اشتہار برائے گمشدہ جماعت اسلامی


جماعت اسلامی اپنے سائز اور تاثر کے اعتبار سے کبھی بھی عوامی جماعت نہیں رہی لیکن اس کمی کے باوجود بھی جماعت اسلامی کا سیاسی رعب صف اول کی سیاسی جماعتوں جیسا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا بیان یا ایکشن حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کا باعث بنتا اور ووٹ نہ دینے کے باوجود بھی عوام اِن کی طرف متوجہ ضرور ہوتے۔ گویا ماضی کی جماعت اسلامی بے حد کم ووٹ بینک کے ساتھ بھی معاشرے پر ایک بڑا اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

مثلاً قادیانیوں کے خلاف تحریک اور افغان جہاد کو چھوڑ کر بھی چند دیگر اہم واقعات کو یاد کریں تو پاکستان کی ہسٹری بتاتی ہے کہ جماعت اسلامی کے کئی مطالبات کو پاکستان کے چوہدری محمد علی کے 1956 ء کے پہلے آئین میں شامل کرکے اسمبلی سے پاس کروایا گیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے بانی اور اُس وقت کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس آئین کی تائید کی اور اسے اسلام کی فتح قرار دیا۔ جماعت اسلامی نے 1958 ء میں مسلم لیگ کے عبدالقیوم خان اور سابق وزیراعظم اور نظام اسلامی پارٹی کے چوہدری محمد علی کے ساتھ مل کر ایک سیاسی اتحاد بنایا جس نے صدر سکندر مرزا کی حکومت کو بہت کمزور کیا اور ملک مارشل لاء کے ہاتھوں میں چلا گیا۔

جماعت اسلامی 1970 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے خلاف انتخابات میں شامل ہوئی لیکن انتخابات سے چند روز قبل نوابزادہ نصر اللہ خان نے اتحاد کو چھوڑ دیا۔ اس سیاسی مایوسی کے موقع پر جماعت اسلامی نے آگے بڑھ کر اتحاد کی قیادت سنبھالی اور پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے خلاف مشکل مہم بڑی شدومد سے چلائی۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے جماعت اسلامی سے بڑھ کر عملی کام نہیں کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کے دنوں میں جماعت اسلامی کے اُس وقت کے امیر میاں طفیل محمد نے 1973 ء میں پیپلز پارٹی کی اخلاقی کرپشن کے خلاف فوج کو اپیل کی کہ وہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹے۔ اسی خواہش کو آگے بڑھاتے ہوئے جماعت اسلامی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک نظام مصطفی کی قیادت میں شامل ہوئی جس کی تکمیل جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء پر ہوئی۔ مارچ 1977 ء کے انتخابات میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دھاندلی کے خلاف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہم خیال سیاسی جماعتوں کو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا کہا۔

اس موقع پر سعودی عرب نے مولانا مودودی کی رہائی کے لیے اہم کردار بھی ادا کیا۔ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالنے کے لیے جماعت اسلامی نے بھٹو مخالف تحریک پی این اے کو سب سے اہم معاونت فراہم کی اور بھٹو کی پھانسی سے ایک رات قبل 90 منٹ تک جنرل ضیاء الحق سے ملاقات بھی کی۔ اُس وقت کے بی بی سی کے مشہور عالم صحافی اوون بینٹ جونز کے مطابق ”جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت تھی جو جنرل ضیاء الحق کی بھرپور مدد کرتی تھی۔

اِس کے انعام کے طور پر اُس دور میں جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں اور ہمدردوں کو نوکریاں دی گئیں ”۔ بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ انہوں نے 27 اکتوبر 1996 ء کو لانگ مارچ کا آغاز کیا اور صرف ایک ہفتے کے بعد پیپلز پارٹی کے اپنے صدر فاروق احمد خان لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو برخواست کردیا۔

