بنیادی ضروریات نہ ہوں تو حب الوطنی وجود کھو دیتی ہے


ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں اسمیں ہر وقت آپ کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ محب وطن ہیں اور کتنے محب وطن ہیں اور کس کس موقع پر آپ کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنی ہے۔ اور محب وطنی ثابت کرنے کے لئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے اس کا اختیار کچھ اداروں اور لوگوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ جب چاھیں آپ کو محبت ڈکلئیر کر دیں جب چاھیں آپ کو غدار ڈکلئیر کردیں اور اس سے اب پاکستانی سماج میں کوئی بھی شخص جو انسانی حقوق سماج کی برابری کی بات کرتا ہے وہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔

لیکن پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان ہے کیا اور ہمیں یہاں رہنا کیسے ہے اور ہم نے یہاں کیونکر رہنا ہے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے ضروری بات یہ ہے۔ ہم۔ اس خطے کو سمجھے پاکستان ایک وفاق ہے اور پھر یہ وفاق بنتے کیوں ہیں اور یہ وفاق بنائے کیوں جاتے ہیں اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ وفاق کسی مذہبی نظرئیے کی بنیاد پر بنائے ہیں یعنی ہم۔ یہ سمجھے کہ یہ ایک مخصوص مذہب کی تبلیغ اور اس کی حفاظت کے لیے بنا ہے تو یہ سراسرغلط ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہم اگر سمجھتے ہیں ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق مذہبی ہے پھر تو افغانستان کے لوگ بھی ہیں ہم ان کا حصہ کیوں نہیں بن جاتے اور اس طرح ایران ہمارے بارڈر پر ہے وہ بھی مسلمان ملک ہے وہ ہمارا حصہ کیوں نہیں بن جاتے اور ہم ان کا یا عرب ممالک جو کہ سب مسلمان ہیں لیکن سب کے ایک دوسرے کے ساتھ بارڈر لگے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے وفاق اور وفاق کی بنیاد کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوتی اب اگر یہ بات یہاں سمجھ آتی ہے کہ ملک کا وفاق یا اس ملک کا تعلق مذہبی بنیاد پر نہیں ہے۔

تو ہم کیوں ساتھ ہیں یہ بہت اہم سوال ہے اور ہمیں اس سوال کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وفاق بہترین جگہ ہے یا رہنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہوتی ہے تو ہم۔ عملی دنیا سے نکل کر تخلیات اور نظریاتی کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے لیے ہمارے نظریات کے مطابق سب سے بہترین جگہ وہ ہے جنت ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جنت کیا چیز ہے اور جنت ہے کیوں بہترین جگہ اگر جنت ہے تو جنت دو تین وجوہات کی وجہ سے بہترین جگہ ہے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے تو ہمارا خدا خوش ہو گا سب سے پرائم وجہ مقصد تو یہ ہے اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنت ہے کیا؟

جب ہم جنت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یا ہمیں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جنت میں کیا ملتا ہے۔ جنت میں آپ کو کھانے پینے کی بہترین نعمتیں طرح طرح کے باغات ملتے ہیں آپ کو زندگی کی بہترین آسائشیں سامان محل مکانات ملتے ہیں اور تیسری چیز جو جنت کے وعدے میں سب سے بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے وہ ہے محبت۔ محبت چاھے حوروں کی محبت ہو یا انسانوں کی ایک دوسرے سے محبت یعنی جنت تین چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔ میری سمجھ کے مطابق روٹی کپڑا مکان اور محبت

اب جب کائنات کی سب سے بہترین جگہ ہی جنت ہے اور جنت نام ہے کس چیز کا روٹی کپڑا مکان اور محبت کا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک، ممالک یا وفاق سب اچھے ممالک بن سکتے ہیں یا ہو سکتے ہیں جب ان کے شہریوں کو روٹی کپڑا مکان اور محبت کی بنیادی ضروریات حاصل ہوں۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ اس ملک میں چالیس فیصد لوگ غربت کی لے کر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں جس ملک کی آدھی آبادی کو دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نصیب نہ ہوتا ہو جس ملک میں بے روزگاری کی شرح اپنی انتہائی حد کو چھو رہی ہو اس سے محبت کاغذی اور بناوٹی تو ہو سکتی ہے لیکن اصل میں نہیں ہو سکتی جو لوگ حب الوطنی کا سرٹئیفکیٹ بانڈھتے ہیں ان سے اگر وہ سہولیات چھین لی جائیں جو اس فیڈرئشن یا اس ملک نے ان کو دی ہیں تو وہ بھی شاید محب وطن نہ رہیں ہم۔

اور آپ کب تک مصنوعی طریقوں سے اور میڈیا کے ذریعے کے طریقوں سے یا جھوٹ موٹ کی تدریسی کتابوں سے اس محبت کو بڑھاتے جائیں گے اور یہ محبت کا غبارہ ایک دن پھٹ جائے گا۔ خدا نہ کرے خدانہ کرے اور خدا نہ کرے کہ پھر ملک اور وفاق ٹوٹ جائے گا۔ ملک کا حکمران جو بھی ہو اس میں لبرل حکمرانی کرے یا اس میں مذہبی طبقہ حکمرانی کرے لیکن لوگوں کو اگر بنیادی ضروریات اگر حاصل نہ ہو تو وہ ملک اور ریاست نہیں چلے گی۔ وہ ملک اور ریاست ٹوٹنے کی جانب بڑھے گا اور لگتا ایسا ہے ہم بھی ایسی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمیں سنجیدگی سے اس مسائل پر سوچنا ہو گا اور ہمیں اس ملک کی ڈائرئیکشن اور سمت ٹھیک کرنی ہو گی کیونکہ ہم نے اگر سمت ٹھیک نہیں کی تو تاریخ کا جبر ہمیں معاف نہیں کرے گا

ایک ایسا نظام چاھیے جس کو آپ جو بھی نام دیں اس کو سوشلیزم کا نام دیں اس کو مساواتِ محمدی کا نام دیں اس کو سوشل ڈیمو کرئیسی کا نام دیں اس کو چاھے جو بھی نا م۔ جو بھی نظام کریں ایک چیز آپ کو انشور کرنی ہو گی ایک چیز آپ کو یقینی بنانی ہو گی کہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات ملیں۔ تب یہ وطن عظیم ہو گا عظیم سے عظیم تر بنے گا ورنہ یہ سب باتیں باتیں ہی ہیں ڈھکوسلے ہی ہیں اور یہ سب باتیں سننے اور کہنے کہی ہی حد تک ہیں کہ وطن سے محبت ہے۔

وطن سے محبت کا تو یہ حال ہے کہ اگر آج آپ کے نوجوانوں کو روزگار کے لئے یورپ کا ویزہ ملے اور منہ کے بل بھی جانا پڑے تو وہ تیار ہیں یا یوں کہے لیں کہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل بھی جانا پڑھے تووہ نوجوان پاکستان میں رہنے کو اہمیت نہیں دیگاوہ پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرے گا اب جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے جن لوگوں کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کو ان مسائل پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).