’’توسیع‘‘ شاید ’’استحکام‘‘ کیلئے ضروری تھی مگر!


متوازی عدالت میں نے کبھی لگائی نہیں۔اسے لگانے سے ان دنوں بھی پرہیز کیا جب میرے رزق کا بنیادی ذریعہ ٹی وی سکرین پر ’’نیوز اینڈکرنٹ افیئرز‘‘کے نام سے ہوئی یاوہ گوئی ہوا کرتی تھی۔صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھ کر دفتر بھجوانا ہوتا ہے۔ڈیڈ لائن اورڈاک ایڈیشنوں کے تقاضے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کالم نگاروں کو رپورٹروں کی طرح ’’تازہ ترین‘‘ کے بارے میں تبصرہ آرائی کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ کافی وقت گزرجانے کے بعد ’’تجزیہ نما‘‘ شے لکھنا ہوتی ہے۔

کئی ہفتوں سے ٹی وی نہیں دیکھا۔بدھ کی صبح اُٹھا تو ارادہ باندھا کہ یہ کالم لکھنے سے قبل ریموٹ دباکر چند گھنٹوں تک اسے دیکھ لیا جائے۔سپریم کورٹ میں ایک ’’تاریخی‘‘ سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔اس سوال کی بابت ہوئی پیشرفت کے بارے میں لکھا جاسکتا تھا۔ ریموٹ اٹھاکر سکرین کی جانب دیکھا تو وہاں سرخ بتی جل نہیں رہی تھی۔ملازم کو پکارا تو اس نے بتایا کہ صبح سات بجے سے بجلی غائب ہے۔اس نے بجلی کی عدم دستیابی کا بتایا تو یاد آیا کہ گزشتہ ہفتے سے تقریباََ ہر روز صبح سے دوپہر تک میرے سیکٹرF-8/2میں بتی نہیں ہوتی۔

واپڈا والے فون نہیں اٹھاتے۔ ان کے دفتر خود ڈرائیوکرکے حاضری دیتا ہوں۔مجھے بتایا جاتا ہے کہ سسٹم کو اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے۔سمجھ نہیں آرہی کہ کون سا سسٹم ہے جسے ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرنے کے لئے روزانہ نو بجے سے دوپہر کے دو بجے تک مجھ جیسے صارفین کو بتی میسر نہیں ہوتی۔ اپنے ٹویٹر اکائونٹ کی ٹائم لائن پر نگاہ ڈالوں تو ہمارے کئی بڑے شہروں کے ’’پوش‘‘ کہلاتے علاقوں کے مکین بھی روزانہ کی بنیاد پر مسلسل کئی گھنٹے بجلی کی عدم دستیابی کا شکوہ کرتے سنائی دیتے ہیں۔

شاید ’’نیا پاکستان‘‘ کے ہر بڑے شہر میں بے تحاشہ مقامات پر بجلی کی فراہمی کا سسٹم اپ ڈیٹ ہورہا ہے۔عام آدمی کا یقین مانیں اصل مسئلہ بجلی کی فراہمی اور ٹماٹرکی قیمت ہے۔ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پرلیکن ملک کے نظام حکومت کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرنے کا جنون طاری ہے۔بدھ کی صبح سپریم کورٹ میں جو کارروائی ہورہی تھی اسے بھی’’سسٹم اپ ڈیٹ‘‘ ہی کا حصہ تصور کیا جارہا ہے۔بدھ کی صبح چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے فون کھولا تو میرے ٹویٹر اکائونٹ پر کئی دوست بہت خلوص مگر بے تابی سے مطالبہ کررہے تھے کہ میں سپریم کورٹ کے روبرو اٹھے سوال کے بارے میں کم از کم ایک فقرہ ہی کہہ ڈالوں۔

جواباََ میں نے منیرؔ نیازی کا ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ لکھ کر گویا اپنا فرض ادا کردیا۔منیرؔ نیازی کا ذکر چلا ہے تو یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی احوال کی ’’اصل‘‘ نمائندگی منیرؔ نیازی نے کی۔اسے لکھتے ہوئے مگر خوف آتا ہے کیونکہ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘والے فیض احمد فیضؔ کو ہمارے بے تحاشہ پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت غالبؔ کے بعد اُردو کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتی ہے۔

فیض صاحب کا میں بھی ذاتی طورپر شدید چمچہ رہا ہوں۔ ان کے ساتھ بے شمار محفلوں میں کئی گھنٹے صرف کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ منیرؔ نیازی صاحب سے اُستاد امانت علی خان اور منّو بھائی کی بدولت 1970 کی دہائی کے وسط تک لاہور میں کافی ملاقاتیں رہیں۔ منیرؔصاحب بندے کو ایک فقرے سے ہمیشہ کے لئے Define کردیا کرتے تھے۔عموماََ ان کا کہا فقرہ ’’ممدوح‘‘ کے لئے باعث فخر نہیں ہوتا تھا۔ع

جیب بات مگر یہ بھی ہے کہ میرے ساتھ انہوں نے ہمیشہ پُرخلوص شفقت برتی۔ ایک مرتبہ یہ بھی کہہ دیا کہ ’’تیرے متھے(ماتھے) تے علم لکھیا ہویا‘‘۔ میرا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا تو فوراََ سمجھادیا کہ ’’تم میں جستجو کی تڑپ ہے‘‘۔اس تڑپ کو کوئی تخلیقی شے لکھنے کے لئے استعمال کرسکوں گا یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ساتھ ہی اپنے مخصوص انداز میں طنزیہ طورپر یہ تجویز دی کہ مجھے اشفاق حمد صاحب سے رابطہ کرنا چاہیے۔ ’’اس کے پاس بابے ہوتے ہیں‘‘ شاید کوئی ’’بابا‘‘ تیرے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سناسکے۔امانت علی خان صاحب نے بات بدل کر میری یا شاید اشفاق صاحب کی ’’جاں بخشی‘‘ کروائی۔منیرؔ نیازی کی شاعری کے بار ے میں ’’بڑا بول‘‘ کہہ دینے سے قبل مجھے بہت پڑھنا ہوگا۔معقول اور مؤثر دلائل ڈھونڈنا ہوں گے۔جب تک میں یہ دلائل ڈھونڈ نہیں لیتا ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘کا ورد کرتا رہوں گا۔اگرچہ…

عمر کے جس حصے میں پہنچ گیا ہوں وہاں شدت سے احساس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اپنی عمرتو ایک لوک گیت میں بیان کردی ’’پباّں بھار‘‘ بیٹھے ہوئے ہی گزر گئی۔ اس ’’صبح‘‘ کا انتظار جس نے شاید طلوع نہ ہونے کی قسم کھارکھی ہے۔’’عمر‘‘ کے ذکر ہی سے خیال آیا کہ منیرؔ صاحب نے یہ گلہ بھی تو کیا تھا کہ ’’عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا‘‘۔میری عمربھی ’’اس‘‘ نے بسر کرلی ہے۔احتیاطاََ یہ اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری دانست میں میری اور منیر نیازی کی’’عمر‘‘ بسر کرنے والا ’’اس‘‘ روایتی شاعری والا محبوب نہیں ہے۔ہماری اشرافیہ ہے۔اس کے بااختیار حلقے ہیں۔ ’’جو چاہتے ہوسو آپ کرو۔ہم کو عبث بدنام کیا‘‘ والاقصہ ۔

ذرا سی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے پاکستانی کو بھی جولائی 2018کے انتخابات کے بعد جبلی طورپر اندازہ تھا کہ ’’توسیع‘‘ ہوگی۔اس کی حمایت یا مخالفت میں دلائل دیئے جاسکتے ہیں۔معاملے کو مختصر رکھنے کے لئے مگر تسلیم کرلیتے ہیں کہ ’’توسیع‘‘ شاید ملک میں’’استحکام‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے ضروری تھی۔عمران حکومت نے مگر اس معاملہ کو کافی بھونڈے انداز میں ہینڈل کرنے کی کوشش کی۔تھوڑی ٹھنڈک اور سوچ بچار سے کام لیا ہوتا تو شاید منگل کے روز سے وہ بے چینی دیکھنے کو نہ ملتی جوسپریم کورٹ کی جانب سے چند بنیادی سوالات اٹھانے کی وجہ سے دیکھنے کو ملی۔

