نواز شریف، شیر بن شیر!


\"haider

آج کل  تخریبی  واقعات  میں کچھ کمی آئی ہوئی ہے تو حکومتی حلقوں نے  جیسے صحافت کے میدان میں دھماکے کر کے ’کچھ نہ کچھ ہوتا  رہنے‘ کا سامان کرنے  کی ٹھانی ہوئی  ہے۔ ہماری  سرکار، چاہے سیاسی ہو یا عسکری، اس پانچ سالہ بچے کی مانند ہے جو چھپن چھپائی کھیل میں اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ریاست نے  بھی بہت عرصے سے اپنی آنکھیں زور سے میچ  رکھی ہیں اور سمجھتی ہے  کہ پوری دنیا کو نہیں معلوم کہ یہاں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چنانچہ جب ڈان اخبار کے معروف لکھاری  سیرل  المیڈه  نے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت  کے مابین راز و نیاز کو صفحۂ اول  پر شائع کر دیا  تو کھلبلی مچ گئی۔ ہلچل کی حالت میں ہونے والے اقدامات  میں اکثر بیہودگی کا عنصر غالب ہوتا ہے، لہٰذا بھری بزم میں بھانڈا پھوڑنے کی بے ادبی پر سیرل کا نام  ای سی ایل پر ڈال  دیا گیا۔ یہ قدم حکومت کے لئے وہ لقمہ بن گیا کہ نہ نگلے بنے نہ اگلے۔ ابھی یہ سطریں تحریر کر ہی رہا تھا کہ تازہ خبر کے مطابق مذکورہ صحافی پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ پھر خبر ملی کہ عسکری قیادت کا اجلاس ہوا اور اس میں ملکی سلامتی  سے وابستہ خفیہ رازوں کو افشا کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ باقی ملکوں میں فوج حکومت کا حصہ ہوتی ہے۔ ہمارا ملک خوب ہے کہ عسکری ترجمان  باجوہ صاحب کو بارہا ’فوج اور حکومت‘ کی اصطلاح استعمال کرتے سنا ہے، گویا ہمارے ملک میں ’فوج اور حکومت‘ ہوا کرتی ہیں۔ ایک امریکی مصنفہ کرسٹین فین تو اپنی کتاب میں یہاں تک رقم  کر  چکی ہیں کہ باقی ملکوں کے پاس فوج ہوا کرتی ہے، جب کہ  پاکستان میں فوج کے پاس ملک ہے۔والله اعلم بالصواب !

لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ ہمارے ہاں اس بات سے ملک  کی شان میں کمی نہیں آتی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد  کی ایک کوٹھی سے برآمد ہوتا ہے۔ تشویش صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اچھا بھلا راز افشا ہوگیا اور سارا نزلہ ایک ڈاکٹر پر آ گرتا ہے۔ اس بات کی خیر ہے کہ  فوجی اداروں کے اندر مذہبی انتہا پسند اپنے گروپ بنا رہے ہوں، وہ گروپ عسکری عمارتوں اور افسران پر  پےدر پے حملے کر رہے ہوں، اس میں بھی کچھ  مضائقہ  نہیں۔ ہاں کوئی نوجوان صحافی  ان رجحانات  اور ان کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کی نشاندہی  کر دے تو پھر اس کی تشدد زدہ لاش اوروں کے لئے پیغامبر بن جاتی ہے کہ ’قومی سلامتی کی حفاظت کرو\’۔

 ایک زمانہ تھا کہ ایک ترقی پسند  ’لفٹیا‘ ہونے کے باعث، نواز شریف کو باقیات ضیاء سمجھنا میں اپنے ایمان کی شرطِ اولین سمجھا کرتا تھا اور ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود قلمی نام سے سخت تنقیدی مضامین تحریر کیا کرتا تھا۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں نواز شریف کی گفتگو اور فکر میں تغیر کا محتاط معا ئنہ کرتا رہا ہوں۔ بہت سے معاملات میں اختلاف کے باوجود میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ ہمارے روایتی جنگجوانہ  بیانیے کے قائل نہیں ہیں اور یہ ان کی شدید خواہش  ہے کہ پڑوسی ممالک، بالخصوص بھارت اور افغانستان کے ساتھ جنگ و جدل  کی بجائے تجارت اور باہمی روابط کو فروغ دے کر ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے۔ واجپائی کا لاہور آنا اس سفر کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ لیکن جیسے لوڈو کے کھیل میں بازی ہارتا دیکھ کر ایک فریق بورڈ کو پلٹا کے سارے کھیل کا ستیاناس  کردے، ویسے ہی پرویز مشرف  نے کارگل پر  چڑھائی کر کے کیا۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف  اپنے  انٹرویوز میں بار بار یہ کہتے نظر آئے کہ اب ہم پہلے والے طریقوں  کے متحمل  نہیں ہوسکتے اور اب ہمیں یہ  ڈرامے بازیاں  ختم کر کے  اپنے علاقے میں امن و سکون کی کوششوں میں ہاتھ بڑھانا چاہیے۔  ٢٠١٣  میں الیکشن جیتنے پر ڈیلی ٹیلی گراف  کے نمائندے کو انہوں نے بتایا کہ وہ  مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کے دہشت پسندی کا خاتمہ کریں گے اور پاکستان کی سرزمین کو ہمسایہ ممالک میں تخریب کاری کے لئے استعمال ہونے نہیں دینگے۔ دی گارڈین نے بھی  نواز شریف  کی کامیابی  کو  پاک بھارت  تعلقات  کے لئے نیک شگون  بتایا  اور اس امید کا  اظہار کیا کہ علاقائی خارجہ  پالیسی  میں جرنیلوں  کی غیرضروری مداخلت  کو  محدود کر کے اس کی تشکیلِ نو کریں گے۔ انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ از سر نو اچھے تعلقات کو اپنی خارجہ  پالیسی کا بنیادی نکتہ بتایا  تھا۔ ان کی کسی بھی تقریر میں میں نے کبھی ’ازلی دشمن‘  یا ’ہزار سالہ جنگ‘ یا کوئی اور مہم جوئی والے الفاظ نہیں سنے، بلکہ ہمیشہ امن و آشتی  اور جہادی راستوں سے توبہ کرنے کے پیغام کو تواتر سے سنا۔

وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہی نواز شریف  نے امن پسندی اور باہمی  تجارت پر مبنی رشتوں والی سوچ کو عملی جامہ  پہنے کی کوشش بھی کی۔ روسی  شہر اوفا میں مودی کے ساتھ ملاقات  اور مشترکہ اعلامیہ اچھے تعلقات کی جانب  ایک جاندار قدم تھا۔ لیکن عسکری قیادت میں موجود بعض عقابوں کو یہ بات  ایک آنکھ نہ بھائی اور میڈیا  میں اپنے لمبے ہاتھوں  اور دراز زبانوں کے ذریعے  وہ  اودھم مچا دیا کہ  نواز شریف  کو  ایک قدم  آگے دو قدم پیچھے والی صورتِ حال  سے متصادم کر دیا۔ عمران  کے دھرنے  کے ذریعے ایک منتخب حکومت کو یہ  بھی باور کرا دیا  گیا  کہ  خارجہ پالیسی میں زیادہ دراندازی  نہ کی جائے ورنہ حکومت کو منجمد کروانا پنڈی والوں کے لئے کچھ مشکل نہیں۔

کافکا کا ایک مشہور ناولٹ ہے ’’Metamorphosis‘‘ جس میں کلیدی کردار ایک دن صبح اٹھتا ہے تو حیران کن  طور پر وہ خود کو ایک  مکڑے میں بدلا ہوا پاتا ہے۔ جب نواز شریف کی اقوام  متحدہ والی تقریر سنی  تو مجھے  تعجب ہوا کہ یہ فرمائشی  متن  ان کی اپنی سوچ کی نہیں بلکہ اس سوچ کی نمائندگی کرتا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں کارگل اور ممبئی  پر حملے  ہوئے۔ روزنامہ  ڈان کی کہانی سے کم از کم  یہ تو طے  ہو گیا  کہ  میرا اندازہ کچھ ایسا  غلط نہیں تھا۔ پاکستان کے تمام  باشعور عوام اور اہل الرائے کو چاہیے کہ وہ اپنے وزیراعظم کو یہ یقین دلائیں  کہ جو راست گوئی بند ایوانوں میں کی گئی  ہے  ہم سب اس کی تائید کرتے ہیں، کیوں کہ علاقائی اور عالمی امن  کو تباہ کرنے والی تخریبی قوتوں سے اب  لاتعلقی  کا وقت آگیا ہے۔ کچھ عرصے میں  حکومت نے قانون سازی کے میدان میں  روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ اہم  انسانی حقوق  پر مبنی قوانین  متعارف  کرائے ہیں۔ اب ملکی سلامتی  کی پالیسی میں  عالمی طور پر مشہور دہشت پسند تنظیموں اور ان  سے وابستہ  ناموں سے بھی ملک کی جان  چھڑائی جائے۔ اسی وقت دہشت اور انتہا پسندی  کے خلاف جاری  نیشنل  ایکشن پلان سے وابستہ  مقاصد کو سنجیدگی سے حاصل کیا جاسکےگا۔ ممکن ہے کہ بہت سے حمایتی نواز شریف  کو اقتدار  بچانے کے لئے  کاکروچ  بننے کا مشورہ دے رہے ہوں۔ لیکن جلسے جلوسوں میں شیر آیا، شیر آیا  کے نعرے ہم سنتے رہتے ہیں، اس لئے ملکی سلامتی  اور معاشی مستقبل کے سوال پر  ہم  تو یہی آواز بلند کریں گے کہ  نواز شریف،  شیر بن شیر!

ڈاکٹر حیدر شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر حیدر شاہ

مصنف برطانیہ کی ہارٹفورڈ شائر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے بانی ہیں۔ ان سے hashah9@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

haider-shah has 14 posts and counting.See all posts by haider-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments