مقامی حکومتوں کے انتخابات


جمہوری وسیاسی نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف ان مقامی اداروں کو ہم بنیادی جمہوری ادارے یا جمہوری نرسریاں کہتے ہیں تو دوسری طرف عام آدمی کے روزمرہ کے معاملات کا براہ راست تعلق بھی اسی مقامی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں حکمرانی کے نظام کو شفاف اور موثر یا پائدار بنانے کے حوالے سے سب سے زیادہ توجہ مقامی نظام کی مضبوطی کو دی جاتی ہے۔ کیونکہ مقامی نظام تک عام لوگوں کی براہ راست رسائی اور مقامی وسائل کی تقسیم اس انداز سے ہوتی ہے کہ عام لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہوتے ہیں۔ یہ نظام عمومی طور پر مجموعی طور پر جمہوری نظام کی عوامی ساکھ قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے او رلوگ اس نظام سے جڑکر اپنی جمہوری وابستگی کو اور زیادہ مضبوط بناتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان وہ معاشرہ ہے جہاں جمہوریت بدستور ایک ارتقائی عمل سے گزررہی ہے۔ ہم دنیا بھر میں ہونے والے اچھے جمہوری تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ماضی کی غلطیوں کو دہرا کر حکمرانی کے نظام میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاسی او رجمہوری قوتوں کا مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں مقدمہ بہت کمزور اور مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آتا ہے۔ جب بھی جمہوری حکومتیں آتی ہیں تو سب سے زیادہ سیاسی استحصال ان ہی مقامی حکومتوں کے نظام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام سیاسی و جمہوری قوتوں کی ترجیحات کا حصہ بن جاتا ہے۔

اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کا نظام سیاسی طور پر مخدوش ہے۔ جو نظام یا قوانین موجود ہیں وہ بھی بنیادی طو رپر 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aکے برعکس ہے۔ یہ قانون صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ انتخابات کو یقینی بنا کر سیاسی، انتظامی، مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے مقامی حکمرانی کے نظام کو موثر بنائیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مقامی نظام حکومت معطل ہے یا اپنی مدت پوری کرچکا ہے، مگر نئے انتخابات کا معاملہ بدستور تاخیر کا شکار ہے۔ سندھ میں یہ انتخابات اگلے برس کے شروع میں ہونے ہیں او ریہ ہی صورتحال بلوچستان کی بھی ہے۔ خیبر پختونخواہ او رپنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے ماضی کے مقابلے میں نئے مقامی نظام متعارف کروائے ہیں۔

پنجاب میں حکمران طبقہ کے بقول بہت جلد صوبے میں دو سطحوں پر انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلہ جو غیر جماعتی ہوگا اس میں محلہ، ویلج یا نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں تحصیل، ٹاون کی سطح پرجو انتخابات ہوں گے ان کی حیثیت جماعتی بنیادوں پر ہوگی۔ کہا جارہا ہے کہ مقامی انتخابات پنجاب میں مئی یا جون میں متوقع ہیں۔ اگرچہ کو ئی بھی مقامی نظام تمام تر اچھائیوں کے ساتھ مکمل نہیں ہوتا اس میں ہر وقت بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔

پنجاب کے نظام میں بھی حالیہ ترامیم کی مدد سے اس میں نوجوان، کسان، مزدور اور اقلیتوں کی نمائندگی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ پنجاب کا موجودہ نظام سابقہ نظام سے کافی بہتر ہے، مگر اس کے باوجود کچھ ایسی خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت تھی۔ بالخصوص ضلعی نظام میں کونسل کا خاتمہ اورضلعی سربراہ کا عوامی نمائندہ نہ ہونا جیسے مسائل موجود ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان تواتر کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلی، کابینہ اور انتظامی افسران کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ پنجاب میں حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل ہوتے ہیں۔ وہ تواتر کے ساتھ مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت کا احساس دلاکر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نظام کی بہتری کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بہتر نظام کب عمل درآمد ہوگا۔ کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو اب 16 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا ہے۔ لیکن تاحال پنجاب کا سیاسی نظام مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہے۔ لوگوں کو بہت زیادہ توقعات تحریک انصاف او ران کے مقامی نظام سے ہیں۔ لیکن بظاہر ایسالگتا ہے کہ حکومتی ترجیحات میں کافی کمزوریوں کے پہلو موجود ہیں جو فوری انتخابات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

