چین کے ساتھ سرد جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کی امریکی کوشش


جولائی 2018کا انتخابی عمل جب اپنی تکمیل کو پہنچا تو عمران خان صاحب کے وزیر اعظم پاکستان کا منصب سنبھالنے کے امکانات روشن ہوگئے۔ان کے اس عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل ہی امریکی وزیر خارجہ مگر ایک ٹی وی پروگرام میں نمودار ہوگئے۔کسی معقول نظر آتے پسِ منظر کی عدم موجودگی میں اینکرنے ’’اچانک‘‘ موصوف سے سی پیک کا ذکر چھیڑ دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ اگر پاکستان اپنی معیشت کو سنوارنے کی خاطر آئی ایم ایف سے رجوع کرے گا تو امریکہ کا اس ضمن میں کیا رویہ ہوگا۔ مائیک پومپیو نے پنجابی محاورے والے ’’پولے منہ‘‘ کے ساتھ کہا تو بس اتنا کہ ’’امریکی ڈالر(پاکستان کو ملے)چینی قرضے کی ادائیگی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔

مجھ جیسے گوشہ نشینوں کی فریاد شاذ ہی توجہ کے قابل گردانی جاتی ہے۔’’جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا ‘‘ والی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر چند معاملات کو جنہیں اپنی دانست میں اہم سمجھتا ہوں دہائی مچاتا رہتا ہوں۔ بارہا اس کالم میں مائیک پومپیو کے انٹرویو کا ذکر شروع کر دیا۔

بعدازاں عمران حکومت نے اقتدار سنبھال لیا تو اس کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے تعلق جن کا ایک صنعت کار گھرانے سے ہے اور وزیر اعظم کے شوکت خانم ہسپتال کے قیام کے زمانے سے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں عالمی سرمایہ کاروں کے لئے ’’بائبل‘‘ ٹھہرائے برطانوی اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے چین کے ساتھ سی پیک معاہدے کے تحت اُٹھے کئی منصوبوں پر سوالات اٹھا دیئے۔

ان سوالات نے تشویش و تجسس کی جو فضا پیدا کی اسے ’’نرم‘‘ بنانے کے لئے ایک کمزور سی ’’وضاحت‘‘ بھی آگئی۔ انگریزی محاورے والا Damage مگر ہوگیا۔ اس کے ازالے کے لئے بات یہ بھی چلی کہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کو بذات خود چینی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے لئے دوست ملک کا خصوصی دورہ کرنا پڑا۔ ان کے دورہ چین کے بعد اسد عمر جو ان دنوں ہمارے وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے بی بی سی کے ایک شو میں شریک ہوئے۔ بہت جارحانہ انداز میں انہوں نے اس شو میں چین سے لئے قرضوں کا دفاع کیا۔ اصرار کرتے رہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر قیامت نہیں آئے گی۔اس انٹرویو کے چند ہی روز بعد مگر وہ وزارت خزانہ کے منصب سے ہٹا دیے گئے۔ان کی جگہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانا پڑا۔

وہ آئے تو آئی ایم ایف سے تین سالہ معاہدہ بھی ہوگیا۔ مجھ جیسے کم علم نے فرض کرلیا کہ سی پیک ہماری اشرافیہ کے لئے اب ’’گیم چینجر‘‘ نہیں رہا۔ خسروبختیار بطور وزیر منصوبہ بندی اسے ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر برقرار رکھنے کا ماحول بنائیں گے۔

قومی اسمبلی میں سی پیک کے تحت چلائے منصوبوں پر نگاہ رکھنے کے ایک خصوصی کمیٹی بھی کام کررہی ہے۔اس کے اجلاس نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹھنڈے ٹھار ہونا شروع ہو گئے۔چند ہفتے قبل مگر وہاں رونق بحال ہونا شروع ہوگئی۔شاید اس رونق کو مزید پررونق بنانے کے لئے عمران خان صاحب نے اسد عمر کو دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔ان کی متحرک شخصیت کو سی پیک کے توانائی سے بھرپور احیاء کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ وہ خسروبختیار کی جگہ وزیر منصوبہ بندی تعینات ہوگئے۔ساتھ ہی یہ اطلاع بھی آئی کہ عجلت میں قائم ہوئی سی پیک کی نگران کمیٹی کی سربراہی عاصم باجوہ صاحب کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔چند ہی ماہ قبل وہ بلوچستان کی نگہبان Southern Commandکی سربراہی سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

سی پیک منصوبوں کی ’’گج وج‘‘ کے ساتھ بحالی کے امکانات روشن ہوتے ہی امریکہ کی وزارتِ خارجہ کی ایک بااثر افسرایلس ویلز گزشتہ جمعرات کے دن واشنگٹن میں بہت مؤثر شمار ہوتے ایک تھنک ٹینک کے اجلاس میں چلی گئی۔وہاں بہت تندی اور صراحت سے ایلس ویلز نے ا صرار کیا کہ چین پاکستان کو سی پیک کے نام پر قرضوں کے جال میں جکڑنے کی کوشش کررہا ہے۔اس کی جانب سے پاکستان کو اس ضمن میں دئیے قرضے ناقابل برداشت شرح منافع پر دئیے جاتے ہیں۔پاکستان میں اس کی بدولت روزگار مہیا کرنے کے نئے در نہیں کھلتے۔ چین بلکہ اپنے ہی شہریوں کو ان منصوبوں کے تحت نوکریاں فراہم کرتا ہے۔چین کی مدد یا سرمایہ کاری سے لگائے منصوبے ’’عمران حکومت کے اصلاحی اہداف‘‘ کی ضد ہیں۔ طویل المدتی تناظر میں پاکستان چین سے ملے قرضے کبھی ادا نہیں کر پائے گا۔ایک اعتبار سے گویا چین کا ’’معاشی غلام‘‘ بن جائے گا۔

