بیانات کا سلاد، اعلانات کی سوکھی روٹیاں


دارالامان کاشانہ لاہور میں یتیم لڑکیوں کے ساتھ کیے جانے والے مبینہ سلوک کا بھیانک سکینڈل سامنے آیا ہے۔

ہر گزرتا دن میری دھرتی کے اجالوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ ریاست کا کردار ہر دوسرے معاملے میں دوغلے پن کا شکار ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر محروم طبقات ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کے ووٹ تو اہم ہیں مگر ان کے حصے میں صرف بیانات کا سلاد، اعلانات کی سوکھی روٹیاں ہی آتی ہیں اور ہریالی کا پیٹرول کسی اور کی گاڑی کو رواں دواں رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ محرومیاں زیادہ تر جرائم کو جنم دیتی ہے یا پھر انقلاب کا ایندھن بنتی ہیں۔ جو کچھ بھی ہے محروم طبقات کو زیادہ دیر تک نظر انداز کرنا خطرے سے خالی نہیں جبکہ یہاں تو ستر سال سے زیادہ ہو گئے ہیں انہیں فراموش کیے ہوئے اور غربت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے۔

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

جدید ریاستوں میں دھرتی کے لاوارث بچے ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں جن کے لیے یتیم خانے تعمیر کیے جاتے ہیں اور مفید شہری بنانے کے لیے مناسب تعلیم و تعلّم کے مواقع فراہم کرنا بھی ریاستی ذمہ داری میں آتا ہے جبکہ کہیں کہیں یہ فریضہ عبادت گاہوں سے ملحقہ ادارے انجام دیتے ہیں اور یوں راہب، ربی، پنڈت، نن اور مولوی بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اگر یہ ادارے غلط ہاتھوں میں چلے جائیں تو وہاں رہائش پذیر مجبور و مقہور بچے اور بچیوں کا حال تو حال مستقبل بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے۔

میرے مشاہدے میں ایسے کئی ادارے آ چکے ہیں جو یتیم بچے بچیوں کے نام پر زکوٰۃ و صدقات سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ مدراس کے زیرِ کفالت یتامیٰ اور مساکین بھی عطیات جمع کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ یہ کام ریاست اور اشرافیہ کا ہے وہ ان معصوموں کے ہاتھ اٹھانے سے پہلے ہی ان کی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کا انتظام کریں مگر شاید ہمارا یہ کلچر بھی دم توڑ چکا ہے اور ہمیں نیکی کرنے کی خواہش بھی صرف رمضان المبارک میں ہی یاد آتی ہے باقی سال کے گیارہ مہینوں میں شاید ان آنگنوں میں نہ بھوک اترتی ہے اور نہ ہی تن ڈھانپنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔

ویسے رمضان المبارک میں ہمارا لالچ ہی ہم سے اچھے کام کرواتا ہے کہ ایک کے بدلے ہزار ملیں گے ورنہ ہم اتنے اچھے نہیں ہیں۔ یوں مذہب کی دی ہوئی سہولت لالچ بن کر نیکی کے اجر و ثواب کو تیس دنوں تک محدود کر چکی ہے۔ ہمارے میڈیا اور علمائے کرام کو چاہیے کہ نیکیوں کی تشہیر سال کے بارہ مہینے جاری رکھیں تاکہ محرومیوں کا زیادہ سے زیادہ ازالہ ممکن ہو سکے۔

دوسری جانب وطن عزیز میں دارالامان سرکاری ہو یا غیر سرکاری۔ میرا خیال ہے کہ ہر دور میں ہی اس کی خفیہ سرگرمیاں سامنے آتی رہی ہیں۔ افسانوں کے ذریعے بھی اسے ہائی لائٹ کیا گیا۔ ان اداروں میں جاری ظلم و تعدی کے قصے بھی کئی بڑی بڑی فلموں کا موضوع بنے مگر دوسروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ہم جلدی بھول جاتے ہیں جبکہ خود کو چبنے والا کانٹا بھی برسوں یاد رہتا ہے۔ تاہم سچ یہی ہے کہ دارالامان میں ہونے والی برائیوں پر میڈیائی بیٹھکوں میں یا اقتدار کے ایوانوں میں کھل کر بات نہیں ہوتی۔ وجہ وہی ہے کہ یتیم بچیاں یا پھر اپنوں کی ستائی ہوئی حوا کی یہ بیٹیاں ہوس کے بستر پر سجا دی جاتی ہے جو کسی نہ کسی وزیر مشیر یا امراء کے محلوں میں بچھائے جاتے ہیں۔