ایک طرف اس نظام کے تحت نئے انتخابات میں جہاں سیاسی مسائل ہیں وہیں بیوروکریسی کی سطح پر بھی اس نظام کو یقینی بنانے میں بہت سے مسائل بالادست نظر آتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ ناکامی تحریک انصاف کی حکومت کی ہے کہ وہ اب تک مقامی انتخابات کے انعقاد میں ناکام ہے۔ ابھی بھی کوئی ایسا حتمی شیڈول موجود نہیں جو لوگوں میں موجود اس ابہام کو دور کرسکے کہ انتخابات حتمی طور پر کب ہوں گے۔ یہ جو ہم سب کو صوبو ں یا ضلعوں کی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل نظر آتے ہیں جن میں سیوریج، صفائی، نکاسی آب، کھیلوں کے میدان یا پارکس، سٹریٹ لائٹ، ناجائز تجازوزات، گندگی کے ڈھیر، مہنگائی، ملاوٹ یا ذخیرہ اندوزی، پرائس کنٹرول کمیٹیوں جیسے لاتعداد مسائل شامل ہیں۔ یہ کام کسی طور پر قومی اور صوبائی ممبران کے بس کی بات نہیں اور اس کام میں مقامی حکومتیں او ران سے جڑے مقامی منتخب افراد ہی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ماضی میں بھی پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات حکومتوں کے مقابلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بنیاد پر ہوئے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے اور صوبائی حکومتیں بالخصوص پنجاب اس معاملے میں پہل کرکے اور تحریک انصاف کی حکومت پنجاب او رخیبر پختونخواہ میں فوری طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کا شیڈول جاری کرے۔ سیاسی جماعتیں اس پہلو کو نظرانداز نہ کریں کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات خود ان کے مقامی سیاسی کارکنوں کے لیے ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بنتا ہے اور سیاسی جماعتیں اس نظام کے تحت اپنا مقامی سیاسی نظام کو مستحکم کرسکتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں میں اس مایوسی کو ختم ہونا چاہیے کہ جب ان کی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو وہ مقامی نظام کو پس پشت ڈال کر غیر سیاسی نظام چلاتی ہیں جو جمہوری عمل کو بھی کمزور کرتا ہے۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نہ صرف صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں بلکہ براہ راست مقامی حکومت کی وزرات بھی ان ہی کے ماتحت ہے۔ اس وقت مقامی حکومتوں کے نظام او رانتخابات کے حوالے سے براہ راست ذمہ داری بھی وزیر اعلی کے کندھوں پر ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے بقول بہت جلد مقامی حکومتوں کے انتخابات کا شیڈول بھی جاری ہوگا۔ وزیر اعلی کو سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ واقعی پنجاب کے سیاسی نظام میں اپنی سیاسی گرفت یا حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنا کر عام لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیح مقامی نظام اور فوری انتخابات ہونے چاہیے۔

یہ جو صوبہ میں انتظامی مسائل نظر آتے ہیں اس کی بڑی وجہ منتخب نمائندوں کے مقابلے میں غیر منتخب لوگ ہیں جو نظام کی فعالیت میں خود رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی جماعت میں نوجوان طبقہ اور خواتین سب سے زیادہ فعال ہیں او ران کی اور دیگر جماعتوں کے ان طبقات کی شمولیت سے مقامی نظام زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ اس لیے اس مقامی نظام کے انتخابات کے حوالے سے جو بھی ابہام یا تاخیر ہے اس کو فوری طور پر دور ہونا چاہیے۔

18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف یا عوامی توقعات کے مطابق ڈھالنے کی بڑی ذمہ داری بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب مالی وسیاسی وسائل بھی صوبو ں کے پاس زیادہ ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اب زیادہ حکمرانی کے نظام میں جوابدہ ہیں۔ یہ صوبائی حکومتوں کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ترجیحات میں ضلعی یا مقامی نظام کو فوقیت دیں۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کو ماضی کے حکمران طبقات سے ضرور سبق سیکھنا ہوگا جو اس نظام کے مقابلے میں بیوروکریسی کو بنیاد بنا کر حکومتیں کرتے رہے ہیں۔ اس کا عملی نتیجہ کمزور جمہوریت او رکمزور مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ ساتھ بری حکمرانی کے طور پر سامنے آیا ہے۔

وزیر اعلی عثمان بزدار ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں ایسا کچھ کریں جو واقعی ہماری سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ اس میں بڑا کام مقامی حکومتوں کے نظام کے انتخابات کو یقینی بنانا، زیادہ با اختیار کرنا، وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنانا او ربالخصوص کمزور اضلاع کو ترجیحی بنیاد پر آگے لانا، عوامی نمائندوں کو با اختیار کرنے کے ساتھ نگرانی او رجوابدہی کے نظام میں لانا او رحکومت و عوام کے درمیان موجودہ لاتعلقی کو ختم کرکے ان کا حکومت او رمقامی نظام پر اعتماد بحال کرنا ہی اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).