کہیں کپتان اپنی سیاست کو گولہ تو نہیں مارنے لگا ہے؟


\"wisi-baba\"

ایک ایس ایم ایس چل رہا ہے کہ پندرہ گلابی اور دس لال رنگ کے بہت چمکیلے شرمیلے البیلے سوٹ کیس اسلام آباد سے رائے ونڈ منتقل کر دئے گئے ہیں۔ کسی کا میڈیا سیل بھی چک کے وزیر اعظم ہاؤس سے باہر پھینک دیا گیا ہے۔ کوئی ابا جی سے ناراض ہو کر میں نہیں بولدی کہہ رہا ہے۔

اب تو بس صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی ۔ کپتان آ رہا ہے اسلام آباد، برے وقت کی طرح۔

اس بار کپتان اکیلا نہیں آ رہا ساتھ کوئی اور بھی آ رہا ہے۔ حامد میر نے لکھا ہے کہ جو نواز شریف کی کشمیر پالیسی سے تنگ ہیں وہ بھی کپتان کے ساتھ ہی آ رہے ہیں۔ جب حامد میر صاحب نے پردہ رکھا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں یہ بتانے والے کہ مرید کے سے ملنگ بسوں پر بہہ کے آئیں گے۔ ہمارا بہادر کپتان بھاگ بھی گیا تو آنے والے بھاگتے کم از کم نہیں ہیں۔

پولیس کے پاس انشااللہ تعالی ڈنڈے ہی ہونگے۔ انہیں ڈنڈوں سے پولیس والوں پر لاٹھی چارج آنے والے ملنگ حضرات کریں گے۔ چوھدری نثار اس گھڑمس کے دوران اپنا وڈا آپریشن کروا کے بیڈ ریسٹ پر ہوں گے۔ یہ نازک وقت وہ کینڈی کرش کھیل کر گزاریں گے۔ آواز بند کر کے ٹی وی دیکھیں گے۔ جب جب نوازشریف کی فوٹو آئے گی گنگنائیں گے۔ او سانوں تڑفان والیا۔

اسلام آباد میں جاری صورتحال کا کشمیرکی صورتحال سے گہرا تعلق ہے۔ سیرل المیڈا کی غلط سٹوری میں رولے والی بات ہی ایک تھی، جو وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں لکھا ہوا ہے کہ شہباز شریف نے کہا کہ جب بھی ہم کشمیری عسکری تنظیموں کے خلاف ایکشن کرنے لگتے ہیں، ہمیں روک دیا جاتا ہے۔ اس مقام پر اسی نیوز سٹوری میں پھر جنرل رضوان اختر اور شہباز شریف کا ایک ڈائلاگ ہے۔

تو کہانی یہ ہے کہ اپنے خلاف نواز شریف حکومت کی باتوں گھاتوں سے تنگ آ کر اب کشمیری تنظیمیں بھی ان کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنا چاہتی ہیں۔ ان دونوں کی پہلوانوں یعنی نوازشریف اور کشمیری تنظیموں کی پہلی یادگار ہتھ جوڑی واجپائی کی لاہور آمد پر ہوئی تھی۔ پنجاب پولیس ملنگوں کے ساتھ کبڈی کرتے پھاوی ہو گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے اس احتجاج کی قیادت کی تھی۔

اس سب کچھ کا حاصل وصول قاضی صاحب کا مشہور جملہ تھا۔ ان سے صحافیوں نے جب پوچھا کہ ان سب کا اب والی وارث کون ہے جو جیلوں میں ڈال دیے ہیں حکومت نے، انہیں اب کون چھڑوائے گا ؟ قاضی صاحب صاف گو بزرگ تھے انہوں نے جواب دیا کہ انہیں وہی چھڑوائیں گے جن کے کہنے پر ہم روڈ پر آئے تھے۔

نوازشریف کو جب بھی پار کا یا یہاں موجود کشمیری لیڈر کہیں راہ جاتے مل جائے، وہ اسے یہ جگت مارنا نہیں بھولتے کہ ہو گیا کشمیر آزاد، بڑا احتجاج کیا تھا واجپائی کے آنے پر، کیا حاصل کیا میری مخالفت کر کے۔ اب مزے کرو وغیرہ۔ کشمیری لیڈر نوازشریف کی جانب چل کر جاتے دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان کی چال میں سے کرنٹ ہی غائب ہوتا خیر۔

اب نواز حکومت کی لگاتار محنت سے کشمیر کاز کے لئے کام کرنے والے کچھ بڑے نام ان سے تنگ ہیں۔ تفصیلات میں نہیں جاتے۔ سننے میں آ رہا کہ کپتان کے پردے میں وہ بھی اب کھنچے چلے آئیں گے۔

