پٹڑی چمک رہی تھی


اٹلس سامنے ہے جس کے سات بّرِاعظموں کے ممالک جال در جال پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ بّرِ اعظم منجمد شمالی ہے یہ بّرِ اعظم جنوبی ہے۔ یہ بّرِ اعظم یورپ ہے۔ یہ سات سمندر ہیں یہ بحر الکاہل ہے یہ بحر اوقیانوس ہے یہ دیوی گائیا اور دیوتا یورنیس کی اولاد ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا سمندر ہے یونانی اسطور میں یہ اطلس کا بیٹا ہے۔ یہ بّرِ اعظم ایشیا ہے دنیا کا سب سے بڑا بّرِاعظم۔ یہ بحر ہند ہے اور اس کے کنارے پر جالوں اور لکیروں کو چیرتا ہوا میرا پاکستان ہے۔ اٹلس پر جگمگ کرتا میرا پاکستان۔ میرے دل میں بستا پاکستان۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور مری روح کی جائے مسکن۔

مگر صورتِ احوال کچھ اور طرح کی ہے۔ یہ الف کا پاکستان ہے اس کی عزت کرو یہ ب کا پاکستان ہے اِس کی زیادہ عزت کرو۔ یہ اُس کا پاکستان وہاں جانا منع ہے۔ یہ اِس کا پاکستان ہے یہ شارع عام نہیں۔ آپ غلط سائڈ پر آ گئے ہیں۔ یہاں دو لینز ہیں اِس لین پر آپ کا نہیں اُس کا حق ہے۔ یہ دو طرفہ ٹریفک ہے آپ آ تو صحیح سمت سے رہے ہیں مگر آگے سڑک بند ہے۔ یہ ڈیڈ اینڈ ہے۔ یہاں سے مُڑنا منع ہے آپ اوپر سے چکر کاٹ کر آئیں یہاں سے جانا منع ہے اور وہاں سے آنا منع ہے۔ یہ اُس کا ہے یہ اِس کا پاکستان ہے۔ یہ سونے کا پاکستان ہے اور یہ ہمارا مٹّی کا پاکستان ہے۔ مٹّی جس کی قَسم ساری قَسموں سے الگ ہے۔

جتنے لوگ اُتنے پاکستان۔ مگر میرا ایک ہی پاکستان ہے البتہ بہت سوں کے بہت سارے پاکستان ہیں۔ ان کا قومی اسمبلی میں الگ پاکستان ہے سینیٹ میں اور ہے۔ عدالت میں ان کا کوئی اور پاکستان ہے اور میڈیا پہ ان کا کوئی اور پاکستان بلکہ اپنے اپنے پاکستان ہیں۔ ایک پاکستان اور اتنے سارے لوگ اور اس کے دعویدار۔

کسی ستم ظریف نے ان سالوں میں ایک پیج کی اصطلاح خوب وضع کی ہے کہ اس اصطلاح کو جس پر لاگو کریں وہ عریاں ہو جاتا ہے گویا یہ اصطلاح ایک صد رنگ آئینہ ہے جس میں طرح طرح کی تصویریں نکلتی ہیں جو عرضِ حال سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ہم ایک سی نہیں ہیں مگر کوہِ ندا سے آواز آتی ہے کہ نہیں یہ سب ایک پیج پر ہیں۔ غور سے دیکھیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے یہ ایک نہیں الگ الگ دو پیج ہیں اور ایک پیج پر ہوں بھی کیسے کہ اصل شناخت گم ہونے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ فقط یہ ملک اور میں ایک پیج پر ہیں۔

پہلے یہ صرف مسلم لیگیوں کا پاکستان تھا پھر ریپبلکن والوں کا بنا اور باسٹھ والے اس کے مالک بن گئے۔ درمیان میں ایک پر آشوب عہد آیا جب بیچارہ پاکستان کسی کا بھی نہ رہا۔ پاکستان منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ ہو گیا۔ پاکستان نو مین ہوا یا نو مین لینڈ ہوا تاریخ نے فیصلہ نہ کیا تو جغرافیے نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ کچھ عرصے کے لیے یہ سب کا پاکستان بن گیا۔ جب یہ سب کا پاکستان کا بنا ایک آئین بھی بن گیا اور ہم ایک بھی ہو گئے۔ پانچ سال کا عرصہ خواب کی صورت گزر گیا اور اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ہماری تاریخ میں واقعی وہ پانچ سال کا عرصہ آیا بھی تھا کیا۔ ایک خواب تھا یا خواب گوں کیفیت۔ کوئی دھندلی سی شبیہہ تھی کہ اجلا چہرہ۔ صبحِ کاذب کی دھندلاہٹ تھی یا کوئی کہر زدہ شام۔ کوئی طلسم ضرور تھا۔

