پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ بنانے کا معاملہ


پنجاب کے اندر نئے صوبے بنانے سے متعلق مختلف اوقات میں کافی ہلچل ہوتی ہوئی نظر آتی رہتی ہے، جو معاملہ تحریک انصاف کے پہلے سو دن کے پلان کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسی ایشو پر حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے نظر آتی رہی تھیں۔ گذشتہ سال 20 دسمبر کے دن اسی ایشو پر قومی اسمبلی کے اندر کافی بحث ہوئی، جس میں ایک طرف مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے جنوبی پنجاب صوبہ بننے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے بہاولپور صوبہ بحال کرنے پر بھی زور دیا۔

اور دوسری جانب مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اور حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے اتحادی وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے بھاولپور صوبے کی مانگ کی گئی۔ تیسری جانب اسی ہی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندگان کی طرف سے بہاولپور صوبے کی مخالفت کرتے ہوئے سرائیکی صوبہ بننے کے حق میں بات کی گئی۔ ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے پنجاب کے اندر نئے صوبوں سے متعلق مؤقف کے پیچھے ہر کسی کا اپنا اپنا سیاسی ایجنڈہ اور مفادات ہیں، جن کو سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ پنجاب کے اندر نئے صوبے خاص طور پر سرائیکی صوبہ تحریک کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔

سرائیکی زبان کو شروع سے ہی پنجابی زبان کا ایک لہجہ ہی تصور کیا جاتا رہا، جس حوالے سے برٹش سرکار کے دوران بھی کچھ بیوروکریٹس کی طرف سے سرائیکی زبان کو ”مغربی پنجابی“ زبان کا نام دیا جاتا رہا، لیکن پھر آگے چل کر جب بھٹو صاحب نے 1970 کے انتخابات میں سندھ اور پنجاب سے کامیابی حاصل کی تو 1970 کی دہائی میں سرائیکی زبان اور قومیت کی بحث نے جنم لیا۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے 1970 کے الیکشن میں سرائیکی بیلٹ سے کامیابی حاصل نہیں کی تھی اور انہیں سرائیکی بیلٹ کے ان علاقوں جہاں پر جاگیرداروں کا راج تھا، مثلآ جھنگ، اٹک، میانوالی، خوشاب، ڈی جی خان اور راجن پور سے شکست ملی، لیکن حکومت بنانے کے بعد جیسے ہی بھٹو صاحب نے زرعی اصلاحات کرنے کا اعلان کیا تو اس خوف کی وجہ سے کے کہیں بھٹو صاحب سرائیکی بیلٹ کے جاگیرداروں کے خلاف بھی نہ کوئی ایکشن لیں، اسی لئے انہیں علاقوں جہاں بھٹو صاحب کو شکست ملی تھی کے جاگیرداروں نے پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔

سرائیکی زبان کو ایک علیحدہ حیثیت دینے کی جدوجہد بنگال کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد شروع ہوئی، جب سرائیکی تحریک کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دینا شروع کیا کے وہ پنجابی قومیت کا حصہ نہیں بلکہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ سرائیکی زبان جسے کسی دور میں ”ملتانی زبان“ بھی کہا جاتا تھا، اسی حوالے سے پاکستان کے معروف اسکالر طارق رحمان دعویٰ کرتے ہیں کہ ”ملتانی زبان کو پنجابی سے علیحدہ کر کے ایک الگ زبان کے طور پر متعارف کروانے والے ملک کے مشھور بیوروکریٹ قدرت اللہ شھاب تھے۔

” لیکن سرائیکی کو سرکاری سطح پر ایک الگ زبان کا درجہ جنرل ضیا کے دور میں ملا، اور بعد میں سرائیکی قومی موومینٹ (ایس کیو ایم) پارٹی بھی بنی۔ بھرحال کیوں کہ سرائیکی بیلٹ کے عوام کی محرومیاں سب کے سامنے تھیں، جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس ایشو کو اھمیت دینا شروع کیا، جس کی تحت پشتونوں کی نمائندہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اورمیر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی نے بھی اپنی پارٹیوں کے اندر سرائیکی یونٹ قائم کیے۔

سرائیکی عوام کی محکومیوں اور محرومیوں کو دیکھ کر ملک کے اندر مظلوم قومیتوں کے حقوق کی سیاست کرنے والی تنظیمیں سرائیکی کاز میں ساتھ دے رہی تھیں لیکن ساتھ ہی انہیں کچھ اعتراضات بھی تھے۔ مثلآ کسی دؤر میں سرائیکی تحریک کی طرف سے سرائیکی صوبے کے کچھ نقشے منظر عام پر لائے گئے جن میں سندھ کے کچھ علاقے جہاں پر سرائیکی بولنے والے سندھیوں کی اکثریت تھی، وہ بھی ان نقشوں میں سرائیکی صوبے میں شامل کیے گئے تھے۔

اس حوالے سے جو ”پہلی آل پاکستان سرائیکی کانفرنس“ بلائی گئی، اس میں اس طرح کے نقشے تقسیم کیے گئے جس کی وجہ سے سندھ سے آئے ہوئے مندوبین کافی ناراض اور خفا ہوئے، جس کے بعد صوبے کے نقشوں سے سندھ کے علاقے ہٹا دیے گئے۔ لیکن آج بھی جو سرائیکی تحریک جاری ہے، وہ جو سرائیکی صوبے کا نقشہ پیش کر رہی ہے، اس سے بھی کچھ علاقوں کے باشندے نالاں ہیں۔ مثلآ اسی نقشے میں بھاولپور کو سرائیکی صوبے کا حصہ دکھایا گیا ہے، جس کی کچھ سیاسی قوتیں بشمول طارق بشیر چیمہ مخالفت کر رہیں ہیں۔

اسی طرح ڈیرہ غازی خان جو کہ بلوچی زبان بولنے والوں کا اکثریتی علاقہ ہے، کو بھی سرائیکی صوبے میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب بلوچ قومی تحریک کے رہنما ڈی جی خان کو بلوچستان کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ڈی جی خان کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان جو کے پی کے کا حصہ ہے، اس کو بھی سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور سرائیکی صوبہ تحریک کے رہنماؤں کے ایسے مطالبات سے ان کی تحریک کو کے پی کے اور بلوچستان کی قومی تحریکوں سے کوئی خاطرخواھ حمایت نہیں ملتی۔ جتنی حد تک سندھ سے سرائیکی صوبے کی حمایت کرنے کا تعلق ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی جس کی قیادت کا تعلق سندھ سے ہے، وہ اس سرائیکی صوبے کی شروع سے حمایت کرتی ہوئی آ رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے بھی پی پی کے سیاسی مقاصد ہیں۔

پی پی حکومت کے دوران تاج حیدر کی سربراہی میں 2010 میں سرائیکی صوبے کے معاملات پر غور کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے مئی 2012 میں سرائیکی صوبے کی حمایت میں قومی اسمبلی سے قرارداد پاس کی گئی۔ اسی برس مئی کے مہینے میں پنجاب اسمبلی سے جنوبی پنجاب اور بھاولپور صوبے کی بھی قرارداد پاس کی گئی۔

اس کے بعد اگست 2012 میں قومی اسمبلی کی اس وقت کی اسپیکر فھمیدہ مرزا کی طرف سے سرائیکی صوبے کے معاملے کے اوپر ایک پارلمانی کمیشن بنایا گیا، جس کی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب کی تقسیم کے حق میں نہیں۔ لیکن پچھلے سال 20 دسمبر کے دن منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے لے کر اب تک مسلم لیگ نواز کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے پی ٹی آئی حکومت پر زور ڈالا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے اس یوٹرن کے پیچھے یہ منطق ہو سکتی ہے کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنتا ہے تو پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب میں اکثریت کھو بیٹھے گی، جس کے بعد پی ٹی آئی کو پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے گے۔ اسی لئے مسلم لیگ نواز کو یہ بخوبی پتہ ہے کے عمران خان یہ کڑوی گولی کبھی نہیں کھائے گا، اسی لئے مسلم لیگ نواز کی حقیقت میں جنوبی پنجاب صوبے سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، بلکہ وہ تو صرف پی ٹی آئی حکومت کو جنوبی پنجاب کی عوام کے سامنے نیچا دکھانے کے لئے ہی یہ سب کر رہی ہے۔

پی پی کی سرائیکی صوبے کی حمایت کرنے کے پیچھے یہ منطق ہے کہ پنجاب کی تقسیم سے ایک طرف قومی اسمبلی کے اندر پنجابی لابی کی اکثریت ٹوٹے گی، اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب کے اندر مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کی قوت بھی کسی حد تک تقسیم ہوگی۔ تیسری جانب وفاقی وزیر طارق بشیر چیما کی طرف سے جاری جنوبی پنجاب صوبے کی مخالفت کے پیچھے خود تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے کردار کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا، جو کہ اس مشکل گھڑی میں نہ تو جنوبی پنجاب صوبہ بنا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دستبردار ہوسکتی ہے۔ ایسے وقت میں بھاولپور صوبے کے ایشو کو ہوا دینے سے پی ٹی آئی حکومت کے پاس یہ جواز ہوگا کہ وہ اس ایشو کو اسی طرح سے کھینچتے رہیں۔

اسی لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ  پنجاب کی تقسیم کوئی آسان نہیں بلکہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس معاملے میں پارلیمانی سیاست کرنی والی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت کرنے کے پیچھے ہر سیاسی قوت کے اپنے اپنے گروہی مفادات ہیں، لیکن حقیقت میں ان سیاسی قوتوں میں سے کوئی بھی اس معاملے کو سلجھانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بھرحال دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم اور جنوبی پنجاب صوبے کا یہ معاملا کہاں تک جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).