\"raheel-sharif-nawaz\"

وادی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک تحریک جاری ہے۔ وادی میں لوگ جب کسی مشکل میں ہوں وہ پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں۔ جزباتی فضا میں یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان ان سے لاتعلقی ظاہر کرے۔ پاکستان سے بھی زیادہ کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیموں کی ساکھ داؤ پر ہوتی ہے۔ انے کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہوتا کہ اگر وہ اس وقت کچھ نہیں کرتے جب کشمیری پریشان ہیں تو پھر ان کی عسکریت کس کام کی۔

اڑی میں بریگیڈ ہیڈکواٹر پر حملہ ہوا۔ اس کے بعد چھپن انچ چھاتی کے دعوے کرنے والے نریندر مودی کو سرجیکل سٹرائک کا امب پکا کر اپنی جنتا کو دینا پڑا کہ اس کی جان چھوڑ دیں۔ اس سرجیکل سٹرائک کے بعد پامپور میں مقبوضہ کشمیر کی سب سے اونچی بلڈنگ میں دو ملنگ حضرات گھس گئے۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کچھ شرم کی وجہ سے کچھ اس ڈر کی وجہ سے کہ بلڈنگ کے اندر پورے دو سرپھرے ہیں بلڈنگ کے اندر گھسنے سے گریز کرتی رہیں۔ انکا خدشہ کافی حد تک درست تھا کہ بلڈنگ کلیئر کرواتے کرواتے اگر آٹھ دس فوجی مر مرا جاتے تو سرجیکل سٹرائک کی بہادری سے ہوا نکل جانی تھی جو ویسے بھی نکل گئی۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کو ہرگز ہوا نہیں دی بہت اچھے بچوں کی طرح معزز اور سمجھدار دکھنے کی پوری کوشش کی۔

یہ سب کچھ کشمیر میں ہوا ہے۔ اسی سب کچھ سے کافی متعلق سیرل المیڈا کی نیوز سٹوری تھی۔ پاکستان کی سرکاری پالیسی نہائت سختی سے عدم مداخلت کی ہے۔ ہنسنا منع ہے یہی ہمارا سرکاری موقف ہے کہ ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف ہرگز استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پٹھان کوٹ کے بعد تو چیف صاحب نے بہت سخت تنبیہ کی تھی کہ جاری مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے مکمل گریز کیا جائے۔

سول ملٹری تعلقات اس وقت اچھے نہیں ہیں۔ کم از کم میڈیا یہی بتا اور دکھا رہا ہے۔

\"nawaz-sharif-modi\"

بلاول نے بھی کپتان نے بھی کافی حد تک میڈیا نے بھی ہمیں سمجھا دیا ہے کہ مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے۔ اب مودی کے یار نوازشریف ہی ہیں کہ اس گانے کے ساتھ تصویر انہی کی دکھائی جاتی ہے۔ ایسے میں ایک بدترین صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ مودی اپنے یار کہے جانے والے نوازشریف کو اڑی حملے میں ملوث لوگوں کی تفصیلات فوٹو فون نمبر وغیرہ فراہم کر دیں اور کہیں کہ ان کے خلاف پکے ثبوت ہم دے رہے ہیں تو کارروائی کرو ان کی تنظیموں کے خلاف، بمبئی کی طرح لٹکا نہ دینا۔ ابھی تک پاکستان بمبئی حملے کے پریشر سے نہیں نکل سکا ہے تو پھر یہ ثبوت بھاری پڑ جائیں گے۔

راحیل شریف ہرگز نہیں چاہیں گے کہ رخصت ہوتے وقت وہ اپنے ٹینیور کا یوں اختتام ہوتا دیکھیں کہ نوازشریف انہیں مودی کے فراہم کردہ ثبوت دکھا کر اظہار افسوس کر رہے ہوں کہ ابھی تک ہم اپنے ملنگوں کو قابو نہیں کر سکے۔ ساتھ یہ کہیں راحیل صاحب آپ نے محنت تو بہت کی لیکن کام ابھی باقی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں۔

خدانخواستہ ایسی کوئی صورتحال ہوتی ہے تو ساری دنیا میں ہم ایک بار پھر مشہور ہوں گے ۔ حسب معمول اس بار بھی غلط وجوہات کی بنا پر ۔ ایسے میں اگر کپتان واقعی اپنے دھرنے کے لئے ملنگوں کو پیچھے لگا کر لا رہا ہے تو اپنی سیاست کو گولہ ہی مارنے لگا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments