔ یہاں آپ کی مشرقی اور مغرب کی جمہوری روایات کے درمیان گھمسان کا رن پڑ سکتا ہے۔ آپ معاملہ فہمی، مصلحت پسندی اور صلح جوئی کا ثبوت دے کر یہیں سے واپس بھی ہو سکتے ہیں اور اگر پار جانے کا سودا دماغ میں سما ہی چکا ہے تو پھر جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔

ایک ایسی جنگ جو نفسیاتی، جذباتی، دماغی، جسمانی، سیاسی اور قانونی، سب محاذوں پر یکساں لڑی جائی گی۔ یہ جنگ آپ کی ساری صلاحتیں چُوس سکتی ہے، موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے، آپ کی ساری اخلاقی قدریں ذلیل و نا مراد کر سکتی ہے اور آپ کی دھجیاں اڑا سکتی ہے۔ یہ جنگ آپ کی نئی سیاست کا نقطہ آغاز بھی بن سکتی ہے اور موجودہ سیاست کا لمحہ انجام بھی۔ آج تک کوئی دوسرے کنارے پر نہیں پہنچا۔ گمان غالب ہے جو مردِ قلندر اس ہچکولے لیتی کشتی کو سلامتی کے ساتھ پُل صراط کے دوسری طرف اتارنے میں کامیاب ہو گیا، ہمیشگی اُس کا اور استحکام پاکستان کا، جُزوِ لافینک بن جائیں گے۔

یہ اس سارے قضیے کا مگر ایک رخ ہے۔ ایک یکسر مختلف بیانیہ بھی موجود ہے جو آج سے ایک سال قبل پاکستانی سیاست کا مقبول ترین بیانیہ تھا۔ یہ بیانیہ کیا ہے؟ پاکستان کیا ہے؟ ایک ناکام ریاست۔ پاکستان کو بننا کیا تھا؟ ایک اسلامی فلاحی ریاست۔ پاکستان آج ایسا کیوں ہے جیسا ہے اور ویسا کیوں نہیں جیسا سوچا گیا تھا۔ کیونکہ پاکستان اپنی پیدائش کے وقت سے ہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور ٹھیکیداروں کی ایک ایسی مختصر، مگر تمام وسائل پر قابض، اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہوگیا جس نے قائد کی موت کے بدلے سارا پاکستان خرید لیا تھا۔

گزشتہ ستر برس سے یہ خدائی ٹھیکیدار ہماری زمین پر اگنے والی ہر فصلِ گل کا سایہ تک چھین چکے ہیں۔ یہاں وہ خوش کن خواب تعبیر کا چہرہ اس لیے نہیں دیکھ سکا کہ سماعتیں چھین لی گئی ہیں، آنکھیں اداس کر دی گئی ہیں، انصاف خرید لیا گیا ہے، ادارے ناگفتہ بہ ہیں اور عنقریب ہم اپنے ہی تخلیق کردہ مسائل کے انبوہ کے بوجھ تلے زمین بوس ہو جائیں گے۔ اس ڈگر پر سوائے پژمردگی کے کچھ نہیں دھرا۔ ہمیں راستہ بدلنا ہے۔ چہرے بدلنا ہیں۔ اور اس سب سے پہلے ان فرعونوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے جو آج اس المیے کے ذمہ دار ہیں۔ ورنہ یہ دائرے کا سفر رکنے والا نہیں۔

آج پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ انھی دو نقطہ ہائے نظر کی نمائندہ اور امین ہیں۔ کیا ہم تا ابد انہی دو انتہاؤں کے درمیان معلق رہیں گے یا ہماری ناؤ کسی ساحل سے ایک دن ٹکرائے گی اور بھنور کا یہ سفر کبھی ختم ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).