ثمینہ سید کی تصنیف: ہجر کے بہاؤ میں


چند سال پہلے کی بات ہے محفل مشاعرہ تخلیقی جلوہ کاریوں سے منور تھی۔ شعرائے کرام تذکیر و تانیث کے حسین امتزاج کے ساتھ نوبت بنوبت ڈائس پہ جلوہ گر ہو رہے تھے۔ رنگ محفل روایتی انداز میں حدود اختتام کو چھونے کے لئے کوشاں تھا کہ کھنکتی، جھنکتی، چھنکتی آوازنے سماعتوں کی گہرائیوں کو چونکا دیا۔

چہرے پہ دمک اٹھتا ہے جب رنگ حیا اور

ایسے میں مزہ دیتی ہے اپنی ہی ادا اور

تبحر عمیق سے پُھوٹتے اعتراف بے ساختگیوں کی مضطرب موجوں کے دوش پہ سوار بے باک کناروں پہ واہ واہ واہ واہ کی بھنبھناہٹ میں تحلیل ہو گئے۔ ایسے لگا جیسے حسن و جمال کی مورت کو حُسن پرستیوں کی بے اختیاریوں نے تاڑ لیا ہو اور مقام محبوبیت پہ اتراتے، شرماتے خدوخال رنگ لجا میں نہا گئے ہوں، جس سے لاگ و لگاوٹ کے نکھار نے لطافتوں کی معراج پہ سرگوشی کرتے ہوئے اس کیفیت کو منظوم کر دیا ہو۔

اگلے لمحے تو جیسے پیار کے پنگھٹ پہ وصل کی تعبیر ہوتی خواہشوں کی سرشاریاں دل و جاں سے عاشق پہ صدقے ہوتی واریاں پھر بول اٹھیں

گر جاں بھی مری جائے تو بانہوں میں تمہاری

دل میں کوئی خواہش ہی نہیں اس کے سوا کوئی اور

جاننے پہ معلوم ہوا کہ موصوفہ ثمینہ سید کے نام سے حلقہ ادب میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ پھر ان کا افسانوں کا مجموعہ ہاتھ لگا تو تجسس کی تشفی کا ساماں اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھا۔ ذوق مطالعہ کو دعوت مطالعہ دینا ادبی فریضہ سمجھتا ہوں۔ اس پہ تفصیلا کچھ لکھنے کی سعی آنے والے دنوں پہ اٹھا رکھتا ہوں۔

13 اکتوبر کی شام بزم عامل کے زیر اہتمام ادبی بیٹھک لاہور میں کسی دوشیزہ کے خوابوں کی سرزمین سے پھوٹتی پہلی کونپل جیسی خوشنما محفل ادبی ستاروں کی دمک سے دمکتی کسی راجکماری کی رسم سوئمبر جیسی دلربا پوری آن بان سے سج چکی تھی۔ تصنیف بعنوان ہجر کے بہاؤ میں شہ نشین کے سامنے رکھی گئی میز پرپھولوں کے مہکتے تحائف کی مہکاروں سے بغلگیرپوری سج دھج سے براجمان تھی۔ کہسار ادب کی نیلم نیلمادرانی صاحبہ میرمحفل کی نشست پر جلوہ گر تھیں تو ان کے یمین وشمال میں مہمانان خاص کی حیثیت سے غافر شہزاد، عرفان صادق، شبہ طراز، اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور رونق افروز تھے۔

تقریب کا آغاز کلام مقدس کی تلاوت سے آراستہ کرنے کا شرف خالد محمود صاحب کو حاصل ہوا۔ ڈور نقابت تھامتے ہی منزہ سحر نے مصنفہ کی سحر بیانیوں کو سحر آگین انداز میں بیان کیا۔ شاذیہ مفتی نے افسانوی انداز میں مصنفہ کے ساتھ گزرے اسکول کی ثمین یادوں کی رعنائیوں میں بھولے بسرے قہقہوں میں کھلکھلاتی ثمینہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ریڈیائی لہروں کے دوش پہ سوار حلاوتیں بکھیرتی رابعہ رحمٰن نے حلاوت بخش کلمات سے ثمینہ کی شخصیت کی تصویر کشی کی۔

جیلوں میں مقید نونہالان وطن کی سوچوں میں پلتے خوف کی تاریکیوں کو چراغ علم سے منور کرتی فرح ہاشمی نے مصنفہ کو خراج پیش کرنے کی اچھی سعی کی۔ لاہور کی ادبی محافل میں لازم و ملزوم کی حیثیت کے مالک ممتاز راشد لاہوری نے مصنفہ کے ادبی سفر کو ناپنے کے لئے الفاظ کے زینے کے خوب لگائے۔ ادبی شہکار پہ تبصرہ کناں شاعرہ کی حقیقی تخلیق شوال رضاکا فرمانا کہ ہماری ماما سے جب بھی پوچھو ماما کون سا رنگ پہنا ہے یا یہ کہ کسی رنگ کے بارے میں پسندیدگی کا پوچھو تو بے رنگ جواب آتا ہے کہ پتہ نہیں، لیکن یہی سوال ان سے ان کے بچوں کی پسند بارے پوچھا جائے تووہ بخوبی آگاہ ہیں کہ میرے بچوں کی پسندیدگیوں میں کہاں رنگینیاں بھرنی ہیں۔ بٹیا کے ان الفاظ نے تحسین سخن فہمی کے دھاروں کو نئے ڈگر پہ ڈال دیا۔

سید احمد حسین نے بیٹی کی تائید کو یہ فرماتے ہوئے چار چاند لگا دیے کہ مرسل اعظم محمد مصطفیٰ کی پہلی شہادت بھی ان کے خانوادے نے دی۔ اقبال راہی صاحب نے شاعرہ کو منظوم خراج پیش کیا۔

پوچھا جوکسی نے کہ وفا کا ہے امیں کون

نکلا میرے ہونٹوں سے ثمینہ ہے ثمینہ

عرفان صادق جن کی تخلیقی ٹہنیاں سرحدوں سے سر نکالنے لگی ہیں، نے شاعرہ کے فنی قد و قامت کے ساتھ ساتھ مذکورہ کتاب میں سے اشعار کے حوالے دے کرشاعرہ کی فنی مہارتوں کو خراج پیش کیا

غافر شہزاد نے شاعرہ کی فنکارشخصیت کے اوصاف ذاتی بارے جانکاریوں پہ اظہار مسرت کرتے ہوئے مرحوم تنویر عباس نقوی کی یادیں بھی مربوط کر دیں۔ نوشین نقوی نے شاعرہ کے ساتھ بہنا کے رشتے پہ اظہار تفاخر فرمایا۔ راجہ ریاض نے شاعرہ کو خاندان میں رابطوں کا سنگم قرار دیا۔ ڈاکٹر شاہدہ دلاور نے فرمایا کہ پر فتن دور میں سوچوں کو شفافیت کی راہ دکھاتی ادیبہ شہرت کی خاطر نہیں بلکہ دل کی خاطر لکھتی ہیں۔ مسافتوں کی جزئیات کو سفر ناموں میں منثور کرتی شبہ طراز کا کہنا تھا کہ شاعرہ کی پیشانی پر ادبی سفر کی تکان کی بجائے مسکان سجی ہے۔ مہمان خاص نیلما درانی نے محفل کا اختتامیہ لپیٹتے ہوئے شاعرہ کو ملکوتی حسن کی مالک کا قرار دیا۔

مہاتما بدھ کی تعلیمات پہ مبنی کتاب کا تجزیہ کرتے ہوئے جون ماسکرو نے لکھا تھاسائینس زمین پر چلتی ہے جبکہ شاعری زمین پر اڑتی ہے انسان کی ترقی کے لئے دونوں ناگزیر ہیں۔ لیکن ہم خوبصورتی، جمال، محبت، خیراور صداقت کو مائیکرو سکوپ سے نہیں دیکھ سکتے بلکہ ان کو شاعرانہ بصیرت ہی دکھا سکتی ہے۔

جھیل کے پانی کی طرح پر سکون اور گہری شخصیت کی عکاسی کرتی ثمینہ سید کبھی گلابی انگلیوں والی صبحوں کی پیغامبر نظر آتی ہیں تو کبھی تخلیقی صداقتیں فراق کی گونگی گھڑیوں کو زبان عطا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہجر کے ساگر کی تہہ میں اٹھتے آتش فشانوں کے بہاؤ کو حدود نظم میں مقید کرتی، زیست کی ویرانیوں پر خوشنما رنگوں کی شگفتگیاں چڑھاتی، تو کبھی در بدر بھٹکتی بے بسیرا حسرتوں کو آہوں کی دھونکنی سے ہوا دیتی پیڑ پہ بیٹھے اس پرندے جیسے لگتی ہیں جو ڈار سے بچھڑنے کا دکھ گنگنانا جانتا ہے

کسی بھی کتاب کے پیچھے بڑا ذہن و بڑا تجربہ ہوتا ہے۔ فن پارہ محبت کی توانائی اور حرارت سے لبریز ہے

ثمینہ نے پہلے سے موجود تخلیق کاروں کی تخلیقی کاشتکاریوں میں اپنی ذہانت و روایت کا بیج بو دیا ہے۔ انفرادیت ذرا ملاحظہ ہو کہ خدشے کو کیسے منظوم فرمایا۔

گری تو ٹوٹ کے بکھروں گی دور دور کہیں

اے کاغذی سے سہارو ذرا خیال کرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).