ہمارے چارہ گروں کو تماشا گری سے فرصت نہیں


ہائے یہ کیسی حسرت ہے میرے دل میں کہ کوئی معجزہ ہوجاتا۔ ہمارے پیارے جنرل صاحب اپنا استعفیٰ لکھ کر اِن سبھوں کے منہ پر مارتے اور کہتے ”لو سنبھالو اپنی یہ عنایت۔ مجھے نہیں چاہیے۔ نالائق لوگو تم لوگوں نے تو مجھے تماشا بنا دیا ہے۔ میری جگہ لینے والے کا حق کیوں مار رہے ہو۔ غلط روایات نہیں پڑنی چاہیں۔ مگر آرزوئیں تو خاک ہونے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔

ہاں البتہ ایک تو داد دینی پڑے گی کہ قوم کی حس مزاح اپنے عروج پر ہے۔ شاندار لطیفے اور تبصرے چشمے کے سربند پانیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہے ہیں کہ ہنسنے کے ساتھ ساتھ بندہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہوتا ہے اللہ یہ کیسا پاگل پن ہم سب پہ طاری ہوگیا ہے یہ سلسلہ کہاں جا کے رُکے گا۔ ہمارے پاس مسائل کا انبار پہلے کیا کم تھا کہ اب ایکسٹینشن کے نام پہ نیا کٹا کھول لیا ہے۔ ہائے کب بالغ ہوں گے؟ کب عقل آئے گی؟

72 سال کے بوڑھے ہو رہے ہیں۔ تف ہے ہم پر کہ آج تک ان غیر ضروری مسائل سے ہی باہرنہیں نکل سکے۔ جی چاہتا ہے کہ میڈیا والوں اور اپنے تیار ک دہ اینکر حضرات سے پوچھیں کہ کیا اِس ملک میں ایکسٹینشن کے علاوہ بھی کچھ اور ہے یا نہیں۔ لگتا ہے کہ ایک سرکس لگا ہوا ہے۔ ایک پرفارمنس ختم ہوتی ہے تو کوئی نئی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارا میڈیا بس اللہ دے اور بندہ لے۔ اب آپ ہی مجھے بتائیے میاں نواز شریف پاکستان میں ہو ں یا لندن میں ہماری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟

اگر جنرل باجوہ کی جگہ کوئی اور چیف آجائے تو پھر کون سا آسمان گر جائے گا۔ بہرحال یہ تو سب جانتے ہیں کہ فوج میں بہ حیثیت ایک ادارہ ٹرانسفر، پوسٹنگ اور پروموشن کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ وہ تمام جنرل صاحبان جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے ہیں وہ اِس قابل ہوتے ہیں کہ فوج کی کمان سنبھال سکیں۔ تو پھر جنرل باجوہ پراتنا خصوصی لُطف و کرم کیوں؟ اللہ رحم کرے ملک میں خدانخواستہ کوئی ہنگامی صورت بھی نہیں۔ لوگوں کو لام وام پر بھیجے جانے والا کوئی چکر وکر بھی نہیں تو بھئی عزت آبرو سے انہیں بھیجو گھر۔ توئے توئے ضروری کروانی ہے۔

ہم نے کبھی اپنے آپ سے سوال کیا ہے کہ 72 سالوں میں ہم نے کس کس چیز کا ستیاناس نہیں کیا۔ بندر کے اُسترے کی طرح ہمارے ہاتھ جو لگا ہم نے اُس کی درگت بنا ڈالی۔ اب حال یہ ہے کہ ساری سمتیں کھوئے بیٹھے ہیں۔ اِس میں بھی یقینا کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کی بہت بڑی ذمہ دار یہ حکومت ہے۔ لیکن کیا اِس سے پہلے ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہ رہی تھیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا Governance Structure گل سڑ کے بالکل ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔

چاہے بیوروکریسی ہو یا ہمارا عدالتی نظام، ہر چیز مکمل زوال کا شکا رہوچکی ہے۔ موجودہ حکومت اور پرانی حکومتوں میں فرق صرف تجربے کا ہے۔ پرانے لوگ چونکہ اسی سسٹم کی پیداوار تھے اور اِس کو بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے تو اِس کو لے کر چلتے رہے۔ جیسے ہی یہ نئے چہرے آئے ہر چیز زمین بوس ہوگئی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں اِس وقت شدید ضرورت ہے تحمل سے بیٹھنے کی اور سوچنے کی۔ یہ گلاسڑا بوسیدہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

