ریاست بہاول پور کا پہلا صاحب دیوان شاعر: ”ارمغان اوچ“کا مطالعاتی جائزہ


ارمغان اوچ انیسویں صدی میں خانوادۂ سادات گیلانی کے بزرگ اوردرگاہ قادریہ عالیہ کے سجادہ نشین مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے اردو، فارسی اور سرائیکی کلام کا انتخاب ہے، جسے بہاول پور کے بلند فکر ادیب و مصنف، نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی خامس کے اے ڈی سی بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ نے مرتب کر کے سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے زیراہتمام 1966 ء میں گردیزی پرنٹنگ پریس بہاول پور سے شائع کرایا۔

جس کا پہلا ایڈیشن صرف 250 کاپیوں پر مشتمل تھا۔ 75 صفحات پر مشتمل ”ارمغان اوچ“ بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ کی ایک ایسی مطالعاتی کاوش تھی جس کے ذریعے انہوں نے ڈیڑھ سو سالہ قدیم ایک گم نام مخطوطے کو پہلی بار منصہ شہود پر لا کر خطہ پاک اوچ کے قدیم علمی و ادبی سلسلے کی بہت سی پوشیدہ عظمتوں کی نقاب کشائی کی۔ یہ شعری انتخاب ”دیوان سید“ کے جس قلمی مسودے سے ترتیب دیا گیا ہے اس پر ”تمت بالخیر“ تاریخ 7 جمادی الاول 1284 ہجری درج ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ڈیڑھ سو سال بیشتر اس سرزمین پر اردو اور فارسی زبان و ادب کا ایک صاحب دیوان شاعر موجود تھا جس سے ضلع بہاول پور کے علمی و ادبی حلقے 1966 ء تک بے خبر رہے۔

مولوی عزیز الرحمن عزیزؔ کی تحقیق کے مطابق 1880 ء سے قبل بہاول پور میں اردو شاعری کے نقوش تقریباً مفقود ہی ہیں۔ کیونکہ اس دور میں ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ البتہ 1866 ء سے قبل نواب بہاول خان عباسی رابع کے عہد میں ریاست بہاول پور کے میر منشی مولوی نصیر الدین کی ایک غزل کا تذکرہ ملتا جو ریاست کے سرکاری گزٹیئر ”صادق الاخبار“ میں اشاعت پذیر ہوئی۔ مذکورہ غزل کا مطلع کچھ یوں ہے

کیسے خوش سوئے تھے ہم بستر آرام کے بیچ

کیا لیا ہم کو جگا کر، دیا کس کام کے بیچ

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہاول پور میں اردو شاعری کی قدامت کا دائرہ ڈیڑھ سے دو سو سال پر محیط ہے اور مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے قلمی دیوان نے اس کا حتمی ثبوت بھی فراہم کر دیا ہے۔ یہ دیوان 1864 ء میں پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھاجو اس امر کا غمازی ہے کہ مخدوم صاحب ہی ریاست بہاول پور کے پہلے اردوشاعر تھے۔ آپ غالب، ذوق اور ناسخ کے ہمعصر تھے لیکن زبان و بیان کے اعتبار سے انہیں ریاست بہاول پور کا ولی دکنی زیادہ صحیح ہو گا۔ کیونکہ سرائیکی اور فارسی سے اثر پذیر اس سرزمین میں اردو شاعری کو مقبول بنانے کے لئے انہوں نے وہی بنیادی کردار ادا کیا جو ولی دکنی نے دہلی میں ادا کیا تھا۔

”ارمغان اوچ“ میں مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے کلام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا حصہ اردو غزلیات کا ہے جس میں 28 غزلیں اور چند اشعار شامل ہیں، کلام کا دوسرا حصہ فارسی شاعری پر مشتمل ہے جس میں 16 غزلیات و رباعیاں موجود ہیں جبکہ تیسرا اور آخری حصہ سرائیکی شاعری پر محیط ہے جس میں 9 کافیاں شامل اشاعت ہیں۔ واضح رہے کہ سرائیکی زبان کی یہ بلند پایہ اورفکر انگیز کافیاں اس زمانے میں لکھی گئی تھیں جب عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی سرائیکی شاعری کاطوطی بول رہا تھا۔

بلاشبہ ان کا فارسی اور سرائیکی کلام اردو شاعری سے زیادہ زوردار ہے اور اس میں ان کا انداز بیان بھی استادانہ ہے۔ مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے کلام میں تغزل کے غنائیہ پہلو بھی کثرت سے نظر آتے ہیں اور تصوف کی جھلکیاں بھی۔ عشق و وارفتگی کی علامات وہی ہیں جو ان کے ہم عصر شعراء میں پائی جاتی ہیں۔ تخیل کی بلندی، تشبیہات کی ندرت، الفاظ کی بندش، ترکیب شعری کے لوازمات اور سوز وساز کی معنویت سے لبریز ان کا کلام گوناگوں خوبیوں کا حامل ہے۔ ”ارمغان اوچ“ کے سرورق پر مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی ہی کا یہ خوبصورت شعر درج ہے جو ان کے فی الاصل اور بالذات مسند آرائے عرفان ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔

اُگیں گے چار طرف میرے لالہ و نرگس

کہ بعد ِ مرگ بھی ہو گا مرے مزار سے فیض

چونکہ مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کی شاعری کا دور دہلی اور لکھنو کے شاعرانہ کمال وزوال کا دور ہے لہذا ان کے ہاں دونوں رنگوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں لیکن لکھنوی رنگ زیادہ چھایا ہوا ہے، جس نے انہیں جذبات کی بجائے معاملات اورداخلیت کی بجائے خارجیت کا مظہر بنا دیا ہے۔ اس دور کی ایک مقبول صنعت ایہام گوئی جو رعایت لفظی ہی کی ایک مشکل شکل تھی، مخدوم صاحب کے شعروں میں بہت نمایاں نظر آتی ہے، اس حوالے سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

کس طرح دام محبت سے چھٹے گا یہ دل

زلف پیچاں ہی گلو گیر ہے اللہ اللہ

***   ***

مریض ہجر ہوں تشخیص نبض کیا ہے طبیب

پلا دے وصل کی دارو یہی ہے میرا علاج

***  ***

تیری فرقت میں اے گل خنداں

بن گیا جسم خار کی صورت

”ارمغان اوچ“ کے پہلے صفحے پر مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کا اپنے رفقاء کے ہمراہ گروپ فوٹو ہے جبکہ آغاز میں مرتب بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ کی طرف سے ”ارمغان اوچ“ کے حوالے سے چند دلچسپ تفصیلات، مقام تصنیف، اوچ کی اہمیت، دیوان سیدؔ اور صاحب دیوان کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب میں سید تابش الوری، مسعود حسن شہاب، علی احمد رفعت اور علامہ رحمت اللہ ارشد جیسی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کی آراء بھی شامل ہیں جنہوں نے کلام میں زبان و بیان کی صنعت گری، ندرت فکر، تشبیہات و استعارات کی کشیدہ کاری اور فن کی جلوہ طرازی پر سیر حاصل گفتگو کی۔

کتاب کے آخر میں ”دیوان سید“ کے اصل مخطوطات کا عکس بھی پیش کیا گیا ہے۔ نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے ملٹری سیکرٹری اورشاعر مشرق علامہ اقبال کے استاد سیدمیر حسن کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ نے نامساعد حالت اور وسائل کی کمیابی کے باوجود ”ارمغان اوچ“ کی شکل میں اردو، فارسی اور سرائیکی کے جونادر و نایاب جواہر محفوظ کیے یہ انہی کا خاصہ تھا۔

مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے ”دیوان سید“ کا اصل مسودہ مخطوطے کی شکل میں اوچ شریف کی گیلانیہ لائبریری میں محفوظ ہے جبکہ نصف صدی قبل بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ کا مرتب کردہ انتخاب کلام ”ارمغان اوچ“ نایاب ہے۔ شنید ہے کہ اپنی علالت اور پیرانہ سالی کے باعث بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ ”ارمغان اوچ“ کا دوسرا ایڈیشن شائع نہیں کرا سکے تھے۔ سنٹرل لائبریری بہاول پور میں پہلے ایڈیشن کی ایک کاپی موجود ہے اور اسی ایڈیشن کی فوٹوکاپی گیلانی لائبریری میں موجود ہے۔

مخدوم سید شمس الدین (خامس) گیلانی کے پرپوتے، درگاہ قادریہ غوثیہ عالیہ اوچ شریف کے موجودہ سجادہ نشین و صوبائی پارلیمانی سیکرٹری مخدوم سید افتخار حسن گیلانی کے مطابق ”دیوان سید“ کاڈیڑھ سو سالہ قدیم مخطوطہ تاریخی تحقیق کے لئے اہم مواد کی حیثیت رکھتا ہے اور ہیئت و اسلوب کے لحاظ سے اس کی اہمیت کسی خزانے کی سی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علم و ادب اور تحقیق وتالیف سے وابستہ اُردودان طبقے کے افادہ کے لیے اس مخطوطے کو نئے قالب میں ڈھال کر کر پیش کرنے کے لئے ریاض حسین بھٹہ کے زیر نگرانی مفتی تنویر مدنی ”دیوان سید“ کے کلام کے تقابل، اغلاط کی اصلاح، حذف وسقط اور زیادتی واضافے کے حل، ایک جیسے حروف کو ممتاز کرنے، حواشی لکھنے، علاماتِ ترقیم اور رموز واختصارات وغیرہ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور جلد ہی اس کی اشاعت ممکن بنائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).