جماعت اسلامی نے 1997 ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن پارلیمانی نمائندگی نہ ہونے کے باوجود بھی سیاسی میدان میں بڑی متحرک رہی جس کی بڑی مثال وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی دعوت پر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاکستان کے دورے کے موقع پر جماعت اسلامی کا شدید احتجاج تھا۔ جماعت اسلامی نے نواز شریف کے خلاف جنرل مشرف کے مارشل لاء کو خوش آمدید بھی کہا تھا۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء کے دوران بننے والے مذہبی سیاسی اتحاد ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کو حسب سابق اہم کردار ملا۔

جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے لال مسجد کے متاثرین سے یکجہتی کے لیے قومی اسمبلی میں اپنی نشست سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ کہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح کی سرکاری دستاویزات میں شمولیت کا سہرا بھی جماعت اسلامی کے سرجاتا ہے۔ اس کام کے لیے جماعت اسلامی کے سرگرم ہم خیال اُس وقت کے صف اول کے بیوروکریٹ اور بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بننے والے چوہدری محمد علی نے خاص سہولت کار کے فرائض ادا کیے۔

اسی طرح پاکستان کی سیاست میں دھرنا نامی جدید احتجاج کے موجد بھی جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ہی تھے۔ انہوں نے دھرنے کی رونمائی یا دھرنائی سیاست کی مارکیٹنگ کا آغاز جنرل مشرف کے خلاف تحریک سے کیا۔ جماعت اسلامی کے تینوں امیروں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی امارت کے دوران جماعت اسلامی حکمرانوں کے دلوں میں چبھی ایسی پھانس تھی جسے وہ نہ نکال سکتے تھے نہ چھوڑ سکتے تھے۔

اِن کے بعد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن جماعت کے نئے امیر منتخب ہوئے۔ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کی کارکردگی اچھی تھی لیکن امارت سنبھالنے کے بعد ان کے حوالے سے تین خبریں ہی قابل ذکر کہی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے پہلی یہ کہ وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوگئے۔ دوسری یہ کہ وہ جماعت اسلامی کی اب تک کی ہسٹری میں پہلے مرکزی امیر تھے جنہیں جماعت اسلامی کے اراکین نے اپنے ووٹ کا استعمال کرکے جماعت اسلامی کی امارت سے فارغ کیا۔

تیسری یہ کہ سید منور حسن نے اپنی امارت کے دوران پاکستانی فوج کے خلاف ایسا بیان دیا جو جماعت اسلامی کی گزشتہ پالیسیوں کے برعکس تھا۔ ان کا یہ بیان جماعت اسلامی کے کارکنوں اور ہمدردوں کے نزدیک بھی غیرمنطقی اور باعث تشویش تھا۔ جب سراج الحق نے جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو جماعت اسلامی والوں کا کہنا تھا کہ ان کے آنے سے قاضی حسین احمد کی یاد تازہ ہو جائے گی لیکن لگتا ہے ”جو گیا وہ پھر نہ آیا“۔

سراج الحق کے اب تک کے دور میں قاضی حسین احمد کا عکس تو نظر نہ آیا لیکن سراج الحق بھی کہیں چلے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر قاضی حسین احمد تک 62 برسوں کے دوران ملک کی سیاسی صورتحال، کشمیر اور خارجہ پالیسی کے امور اور اصلاحی تحریکوں وغیرہ میں جماعت اسلامی کا بیانیہ حکمرانوں کے لیے سردرد بن جاتا تھا اور وہ اس پر سنجیدگی سے سوچ بچار کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد کے بعد اب جماعت اسلامی ماضی کی یادوں کے بل بوتے پر کھڑی رہنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے یا اب خود کچھ نہ کرتے ہوئے اپنے آباؤ اجداد کے شاندار کارناموں کی ٹم ٹم گاڑی پر ہی سفر کرنے کی عادی ہوگئی ہے۔

گزشتہ 10 برسوں میں ملک کے سیاسی، خارجی اور اصلاحی میدانوں میں بیشمار اتار چڑھاؤ آئے مگر جماعت اسلامی کا اِن امور پر کوئی نمایاں وزن نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی کی پالیسیوں کی حمایت یا اختلاف کرتے ہوئے دونوں صورتوں میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا جماعت اسلامی کہیں گم ہوگئی ہے یا اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے اور مستقبل میں اُسے الوداع کہنے کا وقت قریب ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).