یہ تھا وہ، ”دو نہیں ایک پاکستان“


دو ہزار تیرہ میں جیسے ہی نواز شریف نے حکومت سنبھالی تو فوری طور پر عدالت سے استدعا کی کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف دفعہ چھ ( سنگین غداری) کے تحت کارروائی کی جائے۔ اس درخواست میں تین نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ نواز شریف کی اس ”جُرات“ پر بہت سے دماغ کھڑکے بھی اور بہت سے دل دھڑکے بھی تاہم نواز شریف حسب عادت ڈٹا رہا اور چودھری نثار وغیرہ کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے پسپائی اختیار کر نے سے گریز کیا۔

چند ماہ بعد اکتیس مارچ دو ہزار چودہ کو پرویز مشرف پر فرد جُرم عائد ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ایک طرف پرویز مشرف کی کمر میں درد، گاڑی کا عدالت کی بجائے پنڈی کے ہسپتال کی طرف مڑنا اور پھر دبئی روانگی جیسے واقعات سامنے آئے تو دوسری طرف عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے پارلیمنٹ پر حملے اور شیخ رشید کے جلاؤ گھیراؤ سے خادم رضوی کے فیض آباد تک ایک اور سٹیج سجتا رہا کیونکہ ایک نہیں بلکہ دو پاکستان مطلوب تھے۔ لیکن اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس بھی کسی زھریلے ناگ کی مانند عدالتی راہداریوں میں آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔

اب خلقِ خُدا بہت حد تک اس معاملے کو اگرچہ بھول چکے تھی لیکن ناگ (آمریت ) کی دھشت اور ہتھوڑا بدست منصفوں کی شجاعت سے اُمید بھی اپنی جگہ قائم تھی کہ گزشتہ مہینے چوبیس اکتوبر کو حکومت نے اچانک پراسیکیوشن ٹیم کو تبدیل کر دیا تاہم اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق حسن نے ایک بیان میں کہا کہ سنگین غداری کیس کے حوالے سے تمام شہادتیں عدالت کو فراہم کر دی گئیں ہیں اور شاید مزید کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی نگاہیں پھر سے اس خوابیدہ ناگ کی سرسراہٹ اور ہتھوڑے پر جم گئیں۔

اس لئے گزشتہ ہفتے تین رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ ( معزز چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ) نے حکم جاری کیا کہ اٹھائیس نومبر کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اور پھر اس فیصلے سے کروڑوں خاک نشینوں کی وہی اُمیدیں وابستہ تھیں کہ اس بد نصیب وطن کو ہمیشہ کے لئے آمریتوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا اور اب قانون کے سامنے کمزور اور طاقتور کا تفریق بھی مٹ جائے گا یعنی دو نہیں بلکہ ایک پاکستان نظر آئے گا۔

لیکن منگل کی شام ٹیلیوژن چینلوں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر نے تو ہر شخص کو کسی حنوط شدہ ممی کی مانند حیرت اور استعجاب سے ساکت کر دیا کیونکہ عمران احمد نیازی کھل کر ایک کی بجائے دو پاکستان کا علمبردار بن کر میدان میں اترا اور ان کے حکم پر حکومت کے ماتحت وفاقی وزارت داخلہ (جس کے سربراہ مشرف کے سابق ماتحت بریگیڈیئر ریٹائر ڈ اعجاز شاہ ہیں ) نے خصوصی عدالت کا فیصلہ رکوانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو درخواست دے دی۔

اب نہیں معلوم کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس درخواست پر کیا فیصلہ کرتی ہے لیکن یہ بات تو کم از کم ہر فرد کو سمجھ آہی گئی کہ ایک پاکستان اور دو پاکستان کا اصل مطلب کیا ہے؟ اور کون اسے سیاسی کمک فراہم کر رہا ہے؟ اور اصل میں وہ طاقتور کون ہیں جن سے توجہ ہٹانے کے لئے سیاسی رہنماؤں کا نام لے لے کر ڈرامے بازی ہوتی رہی۔

کیونک سیاستدان، صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلٰی اور وزیر مشیر بے شک بن جاتے ہیں لیکن طاقتور ہرگز نہیں بنتے کیونکہ پھانسیوں پر جھولتے، سڑکوں پر تڑپتے، جلا وطن ہوتے اور جیلوں میں سڑتے سیاستدان کیا اور ان کی طاقت کیا؟

لیکن دس سال تک اس بد نصیب وطن کے سیاہ و سفید کے مالک اور سنگین غداری کیس میں مطلوب پرویز مشرف کے خلاف ابھی فیصلہ آیا بھی نہیں کہ ایک غلغلہ برپا ہوا۔

نہیں معلوم کہ اس غلغلے کے عقب میں کس کا ذھن رسا اور دست ستم کش ہے لیکن جس شخص نے سر عام اس جبر ناروا کا علم اُٹھایا اس کا نام عمران خان ہے جو ایک اور دو پاکستان کی تشریح حقائق کی بجائے اپنے سفاک سیاسی مفادات کے مطابق کرتا رہا یعنی جو میرا حریف ہو تو وہ نواز شریف یا آصف زرداری جیسا شدید بیمار اور مظلوم ہی کیوں نہ ہو، ٹھہرے گا طاقتور ہی بلکہ ظالم بھی۔

جو میرا ساتھی نہ ہو وہ خواہ سیاسی تاریخ کا سب سے اُجلا سیاستدان شاہد خاقان عباسی ہی کیوں نہ ہو لیکن ٹھہرے گا کرپٹ بھی اور بد دیانت بھی اور قید کاٹے گا بھی سزائے موت کی کوٹھڑی میں۔ جو میرے خلاف بولے گا اسے بہترین کارکردگی کے باوجود میری مرضی کہ سعد رفیق بنا دوں یا رانا ثناء اللہ لیکن جن رہداریوں سے میری اُجڑتی ہوئی مقبولیت کے درو بام کو ہلکی سی روشنی اور وزارت عظمٰی کے سوکھتے ہوئے بے برگ و بار شجر کو بقا کی خاطر چند بوندیں دستیاب ہوں تو ان کی خاطر جمہوریت سے اخلاقیات تک ہر جائز و نا جائز فقط ایک یوٹرن کی مار ہے۔

المیہ تو یہ ہے کہ لمحہ لمحہ پھوٹتے ان حقائق کے باوجود بھی اس مملکت خداداد میں وہ جذباتی غول ابھی تک موجود ہے جو ایک مصنوعی اور اداکارانہ غصہ پن اور چرب زبانی کی اداوں کے قتیل ٹھرے ہیں بلکہ اس سیاسی رہگزر پر اپنی اُمیدوں کے مشعل جلائے بیٹھے ہیں جس پر منافقت کی تیز دھوپ اور بد نصیبی کی اُجڑی شاموں نے باہم ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں لیکن یہ بدنصیب کسی ویران درگاہ میں مدتوں سے خلوت کے شکار کسی بوڑھے مجذوب کی مانند ازبرکیے ، رٹے رٹائے جملے دھراتے رہتے ہیں کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں اور دو نہیں ایک پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان

کبھی کبھی تو رحم بھی آجاتا ہے اور اکثر اللہ تعالٰی سے خوف بھی، جو فرماتا ہے کہ میری پکڑ بہت سخت ہے

لیکن تباہ کن آئیڈیلزم کے شکار ان معصوموں کو فریب کار سیاست کا ایندھن بنانے والا کانپتا تک نہیں تبھی تو دو پاکستان کا بیانیہ بھی ایک ڈھٹائی کے ساتھ چل رہا ہے اور ایک جذباتی خلقت کی تماشہ گری بھی یعنی بی آر ٹی کا پوچھیں نہیں، علیمہ خان کا حساب مانگیں نہیں، پی ٹی وی پارلیمنٹ حملہ کیس دفع کیا جائے، فارن فنڈنگ کیس دریا برد کیا جائے میرے ساتھی وزراء کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا جائے اور مشرف کا فیصلہ روک دیا جائے لیکن نواز شریف اور اصف زرداری کو کھینچا جائے، خورشید شاہ اور رانا ثناء اللہ کو کچل دیا جائے جبکہ شاھد خاقان عباسی اور سعد رفیق کو برباد کیا جائے کیونکہ یہ لوگ ”طاقتور“ ہیں اور میں ہمیشہ ”مظلوم“ کا ساتھ دیتا ہوں تبھی تو مشرف کے ساتھ کھڑا ہوں، کوئی ہاتھ تو لگا کر دیکھے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).