نواز شریف سٹریچر پر لیٹ کر جہاز پر سوار کیوں نہیں ہوا؟


عوام اس بات پر غصے میں ہے یا پریشانی سے دو چار ہے کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے، ٹماٹر تین سو روپے کلو ہو گیا ہے جبکہ وزیر اعظم کو معاشی ٹیم نے یقین دلایا ہے کہ ملک معاشی ترقی کی منزلیں بتدریج طے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ عمران خان کے معاشی وژن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ورنہ اسحاق ڈار نے تو گزشتہ حکومت کے دوران ملک کو معاشی طور پر پچاس سال پیچھے دھکیل دیا تھا۔ وزیر اعظم معاشی ٹیم کی کار کردگی سے اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تیئس افسروں کو گریڈ بائیس میں ترقی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

ملک میں پولیو اور ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے ہوا ہے لیکن حکومت ان پر قابو پانے کی بجائے وزیروں مشیروں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کا دکھ نہیں نہ کشمیری مسلمانوں کی تکالیف کا غم ہے، ان کو تکلیف یا غصہ ہے تو صرف نواز شریف پر ہے۔ غصے کی بظاہر وجہ بیمار نواز شریف کا پاوں پر چل کر لندن جانا بتایا جاتا ہے۔ انہیں حیرت ہے کہ ایک شخص جس کے دل کا دوبار اپریشن ہوا، جس کے پانچ بار اسٹنٹ ڈالے گئے، جس کے گردے کمزور ہیں، جو شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہے، جہاز کی سیڑھیاں کیسے چڑھ سکتا ہے۔ اور جہاز کی سیٹ پر کیوں بیٹھا ہے، سٹریچر پر کیوں نہیں لیٹا؟

یہ سارا غصہ آپ نے اپنے خطاب کو وزنی کرنے کے لئے لگایا۔ اس موقعے پر نواز شریف کی بیماری کا ڈھنڈھورا پیٹنے والی ان کی چہیتی وزیر صحت یاسمین راشد پہلو میں موجود تھی، کہ آپ میانوالی میں مدر اینڈ چائیلڈ ہیلتھ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھ رہے تھے۔

چند روز ہوئے وزیر اعظم کابینہ کی میٹنگ میں بے یقین وزرا کو اعتماد میں لیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ میں نے ہر طرح کی تسلی کرلی ہے، نواز شریف واقعی بیمار ہے۔ بے یقین وزرا جو دراصل بڑے گھاک سیاستدان ہیں اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ وہ اس ملک کے نظام انہضام اور زراعت اور بجلی کے نظام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، مشکوک تھے اور بار بار سوال کر رہے تھے، کہ انھیں ڈیل کا شبہ پڑ گیا تھا مگر وزیر اعظم نے ان کی تسلی کرائی اور انہیں نواز شریف کی بیماری کا یقین دلایا۔ وزیر اعظم کے بقول شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر کم از کم جھوٹ نہیں بول سکتے۔

پاکستان کے عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں۔ ابھی چند ماہ قبل یہی نواز شریف اپنی بیمار بیگم کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل کاٹنے پاکستان آیا تھا۔ اس وقت بھی اس کے دل کے دو اپریشن ہو چکے ہوئے تھے بلکہ ایک اپریشن تو وزارت عظمے کے دوران ہوا تھا۔ اس وقت بھی ان کے گردے خراب تھے کہ گردوں میں کئی سال سے پتھری پڑی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت بھی شوگر اور بلڈ پریشر کا عارضے لئے پھرتے تھے۔ اب ایسا کیا ہوا اور کیوں ہوا۔

یوں تو کوئی بھی انسان کسی بھی وقت بیمار پڑ سکتا ہے، بیماری جان لیوا بھی ہوسکتی ہے اور بیمار شفایاب بھی ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کو جب کوٹ لکھپت جیل سے چودھری شوگر مل کی تفتیش کے لئے نیب کسٹڈی میں دیا گیا اور اس دوران ایک بار عدالت کے رو برو پیش کیا گیا تو میڈیا کے سامنے نواز شریف نے عوام کو فضل الرحمٰن کے دھرنے میں شرکت کی ترغیب دی۔ نواز اور شہباز کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا، شہباز کو نون کی صدارت سے ہٹانے کی باتیں شروع ہوئیں، یہی وہ دن تھے جب نواز شریف کو ایک پر اسرار بیماری لاحق ہوئی جسے ”آئی ٹی پی“ کہتے ہیں۔

اسے سروسز ہسپتال لایا گیا۔ میڈیا پر سب نے مل کر نعرہ لگایا ”پنجاب کو بھٹو نہ دیا جائے۔ “ عمران کی صدا بھی اس میں شامل ہوئی۔ میڈیکل رپورٹس ساری کی ساری سرکاری تھیں۔ زندگی میں پہلی بار ہم نے دیکھا کہ حکومت کی وزیر صحت پریس کانفنس کرکے عوام کو اپوزیشن لیڈر کی شدید علالت کی یقین دہانی کرا رہی تھیں۔ سرکاری میڈیکل بورڈ میڈیا پر لوگوں کو یقین دلا رہا تھا کہ نواز شریف کا پاکستان میں علاج نہیں ہو سکتا۔ سب نے مل کر عوام کو نواز شریف کی بیماری کا یقین دلایا۔

عدالتیں رپورٹوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ ایسی ہی سرکاری رپورٹ اور سرکاری تفتیش کی بنیاد پر قتل کے ملزم بری ہوجاتے ہیں یا پھانسی کی سزا پاتے ہیں۔ نواز شریف ضمانت پر بری ہوا، بھٹو کو ضمانت نہ مل سکی، جھوٹے گواہوں نے اسے پھانسی کے تختے تک پہنچادیا۔ قبل ازیں یہی نواز شریف انہی عدالتوں سے بیس برس قبل 21 برس قید کی سزا سن چکا۔ جیل کاٹی، جلاوطن ہوا، واپس آکر وزیراعظم بنا، پھر انہی عدالتوں نے اسے اقامے کی بنیاد پر بلیک ڈکشنری کی مدد سے نا اہل قرار دے دیا۔ انہی عدالتوں نے اسے دس برس قید کی سزا سنائی۔ اب انہی عدالتوں نے اس کی ضمانت منظور کی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کی بیماری کی حالت میں، سروسز ہسپتال میں گزرے پندرہ دن کے دوران کوئی ویڈیو یا تصویر میڈیا کو لیک نہیں کی گئی مگر باہر جاتے ہوئے جہاز کی، اور لنڈن کے گھر میں داخلے کی وڈیو شیر کر دی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک نواز شریف کا ذاتی طور پر اپنی بیماری کا کوئی بیان ریکارڈ پر نہیں۔ حکومتی شور شرابے اور میڈیا کی چیخ و پکار کے درمیان، وہ کامل اطمینان اور بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستان سے رخصت ہوا۔ امید ہے عادت کے مطابق واپس آ جائے گا۔ حکومت کو تکلیف یہ ہوئی کہ معاہدے کے مطابق نواز شریف سٹریچر پر لیٹ کر جہاز پر سوار کیوں نہیں ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).