لطیفہ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کی جانب سے ایلس ویلز کے بیان کا سرکاری سطح پر کوئی جواب آنے سے قبل جمعہ کے روز چین کے پاکستان میں تعینات سفیر نے اس کا سخت زبان میں نوٹس لیا۔ امریکہ کو یاد دلایا کہ پاکستان کو جب لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا تھا تو ایسے مسائل کے حل کے لئے واشنگٹن کی جانب سے کوئی پیش قدمی دیکھنے میں نظر نہیں آئی تھی۔کسی ٹھوس انداز میں پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے اب چین کے حوالے سے پاکستانیوں کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔چینی سفیر کے مذکورہ بیان کے ایک دن بعد اسدعمر صاحب بھی سی پیک کے دفاع میں طویل اور مؤثر دلائل دیتے سنائی دئیے۔

ٹھوس معاملات تک رسائی نہ ہونے کے باوجود گزشتہ ہفتے ہوئی بیان بازی کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں خود کو یہ کہنے پر مجبور محسوس کررہا ہوں کہ سی پیک کے ضمن میں امریکی سوچ پنجابی محاورے والی گدھی کی طرح برگد کے ’’اسی درخت‘‘ کے نیچے کھڑی ہوئی ہے جہاں آج سے ایک سال قبل تھی۔اظہار اس سوچ کا امریکی وزیر خارجہ کے انٹرویو کے ذریعے ہوا تھا۔

اس انٹرویو پر اب غور کریں تو گماں ہوتا ہے کہ یہ انٹرویو عمران خان صاحب کو چین کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں ’’ہوشیار باش‘‘والا پیغام دینے کے لئے سوچ سمجھ کردیا گیا تھا۔صحافتی زبان میں اسے ایک Managed انٹرویو کہا جاسکتا ہے۔

دریں اثناء ہمارے وزیر اعظم کی امریکی صدر سے ایک نہیں دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔جولائی میں ہوئے اپنے دورہ واشنگٹن کو انہوں نے ’’تاریخی‘‘ قرار دیا تھا۔وہاں سے لوٹنے کے بعد ویسے ہی محسوس کیا جیسا انہوں نے 1992میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد محسوس کیا تھا۔ان کی شادمانی سے تلملا کر مگر مودی سرکار نے 5 اگست 2019 کے روز مقبوضہ کشمیر کو ڈھٹائی سے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ دکھانے کا اعلان کردیا۔

کشمیر کا جداگانہ تاریخی تشخص اب بھارتی آئین تسلیم نہیں کرتا۔اس کے قبضے میں موجودکشمیر کو دو حصوں میں بانٹ کر Union Territory بنا دیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت جیلوں میں ہے۔80 لاکھ کشمیری ابلاغ کی جدید ترین سہولتوں سے محروم ہوئے اپنے گھروں تک محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ہمارے ’’دوست‘‘ ٹرمپ نے اس ضمن میں ’’ثالثی‘‘ کا کردار ادا نہیں کیا۔ ایلس ویلز بھی 5 اگست 2019 کو ہوئی بھارتی آئین میں تبدیلیوں کو زیر بحث نہیں لا رہی۔ ’’انسانی حقوق‘‘ کے بارے میں ’’تشویش‘‘ کا اظہار ضرور کرتی ہے۔ اس ’’تجویز‘‘ کے ساتھ کہ لداخ سے جدا کئے ’’جموں وکشمیر‘‘ کی ’’صوبائی اسمبلی‘‘ کو بحال کیا جائے۔ اس کے ’’احیا‘‘ کے لئے انتخابات کا بندوبست ہو۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کو ایسے سفارت کارانہ بیانات کے ذریعے واضح انداز میں لیکن تسلیم کرلیا گیا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر گویا پاکستان کو ’’جھنڈی‘‘ دکھانے کے بعد امریکی توجہ اب پاکستان کو چین کے ’’حلقہ اثر‘‘ سے ’’آزاد‘‘ کروانے کی جانب مبذول ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ واردات اس وقت ظہور پذیر ہورہی ہے جب 1970کی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے خفیہ انداز میں چین کا پہلا سفر کرنے والے ڈاکٹر ہنری کسنجر نے چینی دارالحکومت میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ’’آغاز‘‘ کے بجائے اگرچہ اس نے Bottom Line Point کا لفظ استعمال کیا۔اس مقام سے معاملات بلندی کی جانب ہی بڑھا کرتے ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کو کہیں امریکہ اور چین کے درمیان جاری ہوئی سرد جنگ میں دھکیلا تو نہیں جارہا۔ ایک اور Proxy War کی آماجگاہ۔ اس سوال کا جواب مگر کون دے گا؟ ہمارا میڈیاتو ابھی تک یہ بھی طے نہیں کرپایا ہے کہ نواز شریف واقعتا ’’علیل‘‘ ہیں یا عمران خان صاحب کے دل میں ’’رحم‘‘‘ کے جذبات اجاگر کرنے کے لئے ان کی ’’شدید بیماری‘‘ کا ’’ڈرامہ‘‘ رچایا گیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).