کیا آپ دوستی کا رازجانتے ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ شاہد اختر

ڈیر شاہد اختر!
میرا ایک شعر ہے
؎ آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے۔ جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

میرے دوستوں کے دو دائرے ہیں۔ ایک بڑا دائرہ OUTER CIRCLE ہے جو بہت وسیع ہے دوسرا چھوٹا دائرہ INNER CIRCLEہے جس میں صرف آٹھ دس خصوصی لوگ شامل ہیں اور آپ اور آپ کی شریک حیات شیریں اس چھوٹے سے انر سرکل کا حصہ ہیں۔ آپ سے دوستی دنوں ہفتوں مہینوں سالوں نہیں دہائیوں پر محیط ہے۔ اس طویل عرصے کی دوستی میں نہ کبھی ناراضگی ہوئی نہ رنجش ’نہ لڑائی نہ جھگڑا‘ نہ رقابت نہ دشمنی۔ آپ سے دوستی سو فیصد گرین زون دوستی ہے۔ اگر کوئی مجھ سے اس گرین زون دوستی کا راز پوچھے تو میں کہوں گا

میں آپ پر ٹرسٹ کرتا ہوں

میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں

میں آپ پر اعتبار کرتا ہوں

آپ سے شیر کرنے سے میری خوش دگنی اور غم آدھا رہ جاتا ہے

ہم دونوں عالمی ادب کے دلدادہ ہیں اور اس کے شہ پاروں کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں تا کہ اردو کے قارئین عالمی ادب سے استفادہ کر سکیں۔

ہم دونوں۔ ہم سب۔ پر لکھتے ہیں۔

درویش جب بھی آپ کے دولت کدے پر آتا ہے ہم ڈنر اور ڈائلاگ سے محظوظ ہوتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہماری دوستی آج کے دور میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

یہ تو درویش کی ناچیز رائے ہے اب آپ بتائیں کہ آپ کی نگاہ میں ہماری دوستی کا کیا راز ہے؟

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کے شہر میں کس جوڑے کے سب سے زیادہ دوست ہیں تو میں کہوں گا۔ شاہد اور شیریں۔ کے۔ آپ نے مجھے اپنے جن دوستوں سے ملوایا ان میں مختلف زبانوں نسلوں اور مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ آپ کے دوستوں کا اس قدر وسیع حلقہ بنانے کا راز کیا ہے؟

ڈیر شاہد اختر!

میں جب اپنے دوستوں کے حلقے کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بھی کئی مکاتبِ فکر کے لوگ شامل ہیں۔

ایک وہ زمانہ تھا جب اختلاف الرائے ہوتا تھا تو میں اس دوست سے دور بہت دور چلا جاتا تھا۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اس دوستی کا نوے فیصد گرین زون میں ہے صرف دس فیصد ریڈ زون میں ہے اب میں اس دس فیصد ریڈ زون کے گرد ایک دائرہ بنا لیتا ہوں اور وہاں جانے سے احتراز کرتا ہوں۔

مثال کے طور پر

ایک دوست سے اسرائیل اور فلسطین کے موضوع پر تبادلہِ خیال نہیں کرتا۔

ایک دوست سے گے اور لیسبین کے حوالے سے گفتگو نہیں کرتا۔

ایک دوست سے مذہب کے حوالے سے مکالمہ نہیں کرتا کیونکہ وہ بہت زیادہ مذہبی ہیں اور میں ایک لا مذہب انسان دوست۔ اس موضوع کے علاوہ ہم ہر موضوع پر تبادلہِ خیال کر سکتے ہیں۔

یہ سب دوست نہایت مخلص ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی دوست کا مخلص ہونا بہت اہم ہے۔

میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود بھی دوستی ہو سکتی ہے۔ میرے ایک دوست پکے مسلمان۔ ایک پکے دہریہ۔ ایک پکے کمیونسٹ اور ایک پکے انارکسٹ ہیں۔

ڈیر شاہد اختر! آپ سے دوستی ان چند دوستیوں میں سے ایک ہے جو سو فیصد گرین زون میں ہے۔ آپ کے ساتھ مکالمے میں کچھ بھی سینسر یا ایڈٹ نہیں کرنا پڑتا۔ جو دل میں آتا ہے وہ زبان پر بھی آ جاتا ہے۔ اسی لیے مجھے آپ کی دوستی پر فخر ہے۔

