محبت کا محرک کیا ہے؟


اکبر الہ آبادی نے کہا:

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا!

اور اسی حدیثِ اکبری نے ہمارے لئے عشق و عقل کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا۔ یہاں تک کہ شاعرِ مشرق و حکیم الامت بھی اسی شاعرانہ روائیت کے امین نظر آئے۔ اور ایک مدت تک ہم بھی عشق و محبت کو ایک نہ سمجھ میں آنے والی مافوق الفطرت واردات ہی سمجھتے رہے۔ مگر پھر علم نفسیات میں بڑھتی دلچسپی نے کافی حد تک اس جذبے کے محرکات کو سمجھنے میں مدد دی۔

محبت کا محرک کیا ہے؟

ماہر نفسیات ایرک فرام اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری محبت کا ایک بہت بڑا محرک ہمارا احساس ِتنہائی ہے۔ ہمارے اندر کی تنہائی، ہمارا علیحدگی کا احساس، ہمار ا جدا گانہ تشخص۔ اب ذرا اس دعوے پہ تفصیل سے بات کرتے ہیں۔

انسان ایک زمانے تک تو خود کو اس فظرت کا حصہ ہی سمجھتا تھا۔ باقی جانداروں کی طرح کا ہی ایک جاندار۔ مگر جیسے جیسے اس کا شعوری ارتقا ء ہوا یہ اپنے جدا گانہ تشخص سے آگاہ ہوتا چلا گیا۔ انسان نے خود کو اس فطرت میں موجود باقی جانداروں سے الگ سمجھنا شروع کر دیا۔ اور شاید یہ واحد جاندار تھا جو اپنی جبلتوں سے ہٹ کر اپنے ہونے، اپنے وجود کے احساس سے بھی آگاہ ہو گیا۔ اس آگاہی نے، اس علیحدگی کے احساس نے، اس جداگانہ تشخص نے انسان کو اس کے اندر کی ایک لامتناہی کائنات سے روشناس کرا دیا۔

اس کے خیالوں، خوابوں، احساسات کا عجیب جہاں اس کے سامنے عریاں کھڑا تھا مگر اس جہاں کو دیکھنے والا اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ اس نے رابطے کے لئے زبان ڈیویلپ کی مگر یہ زبان بھی اپاہج تھی۔ کیونکہ لفظوں کے کوتاہ دامن میں جذبے اور احساس نہیں سما سکتے تھے۔ جو خلا اس تنہائی نے پیدا کیا ہزار ہا سال سے انسان اسی خلا کو پر کرنے کی جستجو میں مگن ہے۔ انسان اس بیگانگی سے نجات کے لئے، اپنے اندر کی تنہائی سے فرار کے لئے کئی راستے اختیار کرتا ہے۔

کبھی نوع نوع کی تخلیقات کرتا ہے، مصوری کرتا ہے، شعر کہتا ہے، کہانیاں بنتا ہے، معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، کہانیاں سنتے ان کہانیوں کے کرداروں میں وابستگی تلاش کرتا ہے، ایسے خدا کا تصور تراشتا ہے جو ہر لمحے ہر پل اس کی شہ رگ سے نزدیک اس کے ساتھ ساتھ رہے، کبھی نشے میں اپنے احساس ِ تنہائی کو بھلانے کی جستجو کرتا ہے، کبھی جنسی تعلق اسے اس کے احساس ِ تنہائی سے وقتی نجات دلانے کا سبب بن جاتا ہے۔ غرض یونین کی چاہت، ملاپ کی ہر خواہش کا محرک اس کا اپنے الگ تشخص کا احساس ہے۔

یہی تنہائی کا ابدی احساس انسان کے محبت کرنے اور محبت کیے جانے کی خواہش کے پیچھے سب سے بڑا محرک ہے۔ وہ جب یہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے چاہے تو وہ دراصل یہی چاہ رہا ہوتا ہے کہ کوئی اسے سمجھے۔ اس کا ہاتھ تھام کر اس کی من کی دنیا میں اترے اور اسے تنہائی کے احساس سے نجات دلا دے۔ بچہ جب رحمِ مادر میں ہوتا ہے تو وہ اپنی ماں کے وجود سے پیوست ہوتا ہے۔ وہ جب نوزائدہ ہوتا ہے تو وہ خود کو ماں کے وجود کا حصہ مان رہا ہوتا ہے۔

اس کی ماں اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے اس کا شعوری ارتقا ہوتا ہے، اسے اپنے الگ تشخص کا احساس پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اسے اپنے علیحدہ تشخص کا احساس پیدا ہوتا ہے ویسے ویسے اس میں تنہائی کا احساس بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم بحیشیت والدین بچے کی ہر جسمانی ضرورت کا خیال تو رکھتے ہیں مگر اس کی جذباتی ضرورتوں سے ہم نہ آگاہ ہوتے ہیں نہ ہونے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جو بچے کے احساس تنہائی کو مزید جلا بخشتا ہے۔ اب ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ یہ احساس ِ تنہائی بچے میں ایک ساتھی ایک محبوب یا محب کی تلاش کا شدید جذبہ پیدا کر لیتا ہے۔ اس میں چاہے جانے کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔

طبیعت تو پائی تھی بنجاروں جیسی

دکھوں کی بے گھری دیکھی نہ گئی

بے چہرہ دکھوں کو تیرا نام دے دیا

شرمندہ ہوئے جہاں الزام دے دیا

(نامعلوم)

 آپ اپنے اندر جھانک کر خود سے سوال پوچھئے کہ آپ کی محبت کا محرک آپ کی یہ اندر کی ابدی تنہائی ہے کہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).