سفرنامہ پبلک ٹرانسپورٹ


مملکت خداداد میں پبلک ٹرانسپورٹ ہمیشہ ذہنی کوفت کا سبب رہتی ہے، ایسا بھی نہیں کہ سب کے لئے ہو، بس راقم کی بدنصیبی سمجھ لیجیے کہ یہ ٹرانسپورٹ الٹا ہم پہ سوار ہوجاتی ہے اور وہ بھی خاص ذہن کے مرکز ثقل پر۔

اور اس بات کا دکھ بھی نہیں کہ راقم کے پاس ذاتی گاڑی نہیں، زہے نصیب کہ وطن عزیز کے تو وزیروں اور مشیروں کے پاس بھی ذاتی گاڑیاں نہیں ہوتیں، اس لئے بمع تیل و مرمت سرکاری گاڑی پہ ہی اکتفا کرلیتے ہیں۔

راقم کو اس ٹرانسپورٹ سے چڑ کی بڑی وجہ ایک ایسی بیماری کا ابتلا ہے جو کہ اصل میں کوئی بیماری ہی نہیں، یعنی ٹینش، ڈپریشن، اینکزائیٹی یا ذہنی دباؤ آپ بھلے جو بھی نام دے سکتے ہیں۔

اگر آپ ایک نارمل دماغ رکھتے ہیں بھی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کنڈیکٹر کی کان پھوڑ آواز میں سواریوں کو بلانا اور پھر ان پر چھینا چھپٹی کرنا کنتی اذیت ناک صورت حال ہوتی ہے؟

مگر ایک ڈپریسڈ ذہن والے کو دوران سفر بھی بہت اضطراب ہوتا ہے، جیساکہ ونڈوز سیٹ کا نہ ملنا، پینے کا پانی تلاشنا، ساتھ والی نشست پر بیٹھے سواریوں کی حرکات و سکنات کو برداشت کرنا بھی ہتھیلی پر تیل جمانے کے مترادف ہوتا ہے۔

لیکن یہ سب آپ کو سنانا چہ معنی دارد؟ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ راقم کو اپنے قارئین بھی اس نادیدہ بیماری میں مبتلا دکھائی دیں۔

لیکن چہ کنم؟ ایک کمزور اور ”خوامخواہ“ لکھاری کے پاس دل کا بھڑاس نکالنے کا واحد ذریعہ اپنی لغویات اور بے ہودہ گوئی کو صفحہ قرطاس پہ اتارنا ہوتا ہے۔

اس سمے اسلام آباد سے بذریعہ کوسٹر سوات کی جانب محو سفر ہوں۔ کرم خدا کا ونڈو سیٹ سے جھانک کر ملاکنڈ کے نظارے بھی دیکھ سکتا ہوں، یخ پانی کی بوتل بھی ہمراہ ہے اور مزے سے حلق میں اتار رہا ہوں، لیکن ایک ایسی مصیبت سر، کان، گلے اور دماغ پہ آں پڑی ہے کہ سارا مزا پھیکا کردیا اور مجبوراً قلم اور کاغذ اٹھاکر غم غلط کرنا پڑ رہا ہے۔

راستے میں ہی موبائیل کان سے لگا ایک جوان کہیں سے آٹپکا اور ساتھ والی نسشت پر اس بے تکلفی سے بیٹھ گیا جیسے اپنے سسرال کے گھر آئے ہو۔

نوجوان کا موبائیل فون پر اپنے کسی دوست، محبوبہ، منگیتر واللہ اعلم جو بھی ہیں، ایک طویل مذاکرہ جاری ہے۔ ہر دو لفظ کے بعد زوردار قہقہہ کا تڑکا لگ جاتا ہے اور کہی کہی پر پیار و رومانس کی باتیں چھڑ جاتی ہیں۔ پھر قہقہ کے ساتھ نوجوان سیٹ پر اچھل جاتا ہے اور اس کی کہنی کا ایک باؤنسر ہمارے سر پر آلگتا ہے۔ جب بات سنجیدگی کی طرف پلٹ جاتی ہے تو نوجوان کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو گدھا آنکھیں بند کرکے سمجھ لیتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ اس دوران نوجوان فل والیوم میں خان لالا، سپین دادا، تورپکے، گل مکے سے لے کر گھر کے تمام خواتین و حضرات کا نام لے لے کر لعن طعن بھیجتا رہتا ہے اور تمام رشتہ داروں کی چپقلش اور مفادات پر سیرحاصل تبصرے بھی فرماتا ہے۔

کبھی کبھی جوش خطابت میں ہمارے ہاتھ پر تالی بجاتا ہے۔ بڑا فاصلہ تو مجھے ہاتھ سیٹ پر دراز کیے رکھنا پڑا تاکہ بار بار تالی دینے کی خاطر نوجوان کے آگے کرنا انتہائی تکلیف دہ تھا۔

ابھی نوٹ بک پر یہ بے تکی سی غم داستان لکھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ ایوان بالا سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے ”تمباکو نوشی منع ہے“ کے علاوہ بھی کوئی اصول وضع کیے جائیں یا پنجاب میٹرو کی طرح ملک کے دوسرے شہروں میں بھی کوئی آرام دہ اور ساؤنڈ پروف ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے۔

لیکن خبردار! جس نے ”بی آر ٹی“ کا نام لیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہم خیبر والے آدھے ذہنی مریض تو اسی کی بدولت بنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).