فکری توازن


دانائی کی تلاش میں سب سے پہلا کام اپنے فکری مقام کا تعین کرنا ہے۔ اس کے بغیر ہم سچائی کا سفر مکمل نہیں کر سکتے۔ اس معاملے میں، میں نے بہت سے ذہین لوگوں کو مغالطے کا شکار دیکھا ہے۔ چند کتابیں پڑھ کر وہ خود کو ہی دانا سمجھنے لگتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ وہ خود کو دانا سمجھ کر ایک خاص رائے پہ اٹک جاتے ہیں۔ بلکہ تعجب یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کی یا ایک ہی نکتہ ِءِنظر رکھنے والوں کی کتابیں پڑھ کر وہ اُسے دانائی سمجھ بیٹھتے ہیں۔

دوسری طرف کے نکتہ ءِ نظر کو یا تو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں یا پھر تحقیقی رویے سے نہیں پڑھتے۔ تیسری صورتِ حال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس مکتبِ فکر میں موجود چند باغی نظریات رکھنے والوں کی مثال دینے لگتے ہیں جو کہ میرے خیال میں اس علم کی سچائی میں رکاوٹ پیدا کرنے والی چیزیں ہیں۔ غیرجانبدار تحقیق کے بغیر دانائی کا پنپنا ناممکن عمل ہے۔

فکری اعتبار سے انسان دو طرح کی فکررکھتے ہیں۔ ایک تقلیدی فکر اور دوسری غیر تقلیدی فکر۔ تقلیدی فکر استخراجی دلائل یہ چلتی ہے اور غیر تقلیدی فکر استقرائی دلائل پہ چلتی ہے۔ دونوں طرح کی فکری ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہم فکری معیار کو غیر جانبدار بنائیں۔ اس عمل کے لئے پہلے چند اصول جاننا بہت ضروری ہیں۔ آئیے ان اصولوں کی روشنی میں اپنا فکری مقام طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تقلیدی فکر کو غیر جانبدار اور معیاری بنانے کے لئے ہم یہ ضرور طے کریں گے کہ کیا آپ نے کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے اس سوال سے متعلق مکمل تحقیقی مواد کا مطالعہ کیا؟ کیا ہم نے تمام آراء کو نظریاتی اختلافات کے مطابق ترتیب دیا؟ کیا ہم نے تمام نتائج کا بغور تجزیہ کیا؟ آخر پہ ہم اپنے علم کے مطابق ایک خاص رائے قائم کریں گے مگر اختلافی رائے رد کیے بنا۔ اس حوالے سے ہم کچھ یوں کلام کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ بہت سے لوگ فلاں رائے رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس سے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ میری ذاتی رائے کچھ یوں ہے کہ۔ ۔

تاہم غیر تقلیدی فکر کا معیار اس سے قطعی مختلف ہو گا۔ چونکہ اس کا تعلق خالصتا ذاتی تجربات و مشاہدات سے ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں کسی دوسرے کی رائے کا انتظار نہیں رہتا۔ ہم اپنی سچائی خود تلاش کرتے ہیں۔ اس مقصد کو پائیدار بنانے کے لئے ہم کسی لیب میں خاص تجربہ یا مشاہدہ، تمام سائنسی اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ جس کے لئے تمام آلات و وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بار بار لیبارٹری ٹیسٹ سے اگر نتائج ہر بار سو فیصد برآمد ہوں تو اس نتیجہ پہ اپنی حتمی رائے قائم کر لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہم کچھ یوں کلام کر سکتے ہیں کہ میں نے کافی تحقیق سے، اپنے تمام تجربات و مشاہدات سے فلاں بات کا بغور جائزہ لیا اور میری تحقیق سے فلاں بات ثابت ہوئی۔

تیسر ی طرح کی سوچ عقیدت مندوں کی ہو سکتی ہے جو ہر بات کی مقصدیت کی بجائے، اس بات کو کہنے والی شخصیت کے دلدادہ ہوتے ہیں، جو بات کی گہرائی سمجھے بغیر ہی دھمال ڈلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بہرکیف یہ رویہ فکر کی کسوٹی پہ پورا نہیں اترتا۔

اب ان تمام اصولوں پہ عمل کرنے کے بعد ہی آپ فکری ارتقاء کے عمل کو پورا کر سکتے ہیں۔ ورنہ آپکو بھی عام ذہن کی طرح ایک believer ہی کہا جائے گا۔ اور میرے نزدیک believer ہونا کوئی بُری بات نہیں بلکہ متعصب ہونا بُری بات ہے۔ ہر چیز کے لئے تجرباتی فکر قائم کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ حماقت بھی ہے۔ زندگی کے چند معاملات میں تقلیدی فکر اور چند میں غیر تقلیدی فکر ہی آج کے دور کی بڑی مجبوری ہے کیونکہ علم کی دنیا اب بہت وسیع ہو چکی ہے۔ بس غیر جانبداری سے رائے قائم رکھنا سیکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).