کل شام کے ڈنر اور ڈائلاگ کے بعد ہم نے ادبی فیصلہ کیا کہ ہم مل کر۔ ہم سب۔ کے لیے ایک کالم لکھیں۔ اسی لیے گھر آ کر میں نے آپ کو یہ خط لکھا تا کہ آپ جواب دے سکیں اور یہ دونوں ادبی محبت نامے مل کر دوستی کے موضوع پر ایک کالم بنا سکیں؟

آپ کا دوست اور ادبی ہم سفر۔

خالد سہیل


21 نومبر 2019

عزیزم خالد سہیل،

آپ نے بہت خوبصورت اور وسیع موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ میں دوستی کو زندگی کی قیمتی ترین متاع سمجھتا ہوں اور اس حوالے سے اپنے آپ کو خوش نصیب گردانتا ہوں۔

دوستی کے بارے میں میں اپنا نظریہ نہ کسی پر مسلط کرتا ہوں اور نہ ہی کسی کو اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنا نظریہ مجھ پر مسلط کر یں۔ لیکن اپنی ترجیحات اور پسند ناپسندکو چھپا کر بھی نہیں رکھتا۔ اس معاملے میں لکم دینکم ولی دین کا قائل ہوں۔

دوستی کے حوالے سے میں نظریہ وجودیت یعنی اگزسٹانشلزم پر پوری طرح تو نہیں لیکن اس کے کچھ پہلوؤں پر یقین رکھتا ہوں۔ اس نظریہ کے مطابق بہت سی ایسی چیزیں جن کو لوگ انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں بالکل محمل اور زندگی کی اصلیت سے غیر متعلق اور بے ربط ہیں۔ آپ کی زندگی پر صحیح معنوں میں جو عناصر اثر انداز ہوتے ہیں وہ آپ کا عہدہ، بینک بیلنس، مکان کا سائز، یاکار کا ماڈل نہیں۔ زندگی کی حقیقت وہ نہیں جو آپ اخباروں میں پڑھتے، ریڈیو پر سنتے، یا ٹی وی پر دیکھتے ہیں، نہ ہی وہ جو کتابیں، گورو، استاد یا سیاسی اور مذہبی راہنما آپ کو بتاتے ہیں۔

فزکس اور کیمسٹری کے اصول، الجبرا اور کیلکلس کے مفروضے، تاریخ کی گھڑیوں نے کیا وقت دیکھا ہے، سکندر اور دارا کون تھے، یہ سب آپ کی زندگی کے روز و شب سراہنے کے لئے اتنے اہم نہیں جتنے باہمی انسانی رشتے۔

از ما بجز حکائیت مہرو وفا مپرس

ما قصہ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم

خالد سہیل صاحب، دوستی اسی حکائیت مہر و وفا کا نام ہے۔ ایک دوسرے سے تعلق، پسند ناپسند، محبت نفرت، دوستی دشمنی، اپنائیت اورغیریت ہی انسان کی زندگی کے معنی خیز محرک ہیں۔

انسان کو اشرف ا لمخلوقات کہا جاتا ہے۔ جو خصوصیت انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی معاشرتی جبلت ہے۔ انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔ رہبانیت بھی رشتوں کی منفی عکاسی کے طور پر اختیار کی جاتی ہے۔ یہ وہ استشنا ہے جس سے اصول کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔

انسانی رشتوں میں خون کا اور زندگی کے ساتھی کا رشتہ اہم ترین سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہ رشتے بھی صرف اسی حد تک زندگی کو مسرت بخش بنا سکتے ہیں جس حد تک ان میں دوستی کا عنصر شامل ہو۔ ورنہ اگر ان رشتوں سے دوستی کو خارج کر دیا جائے تو بھائی بہنوں کے رشتے عداوتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور میاں بیوی کے تعلقات طلاق کی عدالتوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

خالد، آپ نے پوچھا ہے میرے حلقہ احباب میں ہر مسلک کے لوگوں کے شامل ہونے کی وجہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ روایتی نفرتیں اس لئے جڑیں پکڑ لیتی ہیں کہ ہم اپنی مذہی، ثقافتی، قومی اور نسلی تعلق اور تربیت کی وجہ سے انسانوں کے مختلف گروہوں سے جان بوجھ کر علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ کئی مواقع پر تو یہ نوبت آجاتی ہے کہ

