سی پیک کو بیرونی نہیں، داخلی بد اعتمادی سے خطرہ ہے


پاکستان اور چین کے مابین تجارتی راہداری عرف سی پیک پر قلم اٹھاتے ہوئے ہاتھ اس لئے ججھکتا ہے کہ ریاست کی طرف سے یہ قومی سلامتی کا گیم چینجر معاملہ قرار پا چکا ہے ۔ ہماری جیسی نیشنل سیکیورٹی کی اسٹیٹس (ْقومی سلامتی کی ریاستوں) میں ایسے امور پر رائے دینے والا اپنی سر کی سلامتی کا ذمہ دار خود ہی ہوتا ہے۔ اوپر سے تعلق گلگت بلتستان نام کے خطے سے ہونا بھی پرچہ حل کرنے سے پہلے ہی شہریت اور شناخت کے 20 نمبر کاٹ دیتا ہے۔ ہم جیسےجمہوریت پسندی اور عوام کی حق حکمرانی کی بیماری میں مبتلا انسانی حقوق اور برابری اور مساوات جیسے الفاظ بکنے کے ہذیان میں مبتلا پہلے ہی مشکوک لوگ سی پیک جیسے علاقہ ممنوعہ میں داخلے کی جرات نہیں کرتے۔

وہ تو خیر ہو تبدیلی سرکار کی جس نے حلف اٹھاتے ہی سی پیک کے منصوبوں پر سوال اٹھایا اور اس کے وزیر تجارت نے برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز کو دئے انٹرویو میں چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر اعتراضات اٹھائے۔ اس انٹرویو کے بعد شائد بیجینگ کی ناراضی زیادہ تھی تب ہی ہمارے سپہ سالار کو خود جاکر چینی حکام کی تشفی کرانی پڑی۔ ہم جیسوں کو پھر بھی کچھ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ ہمارا نام رزق داؤد نہیں اور نہ ہی اسد عمر ہے۔

اب امریکہ نے سی پیک کے معاہدوں میں پاکستان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس کے ازلی حلیف کے ساتھ ایسی چالاکیوں سے باز رہے۔ جو وضاحتیں چین اور پاکستان کو سرکاری سطح پر دینی تھیں وہ دے دیں جو ایک نئی بحث اورخارجی جھگڑے کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔ بطور شہری اوراس خطے میں امریکی پالیسیوں سے متاثر زندگی گزارنے والے بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے سے خود کو نہیں روک پائے جس سے ایک داخلی مباحثے کا آغاز ہوا۔

امریکی سامراج مردہ باد کے نعرے اس دور سے لگاتے آئے ہیں جب ہمیں نہ امریکہ کا جغرافیہ معلوم تھا اور نہ ہی سامراج کا مطلب۔ سکول میں تھے جب ایران میں سامراج کی پروردہ شہنشاہت کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔ امریکہ نے اپنے حلیفوں، حاشیہ برداروں اور اتحادیوں کی وساطت سے سماجی انصاف اور برابری کے لئے برپا کیے جانے والے انقلاب کو مذہبی جنگ بنا دیا۔ ایشیا میں ترقی و تمدن کے استعارہ ایران کے دکھ چالیس سال بعد بھی دور نہ ہوسکے۔ آج اس ملک کی تیسری نسل بھی امریکی ظلم و ستم کے نشانے پر ہے۔

ستر کی دہائی کے انقلابی دور میں ہمارے پڑوس میں افغانستان کے لوگوں نے بھی بادشاہت اور رجعت پرستی کے بجائے جمہوریت اور ترقی پسندی کا فیصلہ کیا تو ہزاروں میل دور امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھے۔ افغانستان میں بچھائے سڑکوں کے جال، تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کو کفر قرار دلوا کر بنیاد پرست ملاؤں اور رجعت پسند جنگجو قبائلی سرداروں پر ڈالروں اور سعودی ریال کی بارش کی گئی جس کے نتیجے میں بھڑکی آگ سے آج بھی افغانستان دنیا میں ہی جہنم اور آہ و فغاں کی تصویر بنا ہوا ہے۔