پاکستان اور میں قتیل شفائی کے لفظوں میں اکثر باتیں کرتے ہیں۔

میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں

تم ہوتیں تو کیسا ہوتا

تم یہ کہتیں

تم وہ کہتیں

تم اس بات پر حیران ہوتیں

تم اس بات پر کتنا ہنستیں

تم ہوتیں تو ایسا ہوتا

تم ہوتیں تو ویسا ہوتا

میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں

یہ کہاں آگئے ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے

تیری بانہوں میں ہیں جانم میرے جسم و جاں پگھلتے

یہ کہاں آگئے ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے۔

کیونکہ وہ میری تنہائی اور میں اس کی تنہائی سمجھتا ہوں کہ ہم دونوں ایک پیج پر نہیں ایک پیج ہیں۔ پھر ہم پاگلوں کی طرح ہنستے ہیں اور ہنستے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ آنکھیں آنسوٶں سے بھر جاتی ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ہم خاموش ہو جاتے ہیں پھر اچانک ہم دونوں میں سے کوئی بات شروع کرتا ہے اور بات بالآخر لڑائی بلکہ ہاتھا پائی پر ختم ہوتی ہے اور دوبارہ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگتے ہیں۔ یہ ہمارا روز کا معمول ہے نہ وہ رونا بھولتا ہے نہ میں لڑائی کرنا۔

پھر وہ مجھ سے غصے میں کہتا ہے میں تمہیں عدالت میں گھسیٹوں گا اور بتاٶں گا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں جاٶ اور گواہی کی بھی ضرورت ہوئی تو میں ہی دوں گا اور تیرے حق میں دوں گا۔ تاریخ کی عدالت میں ہم دونوں پیش ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر جرح کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنے لیے اتنے پاکستان بنائے ہوئے ہیں اب ان کے ہنسنے کی باری ہے اور ہمیں باہم جرح کرتے ہوئے دیکھ کر وہ اتنا ہنستے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک اٹھتے ہیں کہ ایک اور پاکستان میں کچھ اور ہو رہا ہے۔

نواز شریف کی پلیٹلٹس کم ہوئی تھیں، نہیں کم نہیں ہوئی تھیں۔ اس کو سٹیرائیڈز کی فل ڈوز دو، نہ دو، نواز شریف کے پلیٹلیٹس ایک فرضی نام محمد محفوظ کے نام سے ٹیسٹ کروائے گئے تھے، نہیں کروائے گئے تھے۔ اس فرضی نام پر نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد پینتالیس ہزار تھی، نہیں پینتالیس ہزار نہیں تھی۔ مشرف پہ آرٹیکل چھ لگنا ہے، نہیں لگنا ہے، تحریکِ انصاف سے غیر قانونی فنڈنگ کی ہے اس کو روکو، نہ روکو۔ زرداری نے پیسہ کھایا ہے اس سے نکلواٶ، نہیں نہ نکلواٶ۔

اس کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو رہی ہے، نہیں ہورہی ہے۔ وہ آدمی 2023 تک چیف رہے گا، نہیں وہ نہیں رہے گا۔ نہ رہے یا رہے مجھے تو خود سے سروکار یے۔ کیا یہ سارے ایک پیج پر ہیں ہاں مجھے لگتا ہے یہ سارے ایک پیج پر ہیں اور اس شور شرابے میں صم بکم پاکستان اور گلیوں میں اپنے بنیادی حقوق کو ترستا ہوا عام پاکستانی البتہ ایک پیج پر ایک ہیں۔ اور وہ دونوں بیچارے آپس میں ہی باہم دست و گریبان ہیں اور اسی تُوتکار میں ایک صدی ہونے والی ہے۔

ہیں ہم دونوں ایک پیج پر مگر وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں تمہارے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں جاٶں گا۔ میں جواباً کہتا ہوں میں تمہارے خلاف منڈی بہاٶالدین کی عدالت میں کیس کروں گا۔ بڈھا پاکستان ہنستا ہے اور طعنہ زن ہوتا ہے تمہیں لوئر کورٹس کی کارکردگی کا کچھ علم بھی ہے اور میں اسے عالمی عدالتِ انصاف کے انصاف کی مثالیں دیتا ہوں۔ اور بتاتا ہوں کہ عالمی عدالتِ انصاف تمہاری شنوائی نہیں ہونے والی۔ وہ عدالت کچھ اور ضروری معاملات میں مصروف ہے اور اس کی وہ مصروفیت تمہارے لیے انصاف سے زیادہ اہم ہے۔

میں بڈھے پاکستان کو بتاتا ہوں کہ وہ آسٹریا کی ایک عورت کا کیس سن رہی ہے اور اس عورت کا کہنا ہے کہ فیس بک پر اس کے خلاف کمنٹ ڈیلیٹ نہیں ہو رہا۔ سارا یورپ کہہ رہا ہے کہ وہ کمنٹ ڈیلیٹ کروانے میں اس عورت کے ساتھ ہے۔ دیکھو وہ عدالتیں کتنی مصروف ہیں۔ وہ جیسے میری بات مان جاتا ہے اور مجھے جوش کا کہا سناتا ہے۔ ع:

مڑ کر جو میں نے دیکھا امید مر چکی تھی

پٹڑی چمک رہی تھی گاڑی گزر چکی تھی!

پاکستان کہتا ہے وہ کیسی کیسی عدالت میں انصاف کے لیے جوتیاں چٹخا رہا ہے اور کہہ بھی نہیں سکتا ہوں کہ میرا حق ایتھے رکھ مگر بے تکلف سا ہوتا ہوا پاکستان مجھ سے کہتا ہے میرا حق ایتھے رکھ اور ہم سا پاکستانی اور تو کسی سے کہہ نہیں سکتا پاکستان سے کہتا ہے میرا حق ایتھے رکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).