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

یہ نفرتیں اور تعصبات میرے مشاہدات ہی میں نہیں بلکہ ذاتی تجربات تک میں شامل ہیں۔ لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہرتعصب کی ایک اہم وجہ انفرادی اور مجموعی جہالت، ناواقفیت اور لاعلمی ہوتی ہے۔

جب آپ ذاتی سطح پر ان لوگوں سے ملتے ہیں جن کے بارے میں آ پ کی رائے تعصب پر مبنی ہو تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح کے انسان ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کو ایک انسان کی نظر سے دیکھا جائے نہ کہ ایک ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، شعیہ، سنی اوراحمدی کے طور پر۔ سفید اور سیاہ فام، براؤن یا زرد نسل کی بجائے وہ آپ سے ایک ہمسائے، ماں، باپ، بھائی بہن اور رفیق کار انسان کے طور پر ملنا چاہتے ہیں۔

ایک گھرانے کی حیثئیت سے ہم یہی کوشش کرتے ہیں کہ اس گوناگوں معاشرے میں ہر قسم کے لوگوں سے راہ و رسم زمانہ رکھی جائے اور بیگانگی کی بجائے ان سے ایسی اپنائیت سے ملا جائے کہ نہ صرف آپ کو، بلکہ جن جن گروہوں سے آپ کا تعلق مذہب، زبان، قومیت اور نسلی بنیادوں پر ہے ان کو بھی، وہ اپنی ہی طرح کا انسان سمجھیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کسی تہوار یا تقریب کو اپنے مذہب، نسل یا زبان کے تعلق تک محدود نہیں رکھتے بلکہ بلا تفریق اپنے شناساؤں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی ان میں شرکت کریں۔ اور موقع ملنے پر ہم بھی ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، لسانی اور ثقافتی تفرقات اپنی جگہ لیکن کبھی ذاتیات کی سطح پر اتر کر دوسرے انسان کو ان کے تعلق کی وجہ سے نفرت کا ہدف نہیں بناتے۔

خالد، دوستی بے لوث ہوتی ہے۔ اگر اس میں غرض کا عنصر شامل ہو جائے تو وہ دوستی نہیں رہتی بلکہ دکانداری ہو جاتی ہے۔ دوستی نیٹ ور کنگ سے مختلف ہے۔ اس میں آپ تخمینہ نہیں لگاتے کہ جتنا وقت میں اس دوست کے ساتھ صرف کر رہا ہوں اگر کسی اسامی کے ساتھ صرف کرتا تو میرا اتنا فائدہ ہوتا۔ دوستی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اس افادیت کو پیسے یا ڈالر سے نہیں جانچا جاسکتا۔ آپ کے کونٹیکٹس اور دوستوں کی فہرستیں الگ الگ ہونی چاہئیں۔

دوستی بے شرط ہوتی ہے۔ اس میں آپ اپنے دوستوں کو جیسے وہ ہیں ویسے ہی قبول کرتے ہیں۔ اپنے دوست کی فلاح آپ کا مقصود ہوتا ہے اور آپ کے مشوروں سے آپ کے دوست کی کوتاہیوں کی اصلاح ہو جائے تو فبہہ، لیکن اگر نہیں بھی ہوتی تو آپ دوستوں کو ان کی کمزوریوں کی بنا پر رد نہیں کرتے۔

محبت کی طرح دوستی کا موضوع نہائت دور رس اور فراخ ہے۔ اس پر آئندہ بات ہوتی رہے گی لیکن مولانا روم سے معذرت کے ساتھ مثنوی کے چند اشعار کے منظوم ترجمے کی وساطت سے اتناعرض کروں گا :

دوستی نے تلخ کو شیریں کیا

دوستی نے دھات کو زریں کیا

دوستی نے دار بدلی تخت میں

دوستی نے بار بدلا بخت میں

دوستی سے نار نوری ہوگئی

بد سے بد صورت بھی حوری ہو گئی

دوستی میں درد صافی بن گیا

دوستی میں درد شافی بن گیا

دوستی سے خار بھی سوسن ہوا

دوستی سے زہر بھی روغن ہوا

دوستی سے کانٹا بن جائے گلاب

دوستی سے سرکہ بن جائے شراب

دوستی نے سقم کوصحت کیا

دوستی نے قہر کورحمت کیا

چلیں، باقی پھر سہی۔ دوست زندہ صحبت باقی

شاہد

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail