طلبا مزاحمت اور مذمت کریں گے



طلباء کی آزادی کے لئے ملک مختلف شہروں میں آگاہی اور شعوری بیٹھکیں ہوتی رہتی ہیں لیکن فیض فیسٹول لاہور میں طلباء کی ایک منفرد اور باشعور اجتماع (احتجاج بھی کہہ سکتے ہے ) نے ملک سمت بیرون ملک وہ اثرات مرتب کیے جس سے طاقتور حیران اور غریب، جمہوریت پسند اور ترقی پسند کے دل گارڈن گارڈن ہوگیا ہے کیونکہ اب کی بار طلباء نے نئے انداز، جوش اور ولولے سے ظلم اور پابندیوں کی مزاحمت اور مذمت کی ہے۔

طلباء سیاست پر ضیاء الحق کے ُدور اقتدار میں پابندی لگائی گئی تھی اور جواز یہ دیا کہ اس سے طلباء کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے لیکن پس پردہ وجہ یہ تھی کہ طلباء سیاست سے طلباء کو سیاسی شعور، آئینی، بنیادی اور جمہوری حقوق کا درس دیا جاتا تھا جس سے طلباء امریت کی مزاحمت اور مذمت کرتے تھے۔

طلباء سیاست پر پابندیوں کے بعد آج کے طلباء کی حالت یہ ہے کہ ُان کو سیاست کے معنی نہیں پتا، سیاست کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی آج کے طالب علم کو یہ معلومات ہے کہ ایک منتخب نمائندے کیا کا کام ہے اور ایک فوجی کا کیا کام ہے جس کا چشم دید گواہ میں خود ہوں، میرے ایکس یونیورسٹی میں اکثر سے زیادہ کلاس فیلوز کو صدر، گورنر اور آرمی چیف کے اختیارات کے علم ہی نہیں تھا یہی حالت ہر کلاس کی ہوتی تھی اور ہے وہ طلباء کسی بھی نا انصافی کی مزاحمت نہ مذمت کر پاتیں۔

طلباء سیاست پر پابندی کے بعد سے آج دن تک سیاست کو گناہ کے درجے میں رکھا جارہا حالنکہ سیاست ایک عبادت ہے، سیاست عوامی فلاح ہے، اور سب سے بڑ کر سیاست برداشت، ہمت، علم، روشناسی، اختلاف، شعور کا دوسرا نام ہے پر ہمارے ہاں سیاست کو منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور جنہوں نے پابندی لگائی وہ چاہتے یہی تھیں ان مقصد بھی یہی تھا کیونکہ وہ روز اول سے سیاست، جمہوریت، عوامی رائے سے نفرت کرتے تھے لیکن اب خاموش رہنا شاید گناہ ہوگا جیسے لیڈر جیکٹ والی عروج اورنگزیب (پی ایس او) کی رکن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”سیاست میں عوام کے لئے فیصلے ہوتے ہیں اور ان فیصلوں میں ہمیں شریک ہونا چاہیے“۔ ہم طلباء کو بھرپور سیاست کرکے مزاحمت اور مذمت کرنی چاہیے۔

طلباء سیاست پر پابندی سے آج ہم عوامی نمائندوں سے محروم ہے جو لوگ آج ہمارے لیے فیصلے کررہے ہیں۔ اُنہیں علم ہی نہیں کہ عوامی مسئلے کیا اور عوامی فلاح کب کہا اور کیسے کرنا چاہیے جس کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے ہمارے مشیر خزانہ کو یہ نہیں پتا کہ ٹماٹر اور مٹر فی کلو کتنے کا مل رہا ہے خیر اب بات بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی سکینڈل کی بھی ہمارے سامنے جو سکینڈل آج کل فائیلوں کے نیچے دبھ گیا ہے ُاس کے لیے آواز اٹھانا عوامی نمائندہ کام ہے جو حکام بلا سے پوچھے لیکن ہمارے ہاں تو فقدان ہے عوامی نمائندوں کا اور نہ ہی یونیورسٹی میں طلباء تنظیمں ہیں جو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے عزت اورمستقبل کو بچانے کی کوشش کریں۔ نہ مزاحمت اور نہ مذمت کرسکتے ہیں۔

آخر میں گزارش ہے کہ طلباء سیاست، ہماری، آپ کی، ہم سب کے مسائل کی آزادی کے لئے 29 نومبر کو ملک کے مختلف شہروں میں طلباء کے ساتھ منقد کردا اتحاد اور یکجہتی مارچ میں اکٹھے ہوجائے جس کے بعد پھر ہم سب طلباء مل کر جاری نا انصافی، ہراسانی، میڈیا سینسر شپ، سلیکشن، ووٹ چوری، من پسند پابندیوں اور فیصلوں کی مزاحمت اور مذمت کریں گے۔ طلباء کی آزادی۔ آزادی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).