الفا، براو، چارلی کی ”شہناز“ اور ہم


الفا، براؤ چارلی صر ف ایک ڈرا مہ نہیں تھا۔ جس نے اس دور کے نو جوانوں کی نیندیں اڑا دیں تھیں۔ یہ ایک ٹرینڈ تھا۔ یہ ایک نفسیات تھی۔ یہ ایک فطرت کی نقش گری تھی۔ یہ آرٹ تھا کہ بات کیسے کی جاتی ہے۔ یہ تہذیب تھی۔ یہ اس نسل کو رنگ دینے والی دھنک تھی۔ یہ کہانی ایک خاص بیک گراؤنڈ کے گرد گھومتی ہے۔ مگر کر دار تو سماج کے، اور وقت کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔

اس ڈرامے میں ایک خاص معصومیت تھی۔ اور معصومیت کے بنا حسن کی تعریف نا مکمل ہے۔ تین ہیرو تھے۔ ایک ہیروئن تھی۔ مگر معصوم شرارتیں تھیں۔ رشتوں میں دوستانہ پن تھا۔ احترام تھا۔

اس ڈرامے کی شہناز نے ہمیں دیاکیا؟

آئیں دیکھنے کی کو شش کر تے ہیں۔ اس ڈرا مے نے ہمیں ایک نسل دی۔ وہ نسل جو عورت کی عزت کر نا جانتی تھی۔ عورت اس کی انا کا مسئلہ نہیں بنی۔ شہناز، فراز کو شادی سے انکار کر دیتی ہے۔ مگر فراز اس کی بے عزتی نہیں کر تا۔ کاشف شہنا ز کا دوست ہے۔ اور گل شیر اس کا شوہر ہے۔ پہلی بار اس ڈرامے میں ایک عورت کو پوری عزت اور وقار کے ساتھ ایک مکمل انسان کے روپ میں دکھایاگیا۔ اور اس نسل کو یہ پتا چلا کہ عورت کا دوست بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا محبوب بھی ہو سکتا ہے چاہے یک طرفہ ہو۔ اور اگر عورت کسی مرد کوانکار کر دے تو وہ اس کو گا لی نہیں بکے گا۔ بلکہاس کا حق سمجھتا ہے۔ مرد کو یہ دلیری دی کہ اس کو ہیرو ہو تے ہو ئے بھی مسترد کیا جاسکتا ہے۔

اس عورت میں ایک ماں ہے۔ جو شادی سے پہلے سکول کے بچوں میں مست ہے۔ شادی کے بعد اپنی شادی شدہ زندگی کو اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ بھر پور گزارتی ہے۔ اور ممتا اس کو نارمل رکھتی ہے۔

اس ڈرامے نے گویا مرد و عورت دوونوں کی سماجی نفسیات پہ چوٹ کی مگر اتنے سلیقے سے کی کہ آج اس کی پروردہ نسل میں ہم یہ خو بی دیکھ سکتے ہیں۔ آج اس دور کی نسل کا اگر مشاہدہ کیجئے تو لڑ کیو ں کے گھر بسے ہو ئے ہیں۔ وہ پروفیشنل ہیں۔ اور ان کے دوست بھی ہیں۔ اور ان کے شوہر بھی اس کو دل پہ پتھر رکھ کر ہی سہی قبول کر چکے ہیں۔ لیکن یہ پتھر بھی اگلی نسل کے دل و دماغ سے اتر جائے گا۔ کیو نکہ بیماری سے صحت مندی کا سفر وقت طلب ہو تا ہے۔

شہناز ایک ایسا مضبوط کردار تھی۔ جس نے اس نسل میں مادی پرستی کو رد کر دیا۔ وہ ایک خوابوں کا گھروندہ بساتی تو فراز موجود تھا۔ مگر اس نے ایک غریب شخص کو ہیرو بنا یا اور بہت عزت کے ساتھ بنایا۔ وہ بنا کہئے گل شیر کی بات سمجھ سکتی تھی۔ جب وہ اچانک برقع لے کر گل شیر کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ کیمسٹری صرف محبت میں ہو سکتی ہے۔ یہ میاں بیوی کی سادہ سی محبت کی کیمسڑی تھی۔

کاشف کے ساتھ اس کی دو ستی تھی۔ جس میں دو بار شادی حائل ہو ئی۔ مگر ان کی دوستی کو کو ئی فرق نہیں پڑا۔ فراز کی انا تسخیر ہو ئی مگر ان کی دوستی کا وقار بڑ ہ گیا۔ گل شیر سے اس نے پہلے شادی کی۔ پھر محبت ہو ئی۔ اس ڈر امے نے ہمیں ایک ایسی لڑ کی دی جو نارمل نہ دکھا ئی دیتے ہو ئے بھی نفسیاتی اعتبار سے نارمل تھی۔ جواپنے فیصلے خود کر تی ہے مگر نہ تو سماجی رویو ں کو گا لی دیتی ہے۔ نہ ہی مر د سے نفرت کر تی ہے۔

کیو نکہ اس کے گرد مرد دوستانہ رویے کے مالک ہیں۔ آخر میں فراز بھی اس کی بات سمجھ جاتا ہے اگرچہ فراز کی اور اس کی دوستی میں بھی دو بار شادی کی کشمکش ہو ئی۔ لیکن کشمکش ڈرامے کا حصہ ہے۔ فراز نے دوسری بار ان کا ر کو جس مردانہ وار قبول کیا۔ اسے مرد کا وقار بڑھا۔ ایک جابر، حاکم، ایگری یگ مین قسم کے ہیرو کے تصور کو اس ڈرامے نے بد ل کر ہی رکھ دیا۔ ایک سلجھا ہوا نارمل مرد ہمیں نظر آیا۔ دولت مند ہیرو کی بجائے ایک عام انسان اس کا ہیروتھا۔

شہنازروما نس اور جذبات کے بہتے دریاکا روپ نہیں تھی۔ وہ سماج میں نہیں ڈھلی اس نے سماج کو نئے رنگ دیے۔ لیکن اس سب کا دارومدار پو ری ٹیم کی سوچ و کردار کا عکاس ہے۔ اس دور کا ہیرو شعیب منصو ر تھا۔ اسوقت کی آئی ایس پی آر کی ٹیم تھی۔ پی ٹی وی تھا۔

” لڑکو ں لڑ کیو ں والا رومانس نہ تو کبھی میں نے محسوس کیا ہے۔ نہ اسے سمجھ سکتی ہوں۔ میں تعلق بنا کے فیلنگ ڈیویلپ کر تی ہوں۔ گل شیر کے ساتھ میں اٹیچ تھی لیکن شادی کے بعد ہو ئی تھی۔ میں نے اس کی وجہ سے تمہیں انکار نہیں کیا تھا۔ وہ نہ ہوتا تو کو ئی اور ہو تا۔ تم کبھی نہیں ہو سکتے تھے“

ذرا سوچئے یہا ں ”ٹکے آنوں“ سے عورت کے کردار کی دھجیاں کیو ں نہیں اڑائیں گئیں؟

ذرا سوچئے کسی “ایٹم گرل” ضرورت کیوں نہیں پڑی؟
ذرا سوچئے کیا اس دور میں فرا ز کو ہیر و بنا کے کا شف اور گل شیر کو ”پھینٹی“ نہیں لگوا ئی جا سکتی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).