’’سب کچھ لٹنے کی‘‘ مگر ابھی نوبت نہیں آئی۔ ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو سیدھا کیا جاسکتا ہے۔فروغ نسیم مگر اس ضمن میں خود کو ابھی تک دورِ حاضر کا شریف الدین پیرزادہ ثابت نہیں کر پائے ہیں۔ان کی کلاس ہی اور تھی۔فروغ صاحب کے علاوہ عمران حکومت کو ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی فراست بھی ہمہ وقت میسر ہے۔اس فراست کے ضمن میں کسی زمانے میں آصف علی زرداری کے لئے ’’جملہ حقوق محفوظ‘‘ ہوا کرتے تھے۔اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ کہانی پھر سہی۔جنرل کیانی کو مگر آصف علی زرداری نے افتخار چودھری کے ہوتے ہوئے بھی توسیع مہیا کردی تھی۔

اس کے خلاف نہ اپیل ہوئی نہ کوئی سوموٹو۔ شاید اس وجہ سے آصف صاحب کے چاہنے والے ایک زرداری کو ’’سب پہ بھاری‘‘ پکارا کرتے تھے۔وہ ان دنوں مگر شدید علیل ہیں۔’’طبی بنیادوں‘‘ پر ضمانت کی درخواست پر دستخط کرنے کو لیکن میرا یہ کالم لکھنے تک تیار نہیں تھے۔ان کے فرزند جو خیرسے ’’سب پہ بالادست‘‘ شمار ہوتی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ بھی ہیں، ابھی تک کوئی ایسی راہ تلاش نہیں کر پائے جس کی بدولت آصف علی زرداری کی صحت پر نگاہ رکھنے والے ڈاکٹروں کے بورڈ میں ان کا ذاتی معالج بھی شریک ہوسکے۔

آصف علی زرداری جب ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ کی بدولت آخری بار پالیمان میں آئے تھے تو ان کے ساتھ تنہائی میں دس منٹ گفتگو کا موقعہ ملاتھا۔میں نے پُرخلوص فکر سے ان کی طبیعت کا پوچھا تو موصوف نے انتہائی ڈھٹائی سے مجھ سے سگریٹ مانگ لیا۔میں ہچکچایا تو بے تکلفی والے فقرے سہنا پڑے۔ مجھ سے غالبؔ کا وہ شعر جاننا چاہا جو ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘ والی بات کرتا ہے۔

میں نے پڑھ دیا تو صرف یہ کہا کہ ’’(میری) موت‘‘ اسی دن آئے گی جس دن لکھی ہوئی ہے۔’’انہیں‘‘ اپنا شوق پورا کرلینے دو۔آف دی ریکارڈ گفتگو میری دانست میں آف دی ریکارڈ ہی ہوتی ہے۔مزید لکھنے سے عاجز ہوں۔فقط یہ اعتراف کرتا ہوںکہ میری دانست میں زرداری صاحب کو یقین تھا کہ عمران حکومت اپنی ’’پھرتیوں اور ہوشیاری‘‘ کے باعث زیادہ دن چل نہیں پائے گی۔ اس ضمن میں مجھے نواز شریف صاحب کو ’’میں ڈکٹیشن نہیں لونگا‘‘ والی تقریر بھی یاد دلائی تھی۔بہرحال ’’وڈے لوگوں‘‘ کی باتیں بھی ’’بڑی‘‘ ہوتی ہیں۔میرے ہاں دوپہر کے 12:30ہونے کو ہیں۔بتی ابھی تک غائب ہے۔’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ‘‘ یاد دلاتے ہوئے آج کا کالم ختم کرتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).