یہ بات تو مجھ جیسی کوتاہ فہم بھی جانتی ہے کہ ہمارے پاس ایک چیز نہایت فراوانی سے موجود ہے۔ وہ ہے تجربہ۔ ایک لحاظ سے یہ ایک آئیڈیل صورتحال بھی ہے۔ بعینہٰ اسی طرح کہ جب سوویت یونین ٹوٹا اور آپادھاپی پڑی۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ شریف اور کمٹیڈ لوگوں کا پٹڑہ ہوگیا۔ بدمعاشوں اور زبردستوں نے جو جو سمیٹ سکتے تھے سمیٹ لیا۔ نہ کہیں شنوائی اور نہ کہیں دادرسی۔ مہنگائی کا جن بے قابو تھا۔ تب ایک فائدہ تو ہوا۔ لوگوں نے صورت حال کو سنجیدگی سے لیا۔

مقامی صنعتیں میدان میں اُتریں۔ مارکیٹ قابو کی۔ قانون کی بلادستی قائم کی تو میرے خیال میں ہر تخریب کے پہلو سے تعمیر نکلتی ہے۔ اب اگر اپنی صورت حال کا جائزہ لیں اور اِسے ایک بامقصد کوشش کا حصّہ بنا لیں۔ کیونکہ ہم ہر طرح کے سسٹم کو نافذ کرکے اس کے برے اثرات سے کماحقہ واقف ہوچکے ہیں۔ ہم مکمل مارشل لاء سے لے کر جوڈیشیل ایکٹوازم یا ہائبرڈ جمہوریت تک قریباً ہر نظام حکومت کے ثمرات نہ صرف چکھ چکے ہیں بلکہ اُن کی دی ہوئی چوٹیں بھی ابھی تک سینک رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لوگ انقلاب کی بہت بات کرتے تھے اللہ خوش رکھے اِس حکومت کو جس نے ایک محدود پیمانے پر انقلاب اور تبدیلی کا ٹریلر چلا کر قوم کا یہ شوق بھی کسی حد تک پورا کر دیا ہے۔ یہ بھی مقام شکر ہے کہ ابھی صرف 10 % انقلاب پر یہ حال ہے تو مکمل انقلاب پہ کیا حال ہوسکتا ہے؟

اور اگر پھر بھی انقلاب کا کیڑا نہ مرے تو دور کیا جانا اپنے غار یار چین کو ہی دیکھ لیجئیے۔ انقلاب سے عوام کے بخیے اُدھڑ گئے تھے۔ 30 سال تو چین کو صرف سیدھا ہونے میں ہی لگ گئے۔

اگر خالص جمہوریت کے ثمرات دیکھنے ہیں تو انڈیا کو دیکھ لیجیے، کیسا فاشسٹ ہے جو انڈیا کی جڑیں کھود رہا ہے۔ ہاں یاد آیا اپنے ہٹلر صاحب بھی تو جمہوری طریقہ حکومت سے ہی اقتدار میں آئے تھے۔ گو کہ ہم اِس کو آج تک ایک برائی ہی سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن مقتدر اداروں کے کنٹرول کی وجہ سے ہمارے سیاستدان اُس حد تک کھل کھیل نہیں سکے جس حد تک وہ باقی جگہوں پہ کھل کھیلے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اِس وجہ سے وہ پرفارم بھی نہ کر سکے۔

تاہم ہر حال میں Institutional Oversight ہی زبردست چیز ہے۔ ذرا سوچیے اب اگر ہم اِن تمام تجربات اور اپنی قومی نفسیات کو سامنے رکھ کر ایک نئے نظام کے بارے میں متفق ہوجائیں اور یہ طے کرلیں کہ اب یہ ملک اسی نظام کے تحت چلے گا تو یقین جانیے ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ایک دفعہ ہماری سمت درست ہوجائے اور ادارے ایک دوسرے پر بھروسے اور یقین کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے کاموں پہ توجہ دینا شروع کردیں تو ہم بہت جلد ترقی کی منزلوں کو طے کرسکتے ہیں۔ ورنہ ہمارا ترقی معکوس کا سفر تو چل ہی رہا ہے۔ دیکھیے یہ کب زمین بوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).