ذہنی صحت اور معاشرتی رویے


انسانی معاشرہ ترقی کر چکا ہے اور ایڈوانس ہوچکا ہے۔ جس طرح سے انسان نے ترقی کی ہے سوشل میڈیا اور میڈیکل سائنس میں بھی بہت زیادہ ایڈوانسمنٹ آ چکی ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اگر ہم دیکھیں تو آج بھی انسانی معاشرے میں اتنی ڈویلپمنٹ ہونے کے باوجود بھی کچھ ایسے رویے ہیں جو ابھی بھی ہمیں اِس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ انسان نے ابھی تک وہ ترقی نہیں کی ہے جو اُسے کرنی چاہیے تھی۔

اِس کی تازہ مثال ذہنی صحت کے حوالے سے ہمارے رویے ہیں۔ انسان نے جہاں اتنی ترقی کی ہے میڈیکل سائنس، سائیکالوجی، مائنڈ سائنس اور مینٹل ہیلتھ کے شعبے میں انسان نے بے شمار کامیابیاں حا صل کیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ذہنی صحت کا دن ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور اِس د ن کے حوالے سے معلوماتی اجلاس، پروگرام اور سیمینارز کا انعقادکیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جیسے ہی کوئی پروفیشنل یا نامور شخص اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل ہیں تو معاشرے کی جانب سے شدید غیر یقینی اور غیر متوقع ردِ عمل سامنے آتاہے۔

اِس کی مثال حا ل ہی میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے ایک نامور آل راؤنڈر، گلین میکسول ہیں، جنہوں نے آسٹریلیا سری لنکا کے خلاف جاری ٹی 20 سیریز میں 27 اکتوبر کو پہلے میچ میں بہت ہی شاندار بیٹنگ کر کے 28 گیندوں پر 68 رنز بنائے۔ لیکن اگلے ہی دن اُس نے اعلان کیا کہ وہ سیریز کے باقی میچز، بلکہ کچھ عرصے کے لئے اپنی مینٹل ہیلتھ کی وجہ سے کرکٹ سے دُور رہے گا۔ اس اعلان پر لوگوں کا بڑا عجیب ری ایکشن آیا کہ یہ کرکٹر تو بہت اچھا کھیل رہا ہے، اُس کی فارم بھی اچھی چل رہی ہے اور اُس کے ساتھ سیلکشن کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے پھر بھی مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے اِسے کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟

اِس ٹیبو کو جب ایڈریس کیا گیا تو کوئی بہت زیادہ اچھا رسپانس نہیں آیا حالانکہ آسٹریلیا کو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پڑھا لکھا، مہذب اور بہتر معاشرہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں کرکٹ کے لئے بہت جنون اور جذبہ پایا جاتا ہے۔ مینٹل ہیلتھ کے لئے بھی وہاں کافی کام ہو چکا ہے اور عام معاشرے کی نسبت بہت معلومات اور آگہی ہے۔ پھر بھی اُن کا یہ رویہ اِس بات کی علامت ہے کہ ہم ابھی تک ڈویلپ تو بہت ہو چکے ہیں لیکن مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے نہیں، کیونکہ اِس میں سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ اِس میں نہ تو کوئی ایم آر آئی ہو سکتا ہے، نہ کوئی سکین ٹیسٹ اور نہ کوئی میڈیکل رپورٹ جس سے آپ یہ ثابت کر سکیں کہ آپ کن مشکلات کا شکار ہیں اورکن مسائل سے دوچار اورکس کرب سے گزر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے اِس کا ایک اور بہت بڑا بیک ڈراپ ہے کہ آپ کی پرفارمنس شاید بعض دفعہ اِس قدر متاثر نہیں ہوتی لیکن آپ اندر سے کیونکہ sufferکر رہے ہوتے ہیں، آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا چل رہا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ پاتے۔ گلین میکسول کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا لیکن اِس کے ساتھ بہت سارے لوگوں نے اُسے سپورٹ کا بھی کام کیا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویراٹ کوہلی نے کہا کہ گلین میکسول نے ایک رول ماڈل سیٹ کیا ہے جسے دوسرے کرکٹرز، پروفیشنلز اور سوسائٹی کو بھی ایک مثبت قدم کے طور پر قبول کر نا چاہیے، اگر کوئی بھی انسان یہ سمجھتا ہے کہ اُسے مینٹل ہیلتھ کے مسائل ہیں تو اُسے حل کرنے کے لئے پروفیشنلز کی مدد ورہنمائی لینی چاہیے۔

اُنہیں وقت دینا چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے اگر ہمیں کوئی انجری ہوتی ہے، ہمیں کوئی فریکچر ہوتا ہے تو ہم اُس کے لئے ٹائم لیتے ہیں اور بیڈ ریسٹ لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی مینٹل ہیلتھ کے لئے بھی اقدام کرنے چا ہیں۔ میسکول کے بعد آسٹریلیا کے ایک اور کرکٹر نے بھی مینٹل ہیلتھ کی وجہ سے بریک لی ہے۔ یہ ایک مثبت ٹرینڈ چلا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اِس سے قبل بھی انگلینڈ کے ایک بہت ہی اچھے بیٹسمین، جونا تھن ٹروٹ نے اپنی مینٹل ہیلتھ کی وجہ سے اپنے کیریئر کو بہت جلدخیرباد کہہ دیاتھا۔

پاکستان میں بھی مینٹل ہیلتھ کے مسائل بہت زیادہ بڑھ رہے جس طرح مہنگائی، بے روزگاری، معاشرتی انتشاربڑھ رہا ہے۔ سیاسی افراتفری، غربت اور دہشت گردی نے انسانوں، خاندانوں، پروفیشنل لائف کو بہت ڈسٹرب کیا ہے اور تقریباً ہر انسان اِس سے متاثر ہورہا ہے اور پرابلم یہی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی ذہنی صحت کے حوالے سے بے شمار شک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ عام لوگوں میں آگہی و شعور کی کمی ہے۔ علاج، رہنمائی اور کونسلنگ کے لئے مناسب اور وافر سہولیات بھی مہیا نہیں۔

اکثر آپ کی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ تو بالکل ٹھیک ہیں، آپ ہنس رہے ہیں، کھیل رہے ہیں، لیکن جو آپ کے دُکھ ہیں اور پرابلم ہے وہ شاید کسی کو نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے آپ تکلیف برداشت کر رہے ہوتے ہیں لیکن آپ بتا نہیں پا رہے ہوتے۔ آپ کو ایسے لوگ نہیں ملتے جو آپ کو سپورٹ کریں۔ بہت سارے این جی اوز اور ہاسپٹلز اور ادارے ہیں جو مینٹل ہیلتھ کوپروموٹ کررہے ہیں اور معلومات کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا کی ہی مثال ہے کہ ابھی تک اِس مسئلے کو حل کرنا اور اسے ایڈریس کرنابے حد مشکل ہے۔ اس ضمن میں معاشرتی رویوں کو سمجھنے اور بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ذہنی صحت کے حوالے سے ہمارے معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں لائی جاتی اس میدان میں کامیابی کے امکان کم ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).