بلال غوری کا ناقابل اشاعت کالم: نواز شریف واپس آ گیا تو؟


میں ایک سرٹیفائیڈ ”انصافیا“ ہوں اورمحلے دار ”پٹواری“ سے میری لاگت بازی چلتی رہتی ہے۔ پہلے ہی اس بات کا رنج تھا کہ ”پٹواری“ کی ترقی ہو گئی ہے اور اب اسے سینئر ولیج افسر کہا جانے لگا ہے جبکہ میرا عہدہ تبدیل نہیں ہوا مگر نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر تو وہ کندھا ہی میسر نہیں آ رہا جس پر سر رکھ کر رویا جا سکے۔ نواز شریف کی علالت پر میں نے خود پر جبر کرکے بمشکل تہذیب و شائستگی کی ملمع کاری کر کے یہ بات تسلیم کی تھی کہ وہ بیمار ہیں کیونکہ حکومت کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ ہی نہیں، شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی ان کی بیماری کی تصدیق کردی تھی۔

روایتی موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کسی سیاسی حریف کو بیمار تسلیم کرنے کی ایک وجہ یہ احساس ندامت بھی تھا کہ کلثوم نواز صاحبہ کی علالت کو ہم لوگ ڈھونگ قرار دیتے رہے، یہاں تک کہ ان کے انتقال کی خبر آگئی۔ لیکن نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر میرے اندر کا ”انصافیا“ پوری آب وتاب کے ساتھ سامنے آ گیا ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ نواز شریف کسی لگژری گاڑی کے بجائے ایمبولینس میں ایئر پورٹ روانہ ہوتے، وہاں سے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر ایئر ایمبولینس کے قریب لایا جاتا، جب انہیں اٹھا کر جہاز میں سوار کیا جارہا ہوتا تو وہ درد سے کراہتے، نحیف و نزار نواز شریف کو اس حالت میں دیکھ کر اطمینان ہوتا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی کمزور پڑ گیا ہے۔ مگر بغور جائزہ لینے کے باوجود مجھ جیسے تمام ”انصافیوں“ کو وہ بیمار دکھائی نہیں دیا جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اس کے جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ آپ ہی بتائیں، کیا کوئی مریض اتنے مہنگے اور عمدہ کپڑے زیب تن کر سکتا ہے؟

اگر نواز شریف صاحب بیمار تھے تو یہاں پاکستان میں اپنا علاج کرواتے۔ وہ تین مرتبہ اس ملک کے وزیراعظم اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، کیا یہ ان کی ناکامی نہیں کی وہ آج تک کوئی ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے جہاں وہ اپنا علاج کروا سکتے؟ اب پٹواری کہیں گے کہ ڈکٹیٹر بھی تو 33 سال تک سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں وہ کوئی ایسا سی ایم ایچ کیوں نہیں بنا سکے جہاں ان کا علاج ہوسکے۔ ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ سے یہ حوالہ نکال کر لائیں گے کہ جب 16 اکتوبر 1951 ء کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں قتل ہوئے تو آرمی چیف جنرل ایوب خان لندن کے اسپتال میں پیچش جیسے معمولی مرض کا علاج کروا رہے تھے۔ پرویز مشرف کے کمر درد کا طعنہ دیا جائے گا۔ لیکن یہ گھامڑ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری لاگت بازی تمہارے ساتھ ہے تو ڈکٹیٹروں کو بیچ میں کیوں لاتے ہو؟ ویسے بھی ان کا اور تمہارا کیا موازنہ ہے؟ کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی۔

مجھے اپنے کپتان پر بہت ناز تھا اور اس کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کیا کرتا تھا۔ مجھے ایمان کی حد تک یقین تھا کہ میرا کپتان ان چوروں اور ڈاکوؤں کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالے گا اور حسب وعدہ کسی کو این آر او نہیں دے گا۔ ضمانت ہونے کے بعدجب ای سی ایل سے نام ہٹانے کے لئے کپتان نے سات ارب کے ضمانتی بانڈ لینے کی شرط عائد کی تو اس نے ہمارے دل جیت لئے۔ ہمیں لگا کپتان سب کچھ تیاگ دے گا مگر نواز شریف کو بیرون ملک نہیں جانے دے گا۔

لیکن یہ سزا یافتہ قیدی حکومت، عدلیہ اور ریاستی اداروں کو چکمہ دے کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوگیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اب کوئی اس بات کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سارا ملبہ یہ کہہ کر میرے کپتان پر ڈالا جا رہا ہے کہ حکومت کو اختلاف تھا تو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی گئی۔ اتنی سی بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ میرے کپتان نے وزیراعظم بننے کے بعد پہلی بار دو دن کی چھٹی لی۔ اگر وہ مراقبے کی کیفیت میں نہ ہوتے تو اپیل ضرور کی جاتی۔ لیکن شاطر سیاسی مخالفین نے جان بوجھ کر ایسے موقع کا انتخاب کیا جب کپتان کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جاسکے۔

ویسے ایک بات تو میں بھی مانتا ہوں کی نواز شریف قسمت کا دھنی ہے۔ بھٹو جیسے زیرک سیاستدان کے ستارے گردش میں آئے تو وہ موت کے منہ سے نہ بچ پائے مگر میاں صاحب بار بار موت کو جُل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سب کا خیال تھا کہ ”ڈکٹیشن نہیں لوں گا“ والی تقریر کرکے انہوں نے سیاسی خودکشی کر لی ہے مگر سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کر دی اور پھر چند سال بعد ہی وہ ہیوی مینڈیٹ لے کر وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے ایک بار پھر خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا تو دماغ سے یہ خناس نکالنے کے لئے پرویز مشرف جیسے معالج کی خدمات حاصل کی گئیں۔

طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ ہوا، عمر قید کی سزا ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کروایا جائے گا لیکن ایک دن اچانک سعودی عرب سے شاہی جہاز آیا اور شریف خاندان کو موت کے منہ سے بچا کر لے گیا۔ جلاوطن تو اس نیت سے کیا گیا کہ اب یہ کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی لیکن کہانی نے ایک نیا موڑ لے لیا اور نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کا ارادہ کرلیا۔ 10 ستمبر 2007 ء کوجہاز اسلام آباد ایئر پورٹ اترا تو نواز شریف کو زبردستی جدہ جانے والے جہاز میں بٹھا دیا گیا کیونکہ ان کی واپسی سے نظام تلپٹ ہونے کا اندیشہ تھا۔

18 اکتوبرکو بینظیر بھٹو واپس آگئیں تو نواز شریف کو بھی وطن واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ 25 نومبر 2007 ء کو نواز شریف پاکستان واپس آئے اور اگلے برس ہی پرویز مشرف کو رخصت ہونا پڑا۔ تیسری بار وزیراعظم بننے پر توقع تو یہ تھی کہ اب دماغ درست ہو چکا ہوگا مگر وہی ہٹ دھرمی۔ لہٰذا ایک بار پھر ”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی دیتے نظر آئے۔ لندن گئے تو خیال تھا کہ اب نہیں آئیں گے مگر اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر لوٹ آئے۔ میں تو یہ سوچ رہا ہے کہ اگر نواز شریف ایک بار پھر واپس آگیا اور خاکم بدہن وزیراعظم بھی بن گیا تو کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri