لمحہ موجود میں ملکی صورت حال پرسکون ہے


ملکی صورت حال ایک لمحے کو لگتا ہے بڑی پر سکون ہے مگر دوسرے ہی لمحے مضطرب نظر آ رہی ہوتی ہے۔ پچھلے چند روز میں ایسا لگا کہ معاملات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں لہٰذا اب حکومت کے لیے وہ اقدامات اٹھانا ممکن ہو جائے گا۔ جو وہ کئی ماہ سے کہتی چلی آئی ہے مگر پھر ہوا یہ کہ اسے عدالت عظمیٰ کی طرف سے تھوڑی سی پریشانی نے آن گھیرا۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے اگرچہ اس نے حکمت عملی اختیار کی ہے مگر اسے آگے چل کر اور طرح کی بھی پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ مستقل مزاجی سے ذرا فاصلے پر ہے۔ سنجیدہ فہمی میں بھی وہ خود کفیل نہیں۔

در اصل عمران خان کی حکومت اتحادیوں کے نرغے میں ہے اور ان کا تعلق عام آدمی سے نہیں وہ ایک طویل عرصے سے شاہانہ ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکمرانی بھی ایسی ہی سوچ کے تحت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا ان کا ذہن آسائشوں اور عیش و عشرت کا عادی ہو چکا ہے اب اگر ان سے عوامی خدمت ( صحیح معنوں میں) کی توقع کی جاتی ہے تو یہ سادگی ہے لہٰذا عمران خان کو ہر قدم پر رکاوٹوں، عداوتوں اور مزاحمتوں کا سامنا ہے۔

یعنی ان کا ساتھ بیورو کریسی دے رہی ہے اور نہ ہی ملکی خزانے پر جھپٹنے والے لوگ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں تاکہ ایک بار پھر وہی پرانا انداز حکمرانی لایا جا سکے جس میں انہیں کھل کھیلنے کا موقع میسر آ سکے لہٰذا اب حالت یہ ہے کہ عمران خان اس پر ندے کی مانند ہیں جو کسی جال میں الجھ کر خود کو اس سے آزاد کرانے کی سعی کرتا ہے مگر اس سے نجات حاصل نہیں کر پاتا۔ ۔ ۔ ؟

اگرچہ وہ حوصلہ نہیں ہار رہے اور مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں کبھی وہ وزارتوں میں تبدیلی لاتے ہیں اور کبھی سرکاری مشینری میں ردو بدل کرتے ہیں مقصد اس کا یہی ہے کہ وہ حالات کے جال سے چھٹکارا پالیں۔ جو فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اصل میں وہ شروع دن سے ایک غلطی کر بیٹھے ہیں کہ انہوں نے اپنے کارکنوں اور شروع سے ساتھ چلنے والے ساتھیوں کو خود سے دور کر دیا ایسے لوگوں کو اپنا مشیر وزیر بنا لیا جو ان کے کبھی تھے ہی نہیں ان میں سے تو بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک منصوبے کے تحت ان کی پارٹی میں داخل کے گئے تھے تاکہ بوقت ضرورت ان سے کوئی اہم کام لیا جا سکے۔

اس میں اب شک بھی نہیں کہ وہ حکومت کو بد نام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اپنی مرضی کا بیان جاری کرتے ہیں اپنی مرضٰ کا ہی کام کرتے ہیں۔ اُن سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ خفا ہو جاتے ہیں اور علیحدہ ہونے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر غیر منتخب ہیں جو منتخب ہو کر آئے ہیں اور خالصتاً پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں یعنی وہ دس پندرہ برس پی ٹی آئی میں شامل رہے وہ پچھلی صفوں میں لے جا کر کھڑے کر دیے گئے۔ نتیجتاً پورا انتظامی ڈھانچہ ڈانواں ڈول ہے۔ کوئی محکمہ حکومت کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتا اپنی من مرضی کرتا ہے۔ عوام کو ذرا بھر اہمیت نہیں دیتا اسے کوئی ڈر خوف نہیں۔ ڈنکے کی چوٹ پر لوگوں کو رسوا کرتا ہے۔ رشوت لیتا ہے بصورت دیگر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے اور کام خراب کر دیتا ہے۔

بہر حال صوبہ پنجاب کے قریباً تمام اضلاع بالخصوص جنوبی قلعوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج ایسا ماحول بتایا جاتا ہے اب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے عمران خان کو پوچھنا چاہیے کہ وہ کس لیے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے تخت پر براجمان ہیں انہیں تو چاہیے تھا کہ انتظامی امور بہ احسن طریق نمٹاتے اگر ان کا یہ موقف ہے کہ افسران ان کا کہنا نہیں مانتے تو انہوں نے اب تک انہیں چارج شیٹ کیوں نہیں کیا، ان کے خلاف کیسز کیوں نہیں بنائے، اس حوالے سے عدالتوں سے کیوں رجوع نہیں کیا اپنے عہدوں سے کیوں نہیں ہٹایا اور کیوں کام کرنے والے دیانت دار افسران کو تعینات نہیں کیا؟

عجیب بات ہے کہ وہ وزیر اعظم سے شکایت کرتے ہیں خود کچھ نہیں کرتے جو کام ان کے کرنے کا ہے وہ تو کریں۔ اگرچہ اب وزیر اعظم عمران خان نے چیف سیکرٹری پنجاب کو تبدیل کر دیا ہے ان کے ساتھ آئی جی کو بھی بدل دیا ہے ان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے با اصول اور نظم و ضبط کے پابند ہیں لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی ڈیڑھ برس کی خراب کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ بیورو کریسی اپنے فرائض آئین و قانون کے مطابق ادا کرے گی محکمہ پولیس میں اصلاحات لا کر اسے درست سمت کی جانت لے جایا جائے گا جس سے عوامی شکایات کا اذالہ ہو سکے گا۔

عمرا ن خان وزیر اعظم پاکستان کی بہت پہلے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تھے مگر نجانے وہ کیوں انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ شاید وہ اس خوف میں مبتلا تھے کہ ان کے ساتھی ناراض نہ ہو جائیں جن کے مفادات موجودہ نظام سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں آہستہ آہستہ تبدیلی کے عمل میں شریک کیا جائے تو بہتر ہو گا مگر وہ یہ ادراک نہ کر سکے کہ ایک ڈیڑھ برس میں ہی اپنا آپ دکھایا جاتا ہے اس کے بعد رکاوٹیں شروع ہو جاتی ہیں۔

سازشوں کا آغاز ہو جاتاہے۔ اس وقت بھی ویسا ہی نظر آ رہا ہے ہر شعبہ میں چھپے عوام مخالف اور خوشحالی کے بیری مصروف عمل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت گر جائے اور وہ ایک نئی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو سٹیٹس کوکی حامی و محافظ ہو یوں ان کی جائیدادیں اور دولت کے بارے میں کوئی سوال کرنے والا نہ ہو۔

یہ خواہش اُن کی پوری نہیں ہو سکتی خیر ملک کی بقا اسی میں ہے کہ اس طرز حکمرانی و طرز نظام میں تبدیلی لائی جائے۔ عام آدمی کی زندگی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے اُس کی سوچ میں واضح نیا موڑ آ چکا ہے جو کسی بھی طور مناسب نہیں۔ لہٰذا عمران خان اور اُن کے وزرائے اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے ساتھ عوام کے دل میں اُترنے کی کوشش کریں کیونکہ اقتدار چند روز کے لیے ہوتا ہے اور عوام کے دلوں میں اُترنا ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے مگر آج میں پھر عرض کروں گا کہ نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے۔

اگر سن لیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان وزیراعظم اس طرف توجہ دیں یہ جو اُن کے آس پاس بڑے ناموں والے لوگ بیٹھے ہیں ان کے خیر خواہ نہیں یہ فصلی بٹیرے ہیں اور عوام سے شدید نفرت کرتے ہیں انسانیت سے انہیں کوئی غرض نہیں انہیں مال بنانا ہے اور اسے بچانا ہے لہٰذا فی الفور ان سے جان چھڑائی جائے وگرنہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ خود مخلص نہیں اور بدعنوانی کا خاتمہ نہیں چاہتے بدعنوانی کا واویلا محض اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کیاجا رہا ہے؟

حرف آخر یہ کہ حکومت کو ہرطرف سے زچ کرنے والا عنصر سرگرم عمل ہے جس کے نتائج مثبت برآمد نہیں ہو سکتے جبکہ اس وقت ضرورت ہے استحکام کی تا کہ معیشت و معاشرت دونوں سکھ کا سانس لے سکیں اس کے لیے تمام بڑے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ ۔ ۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).