سچ تو یہی ہے کہ دارالامان کے یتیم بچوں اور بچیوں کو سرے سے کسی نے قبول کرنے کی ذمہ داری ہی نہیں اٹھائی۔ ریاست اور سماج نے ایک چھت اور دو وقت کی روٹی دے کر ان کو جیسے گروی رکھ لیا کہ اب یہ ان کا مال ہیں جہاں سے مرضی کھاؤ، جو مرضی کرو سب جائز ہے ان کے پیچھے آنے والا کون ہے؟ کون ان کے لیے سوال اٹھائے گا؟ کوئی نہیں۔ کیونکہ اب صحافتی ادارے میڈیا ہاؤسز بن چکے ہیں ایک کاروبار اور تجارت میں اخلاق کی اہمیت چہ معنی صاحب۔

ایک اور کڑوی سچائی تو یہ بھی ہے کہ پاکستان بطور ریاست اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور ریاست ماں جیسی ہے کی طرح کے مقولے ہمیں کتابوں میں ہی پرہنے کو ملتے ہیں یا پھر اس کا مظاہرہ ریاست نے با اثر طبقات کے مفادات کے لیے کیا۔ عام آدمی کے قاتلوں کو بھی شک کا فایدہ دے کر بری کر دیا جاتا ہے۔ اس کے پاس آنے والی ایک ایک پائی کا حساب لیا جاتا ہے مگر اس سے اوپر کچھ نہیں۔

میری بدقسمتی کہہ لیں کہ میرا واسطہ عدالت اور پولیس دونوں سے ہی پڑا ہے اور دونوں جگہ ہی میں نے روپیہ کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔ عدالتی اہل کار ایک کاغذ کے بدلے بھی چائے پانی مانگنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ تاہم یقین کریں کہ کرپشن کے یہ جلوے تھانے میں کم نظر آئے میں نے پولیس سے زیادہ کرپشن عدالتی کارروائی میں دیکھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ آخر ہم ہر گزرتے دن بے حسی کا مظاہرہ کیوں کر کرتے ہیں کہ ہمارا اس سے واسطہ پڑتا ہے اور ہماری سماجی تربیت کا یہ حصہ ہے کہ جو گند تمہیں ملا وہی آگے منتقل کرتے جاؤ یوں ہماری انفرادی بے حسی سماجی بے حسی کا روپ دھار چکی ہے اور ہر طبقے کا مگرمچھ چھوٹی مچھلیاں کھانے میں مصروف ہے۔

سرکاری ہسپتالوں کا چھوٹا عملہ بھی اسی لعنت کا شکار ہے۔ وارڈ کی صفائی ہو۔ ڈسٹ بن اٹھانا ہو یا وینٹیلیٹر پر پڑے مریض کی نبض کی رفتار پتہ کروانی ہو۔ ہر جگہ اصول و ضوابط سے زیادہ کاغذ کا ایک ٹکڑا آپ کا ممد و معاون ہے۔ معذرت خواہ ہوں بات مجھے سیاست دانوں کے دعوؤں اور بے حسی پر کرنی تھی۔ جیسا کے عنوان ہے۔ بات مجھے دارالامان میں ہونے والے جنسی کاروبار پر کرنا تھی۔ جو ایک طویل مدت سے جاری ہے اور سچ کہوں تو آگے بھی جاری رہے گا کیونکہ مفاد کا بستر کسی کی محرومی اور مجبوری کے خون سے سجایا جاتا ہے۔

میں اپنی تحریر کے ذریعے ارباب اختیار اور اہل احساس و ادراک طبقات سے گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ایسے اداروں کی کفالت کے ساتھ ساتھ مؤثر اور جامع نگرانی کا بھی مناسب بندوبست کریں۔ آزاد میڈیا اور صحافیوں کو بھی یہاں کا ریگولر بنیادوں پر وزٹ کرنا چاہیے۔ قلم سے وابستہ افراد بھی ان بچے بچیوں اور لڑکیوں سے ملاقات کو اپنی روٹین کا حصہ بنائیں تاکہ ان میں احساس تحفظ پیدا ہو سکے اور اگر وہ کسی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں تو وہ بتا سکیں۔ کیونکہ

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).