جدیدیت، مبادیات ۔۔۔ تکثیر جدیدیت


اردو ادب میں لسانیات کا سبجیکٹ بڑا بوجھ لگتا تھا لیکن جب سر پر آگئی تو بھگتنا پڑا اس موضوعِ پہ شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ کا اسلوب مجھے زیادہ سزا دیتا رہا لیکن فائدہ بھی اسی سزا میں ملا۔ اسی تناظر میں جدیدیت کے مباحث بھی زیرِ مطالعہ رہے۔ جدیدیت، مابعد جدیدیت، پس مابعد جدیدیت، ساختیات و پس ساختیات پہلے تو ان اصطلاحات کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ رفتہ رفتہ تکرار کے ساتھ مطالعہ نے میرے ذہن کو کھولا میں چونکہ کئی دیگر کتابوں پہ بھی اپنی رائے شائع کروا رہی تھی جن کے مطالعہ سے ذہن کی گرہیں کھلتی رہیں۔

ڈاکٹر حماد رسول کی کتاب ہاتھ میں آنے تک جدیدیت کا سم سم کچھ کھل گیا تھالیکن اتنا بھی نہیں کتاب کا تبصرہ لکھنے کی غرض سے مطالعہ کیا تو کئی تضادات اور ابہام سامنے تھے۔

اس ابہام کو سجاد حارث نے اسی کتاب میں شامل اپنے ایک مضمون، جدیدیت، ریڈیکل جدیدیت میں، گراہم ہاؤ کے اس قول کی صورت میں بپیش کیا ہے

جدیدیت کے زیرِ اثر بیش تر ادبی تخلیقات خلا میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اس بحث کو دیکھتے ہوئے یہ سب مبہم اور مہمل سے زیادہ مسخ شدہ صورتیں دکھائی دیتی ہیں لیکن سابقہ تجربوں کی روشنی میں صبر اور انتظار کی پالیسی اپنا کر میں اس مرحلہ سے بھی گزر رہی ہوں سنا ہے علم کے راز ایک دم نہیں کھلتے آہستہ آہستہ ذہن اور شعور کی ترقی کے ساتھ کئی در سامنے آتے ہیں۔

ڈاکٹر حماد رسول اور شکیل سید کی مرتبہ کی یہ کتاب جدیدیت کی بہتر تفہیم کی غرض سے مرتب کی گئی ہے اسی لیے ہے مقصد کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہے جس سے ان مباحث کو سمجھنے میں بڑی مدد مل رہی ہے کتاب چار اھم عنوانات یا ابواب میں تقسیم ہے۔ مبادیات، تعصبات، پس جدیدیت، پیش جدیدیت۔

انتساب ڈاکٹر سجاد نعیم کے نام ہے۔ معروضات کے نام سے حماد رسول نے ان مباحت کی اہمیت اور افادیت پہ روشنی ڈالی ہے جدیدیت، کی مبادیات / تحریک کے عنوان سے، فہیم اعظمی/ خورشید نسیم۔ نیشو فوز، ڈاکٹر وحید اختر اور فہیم اعظمی نے گوئٹے کو جدیدیت کا نقیب قرار دے کر اس موضوع کی مبادیات کو واضح کیا ہے جدیدیت کے قحبہ خانے میں پکاسو اور چوائس ”ایک وقیع مضمون جو اس تفہیم کو مزید نمایاں کرنے کا باعث ہے۔

ریڈیکل جدیدیت پہ سجاد حارث، تعصبات و میلانات پہ محمد حسن عسکری، جمال پانی پتی، سلیم احمد، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر وزیر آغا، مجنوں گورکھپوری ”باقر مہدی، محمد عابد اور ڈاکٹریوسف سرمست نے بہت گہرائی میں جا کر جدیدیت کے میلانات کو نمایاں کیا ہے ان صفحات میں مشرق و مغرب میں جدیدیت کی روایت اور دونوں کے نقطہ اتصال کو تلاش کیا گیا ہے ان صفحات میں جدیدیت کے خارج و داخل اور سماج اور ادب پہ پڑنے والے اثرات کی سیر حاصل بحث ہے۔

باقر مہدی جدیدیت کو اپنے ایک شعر کی صورت میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں

شاعری، آوارگی، رندی، نقیب سرکشاں

شاعری تہذیب کے محلوں کی، معماری نہیں

مارکیٹنگ جدیدیت، محمد عابد کی ایک تحریر ہے جو جدیدیت کے ایک نئے رخ کو ڈھونڈنے کی جستجو ہے اس کتاب کے آخر پہ مرتبین نے پسِ جدیدیت / پیش جدیدیت کے مباحث کو شامل کیا ہے جس میں ترقی پسندی، جدیدیت مابعد جدیدیت پس و پیش جدیدیت، مارکسزم متبادل و متبادلات جدیدیت اور اور تکثیر جدیدیت پہ گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، محمد علی صدیقی، غلام رسول، ٹیری ایگلش، منور آکاش شکیل سید فضیل جعفری انور شاہین اور ہربنس مکھیا کے مقالہ جات کو شامل کیا ہے۔

کتاب مواد کی ترتیب اورانتخاب کے حوالے مرتبین کی محنت و ریاضت کی عکاس ہے اس موضوع پر نہایت معتبر ماہرین لسانیات اور جدیدیت پہ اتھارٹی سمجھے جانے والوں کی آرا کو یک جا کرے اس موضوع پہ کام کرنے والے محققین اور یونیورسٹیوں میں ادب و لسانیات کے طلبہ کو بہت ساری کتب کے بوجھ سے آزاد کر دیا گیا ہے، ڈاکٹر حماد رسول اور شکیل حسین سید کی اس علمی کو عکس والوں نے مناسب کاغذ پر شائع کیا ہے۔ طلبہ کے لیے کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے لیکن اس مہنگائی کے دور میں شاید اس سے کم میں ممکن بھی نہ ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).