علامہ اقبالؒ اور میڈیا


میں 26 نومبر کو بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ہونے والی قومی اقبال کانفرنس میں بطور مندوب شرکت کے لیے آیا ہوں جہاں میری میزبانی برادر عثمان غنی رعد کر رہے ہیں۔ راقم اس کانفرنس میں اپنے کالج کی نمائندگی کے لیے آفشیل حاضر ہوا جس پر لیفٹیننٹ کرنل (ر) حسن خاور محمود اور ڈاکٹر نویدالحسن کا ممنون ہوں کہ مجھے اس کانفرنس میں بھیجا۔ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس ہے اور اس کی وجہ اس کانفرنس میں رکھے جانے والے موضوعات ہیں یعنی اس کانفرنس میں اقبال کے حوالے سے ہر طرح کے اردو اور انگریزی موضوعات پرگفتگو ہوئی ’ریسرچ پیپر پیش کیے گئے اور سٹوڈنٹس کی ایک کثیر تعداد ہر سیشن میں موجود رہی جوقابلِ داد بات ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی، وائس ریکٹر ایڈمرل کلیم شوکت اور پروفیسر فتح محمد ملک تھے جنہوں نے کمال انداز میں اقبال کے فلسفے پہ بات کی۔ اس کانفرنس میں زیادہ تر موضوعات کو نوجوان نسل کے ساتھ جوڑا گیا تھا جس سے انتظامیہ کا مقصد فلسفہ اقبالؒ کو نئی نسل تک منتقل کرنا تھا۔ مجھے اس کانفرنس میں گفتگو کے لیے جو موضوع تفویض کیا گیا وہ ”تشہیر فلسفۂِ کلامِ اقبال بہ ذریعہ پرنٹ میڈیا“ تھا۔ میں نے اس موضوع میں معمولی سی تبدیلی کی اور اسے مجلہ ”صوفی“ پنڈی بہاؤالدین (موجودہ منڈی بہاؤالدین) کے ساتھ جوڑا کیونکہ کلامِ اقبال کی تشہیر میں مجلہ ”صوفی“ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

مجلہ ”صوفی“ کا شمار برصغیر کے اہم اور دقیع رسائل میں ہوتا ہے۔ اپنے موضوع، مسلم سیاست میں دل چسپی اور بدلتے حالات کا ساتھ دینے والی مخصوص پالیسی اپنانے کے سبب برصغیر کے مسلم عوام میں ایسا مقبول ہوا کہ رفتہ رفتہ ایک وسیع حلقہ اسے میسر آیا اور اس کی اشاعت کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ اس عہد کے قدآور ادیب اور شاعر اس مجلے کے ساتھ وابستہ رہے اور اس مجلے کی توقیر میں اضافہ فرماتے رہے۔ مدیر مجلہ ”صوفی“ چونکہ خود شاعر تھے اور انہیں اقبال کی شاعری ونثر سے ایک خاص لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ ”صوفی“ میں جس شاعر کو سب سے زیادہ دیکھا گیا وہ اقبال ہے۔

جن دنوں مجلہ ”صوفی“ کا اجرا ہوا ان دنوں اقبال انگلستان سے واپس لوٹے تھے اور اپنی ساری توجہ وکالت پر مرکوز کیے ہوئے تھے مگر مدیر مجلہ ”صوفی“ کی فرمائش پر انہیں نہ صرف اپنا کلام بھیجا بلکہ ایک خط میں ”صوفی“ کے اجرا کا خیر مقدم بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مجلہ صوفی کو اقبال کے زمانے میں ہونے کی وجہ سے اور اقبال شناسی کی وجہ سے بنیادی مقام ملا۔ مجلہ ”صوفی“ کے دستیاب رسالوں میں کلامِ اقبال کے کل ایک سو آٹھ نمونے ملے۔

جن میں ستر اردو اور اکتیس فارسی کلام سے متعلق ہیں۔ ان کے متنی موازنے سے بہت سے حقائق بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ منظوم کی تعمیر و تشکیل میں اقبال کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اصلاحات، ترامیم، ضافے، اشعار کی ترتیب میں تبدیلی اور اغلاط وغیرہ سب کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ گویا صوفی میں شامل اقبال کی تخلیقات سے ان کے شعری عمل پر کسی قدر روشنی پڑتی ہے اس کا اندازہ صوفی کے مطالعے کے بعد بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مجلہ ”صوفی“ میں کلامِ اقبال کا اچھا اور معیاری انتخاب پیش کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجلہ ”صوفی“ میں شائع ہونے والے اردو کلام کے کثیر نمونوں کو اقبال نے اپنے پہلے اردو مجموعہ کلام ”بانگِ درا“ میں شائع کرنے کے قابل سمجھا اور اگر ہم صوفی میں شامل ہونے والے اردو کلام کے کل ستر ( 70 ) نمونوں پر نظر ڈالیں تو ان میں سے اٹھاون ”بانگ درا“، پانچ ”بالِ جبریل“ اور تین ”ضربِ کلیم“ میں شامل کی گئیں جبکہ نو عدد غیر متداول ’ایک عدد غیر متداول اور ایک عدد الحاقی کلام کے نمونے ہیں۔

فارسی کے کلام کے نمونوں کی کثیر تعداد کا تعلق اقبال کے بہت جلد عالمگیر شہرت حاصل کر جانے والے مجموعہ کلام ”پیامِ مشرق“ سے ہے۔ فارسی کے کل اکتیس نمونوں سے اٹھارہ کا تعلق ”پیامِ مشرق“ سے، دو کا تعلق ”جاوید نامہ“ سے اور ”اسرارِ خودی“، ”رموزِ بے خودی“، زبورِ عجم ”اور“ مسافر ”سے محض ایک ایک کا تعلق ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ اقبال کی تشریح اور تفہیم میں جس انداز میں مجلہ“ صوفی ”نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب بھی ہم اقبال کے زمانے میں موجود پرنٹ میڈیا (بالخصوص رسائل و جرائد) پر نظر دوڑاتے ہیں اور پھر اقبال کی طرف دیکھتے ہیں تو سب سے پہلا نام مجلہ“ صوفی ”کا دکھائی دیتا ہے۔

اگر ہم آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں موجود میڈیا پر نظر دوڑائیں تو اس میں اقبال ؒتو کیا اقبالؒ کا عکس تلاش کرنا بھی ایک مشکل امر ہے کیونکہ مادیت پرستی کی دوڑ نے نہ صرف ہمیں اسلام سے دور کیا بلکہ ہم سے مشرقی تہذیب اور مشرقی اقدار بھی چھین لیں۔ سو ایسے میں فلسفۂِ اقبالؒ اور اقبالؒ کی دریافت کا مسئلہ انتہائی الجھتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کی بے جا آزادی نے انسان کو زندگی سے بہت دور کر دیا۔

وہ زندگی جس میں ہمیں نہ صرف اپنی زبان و ثقافت نظر آتی تھی بلکہ ہمیں پاکستانی یا قومی ہیروز کو بھی تلاش کرنا مشکل نہ لگتا تھا۔ مگر حیف صد حیف کہ آج کے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کی بے جا آزادی اور بے ہنگم پالیسی نے نوجوان نسل اور اقبال کے تعلق کو بالکل ختم کر دیا۔ مغربی پیروی کی دوڑ میں ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کے پاس نہ تو اپنی تہذیب ہے اور نہ ہی اپنی زبان ’تو ایسی نسل سے کیا ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اقبالؒ کے شعری جہان کی تفہیم ممکن ہو گی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقبال ہمارے تعلیمی نصا ب کا حصہ ہوتا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ پہلے تعلیمی نصاب سے اقبال اور مشرقی اقدار کا خاتمہ کیا گیا ’پھر اقبال ڈے کی چھٹی ختم کی گئی اور اب لگ رہا ہے کہ اقبال کی ہی چھٹی کر دی جائے گی۔ وہ اقبال جس نے ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں نہ صرف تعلیمی و اسلامی ماحول ہوگا بلکہ جہاں کا ہر نوجوان ”شاہین“ کا کردار ادا کرے گا مگر یہاں معاملہ شاہین اور کرگس سے ہوتا ہوا کہیں بہت دور نکل گیا۔

سوکسی بھی ملک کی ترقی اور نئی نسل کی ذہنی آبیاری اور نشونما میں ہر طرح کے میڈیا کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ہمیں پرنٹ میڈیا ’الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں اقبال پر کتنا کام ہو رہا ہے یہ ایک مشکل سوال ہے اور ہمارے میڈیائی اداروں کو اس سوال کی سنجیدگی کے بارے میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).