اب ہمیں بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چین کے خلاف ہم کھڑے ہوں اور ایک بار پھر ایک نئی جنگ کا آغاز کریں جس کے نتیجے میں آئندہ کی دو چار نسلیں پھر برسر پیکار ہوں اور امریکہ ہزاروں میل دور بیٹھ  کر اس کا نظارہ کرتا رہے۔ چین کے ساتھ کیسے نبھانا ہے اس کا فیصلہ یہاں کے لوگوں اور حکومت کو کرنا چاہیئے نہ کہ امریکی عوام اور حکومت کو۔ چین اگر کچھ غلط کرتا ہے تو یہ افریقہ نہیں اور نہ فلپائن ہے جہاں ایک آدمی اپنا شخصی راج قائم کر کے لوگوں کو غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔ یہ خطہ کسی امیر المومنین کو بھی پانچ سات سال سے زیادہ برداشت نہیں کرتا تو کسی غیر کے یہاں جمنے کا سوال دور کی بات ہے۔

سی پیک کے نام سے مقبول ہوئے اس منصوبے پر داخلی طور پر بھی کبھی برسرعام اور کبھی کبھار اشاروں کنایوں میں کچھ انتہائی سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے گئے جو تشنہ جواب رہے جس کی وجہ سےاس منصوبے میں عامتہ الناس کی شراکت داری کا فقدان ہے۔ چونکہ اس منصوبے پر قومی سلامتی کی مہر لگا کر اس کے امور منظر عام سے دور اخفا میں رکھے گئے اس لئے معلومات کے لئے اندازوں اور قیاس آرائیوں پر اکتفا کیا گیا جس کی وجہ سے داخلی طور پر بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی ہے جو امریکی یا بیرونی اعتراضات سے سے زیادہ مضر ثابت ہوسکتی ہے۔

نواز شریف کے دور میں پہلے بتایا گیا کہ لاہور شہر کا گرین لائن ٹرین کا منصوبہ پنجاب حکومت کا اپنا ہے جس کا سی پیک سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بعد میں جب حقائق سامنے آئے تو اقرار کرنا پڑا کہ یہ سی پیک کا ہی منصوبہ ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ لاہور اور ملتان کے شہریوں کو بہتر سفری سہولیات ملیں مگر جب پوچھا گیا کہ ان منصوبوں کا سی پیک سے کیا تعلق بنتا ہے تو سوال اٹھانے والے کی ملک سے وفاداری ہی مشکوک قرار پائی۔ بالکل اسی طرح مشرقی اور مغربی روٹ کے معاملے میں بھی راز داری برتی گئی اور مسلسل غلط بیانی کی جاتی رہی جس کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اس منصوبے کے بارے میں بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی۔

پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کا نقطہ آغاز گلگت ہے جہاں دونوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ مگر اس منصوبے سے یہ علاقہ یکسر غائب ہے اور صرف تقریروں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ سی پیک کے بعد یہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دور میں شروع ہونے والے شاہراہ ریشم کےتوسیعی منصوبے کے لئے لی گئی زمینوں کے معاوضے آج تک نہیں ملے اور لوگ عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

کاغذات میں کئی منصوبے دکھائے جاتے رہے جن میں شاہراہ قراقرم کی متبادل سڑکیں اور بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں مگر عملی طور پر صرف چین کی سرحد تک سڑک کے کنارے ایک فائبر کیبل بچھانے کے کوئی کام آج تک نہیں ہوا۔ عام لوگوں کو بچھائے جانے والےفائبر کیبل سے کیا فائدہ ہوگا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ جب لوگ سی پیک سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے علاوہ کسی اور نتیجے کا تقاضا کرتے ہیں تو ان پر شیڈول فور لگا کر ان کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جاتی ہے۔

اس منصوبے کا ایک اہم حصہ بلوچستان کا ساحل اور گوادر کی بندرگاہ ہے جس میں سرمایہ کاری اور ترقی کی باتیں دن رات سننے کو ملتی ہیں۔ گوادر کے عام شہری آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور یہاں صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔ بندرگاہ سے ملحقہ چار دیواری کے اندر ایک نیا شہر بسایا جا رہا ہے جہاں گوادر کے لوگوں کو آنے جانے کی اجازت بھی نہیں۔ بلوچستان کے عوام بالعموم اور گوادر کے لوگ بالخصوص جب سی پیک کے منصوبے میں اپنے بچوں کو لئے پانی، صحت اور تعلیم کی سہولتیں ڈھونڈتے ہیں تو ان کی ملک سے وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ جب عوام اپنی وسیع شراکت داری سے ترقی کے عمل کو اپناتے ہیں اور اس میں حصہ دار بنتے ہیں تو ایسی ترقی کو کسی قسم کی بیرونی سازش سے ناکام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جب عدم شرکت سے لوگ خود کو ترقی کے عمل کا حصہ نہیں سمجھتے ہیں تو ایسی ترقی پائیدار نہیں ہوتی اور اس کی ناکامی کے لئے کسی بیرونی سازش کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan