یہ امید افزا فیصلہ ہے


ہماری تاریخ میں فوجی اشرافیہ ہمیشہ سے طاقتور اور اقتدار کے کھیل میں بالادست فریق کی حیثیت سے شامل رہی ہے۔ سیاست دان تو فوجی حمایت کے بغیر کسی کردار کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، عدلیہ تک نے خود کو ہمیشہ فوج کی حمایت پر مجبور ہی پایا۔

لیکن ہم دنیا سے الگ کسی جزیرے پر نہیں بستے کہ یہاں باقی دنیا کے اثرات نہیں پہنچیں گے۔ لہذا جیسے جیسے دنیا میں جمہوری روایات راسخ ہوئیں ان کے اثرات، سست روی سے ہی سہی، پاکستانی معاشرے پر بھی پڑے۔

آج اسی روایتی طور پر بالادست ادارے کے سربراہ کی ملازمت میں توسیع کا کیس فیصل ہوا۔ فیصلہ بہت سوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوا جو یہ سمجھ رہے تھے کہ بیک جنبش قلم عدالت اس توسیع کو منسوخ کر دے گی۔ مجھے قانونی پوزیشن نہیں پتہ کہ کیا ایسا کیا جانا ممکن تھا یا نہیں۔ لیکن اس کے برعکس فیصلہ ویسا بھی نہیں ہوا جیسا ایک بڑی اکثریت کا خیال تھا کہ انہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ اسی اکثریت کی طرح 3 روز پہلے تو حکومت کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

اب اس کا موازنہ اپنی تاریخ میں پیش آئے چند واقعات سے کریں۔ ایک وقت تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر کو برقعہ پہن کر عدالت جانا پڑا تاکہ ریاستی اداروں سے بچ کر ایک بار وہاں پہنچ جائے۔ ایسا نہ ہو کہ راستے میں اچک لیا جائے۔ وہاں پہنچ کر بھی تاہم مدعی کو نظریہ ضرورت کی کڑوی ٹافی ہی ملی۔ وزرائے اعظم جلسہ گاہوں اور عدالتوں میں قتل ہوئے۔ تازہ ترین کیس والا مگر خوش قسمت ہے کہ بھلے بہت سی عدالتی روایات سے ہٹ کر اور قانونی ڈکشنریوں کا سہارا لے کر ہی نا اہل کیا گیا لیکن مرا نہیں۔

پاکستان کے ابتدائی دور میں کون سا ادارہ زیادہ طاقتور اور مستحکم تھا، مؤرخ کے بی سعید نے اس کے لیے جو گز استعمال کیا وہ اس دور میں وزرائے اعظم اور فوجی سربراہوں (سربراہ) کی تبدیلی کے دورانیے کا موازنہ تھا۔ اسی حوالے سے ایک ہندوستانی رہنما نے پھبتی کسی تھی کہ اس رفتار سے میں دھوتیاں نہیں بدلتا جس تیزی سے پاکستان میں وزرائے اعظم بدلے جاتے ہیں۔

چلتے چلتے اس ضمن میں ہندوستان سے بھی موازنہ کر لیں۔ ابتدائی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے نام سے آر پار سب واقف ہوں گے لیکن وہاں کون کون سا سینا پتی کب آیا اس کا پتہ ہمیں کیا عام ہندوستانیوں کو بھی نہیں ہو گا۔ جبکہ اپنے ہاں کے فیلڈ مارشل میری زندگی کی پہلی چار دہائیوں میں بھی ٹرکوں کے عقبی پھٹوں پر درشن دیتے نظر آتے رہے۔ اب بھی گاہے گاہے جھلک دکھلا جاتے ہیں۔

تو اس موازنے میں یہاں جن سے سوال کرنا بعید از قیاس تھا، جن کا تقدس غیر مشروط تھا، جن کی اولیت کسی سوال سے بالاتر تھی، جن کی صفائی ان کا دردسر نہیں، ریاست اور قاضی اپنی ذمہ داری بنا لیتے تھے آج ان کے سربراہ کو کسی حد تک ہی کسی ضابطے، بھلے کمزور اور نمائشی ہی سہی، کا پابند کیا گیا۔ یہ خوش آئند پیش رفت ہے جو ملک، قوم اور فوج کے مفاد میں ہے۔ کئی دوست خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ ایک بار پھر ڈنڈا مطلوبہ قانون سازی میں معاون ثابت ہو گا۔ میں جزوی اتفاق پر مجبور ہونے کے باوجود مایوس نہیں۔

ہماری تاریخ بھلے ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہماری تاریخ ایک سست رو سفر کی شاہد بھی ہے جو آمرانہ بالادستی سے جمہوریت کی طرف جاری ہے۔ یہی پیش رفت امید کی کرن ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی کئی ایسے پہلو ہیں جو شاید ہم مسلسل ہیجان کی کیفیت کے سبب دیکھ نہیں پا رہے۔ موجودہ حکومت بھلے سلیکٹڈ ہو یا نا اہل جیسے اپوزیشن کہتی ہے، لیکن مذکورہ بالا زمانی پیش رفت کے ہی اثرات ہیں اور کچھ سیاسی شعور کی بیداری کہ اس پر تنقید بھی جاری ہے اور اس نے بہت سارے معاملات میں اسی تنقید اور دباؤ کے سبب پسپائی بھی اختیار کی ہے۔ یہ امید افزا عامل ہے۔

عملی اور ائیڈیل تبدیلی ہماری خواہشات کے نہیں زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ مجھے صاف پیش رفت نظر آتی ہے۔ مایوسی نہیں۔ ایک روز یہاں مقتدر وہی ہوں گے جو دستور کے منشا کے مطابق ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ نے بہتر فیصلہ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).