شیرنی کا دودھ اور ڈرپوک کی موت


میرا دوست تملی ہمیشہ میرے ساتھ ناراض رہتا ہے۔ مجھے کہتا ہے باباجی أپ کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ پچھلے چار سال سے أپ کے ہاتھ میں یہی گھسا پٹا پرانے دور کا موبائل دیکھ کر میں سوچتا ہوں أج کے جدید دور میں أپ زندہ کیسے ہو۔ جہاں جاتے ہو جہاں بیٹھتے ہو سب سے پہلا کام موبائل چارجنگ۔ باباجی دنیا بدل گئی مگر أپ کا موبائل نہ بدل سکا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا یار تملی جب عہد کر لیا ہے کہ حلال کھانا ہے بچوں کو حلال کھلانا ہے تو پھر گزارا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔

بس میراکام چل رہا ہے۔ میری بات سن کے تملی تڑپ گیا اور ناراضی کا اظہار کیا۔ تملی کہنے لگا اچھا بابا جی اس کا مطلب دنیا میں ہر وہ بندہ جس کے ہاتھ میں مہنگا موبائل ہو وہ دیانت دار نہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا شدائیا میرا یہ مطلب نہیں۔ تو ٹیڑھا سا منہ کرکے منہ سے نسوار کی ڈلی زبان سے گھما کر باہر پھینکتے ہوئے کہنے لگا ( تے فیر ہور ایدا کی مطلب اے ) تو پھر اور اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ کم تنخواہ والے بندے نے اگر محض تنخواہ پہ ہی گزر کرنی ہو تو بہت ساری خواہشات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑتا ہے۔  میرے لیے یہ موبائل ٹھیک ہے بس۔

تملی کو میرے ساتھ ایک اور بھی شکوہ ہمیشہ رہتا ہے۔ تملی کا کہنا ہے کہ میں ڈرپوک ہوں۔ اس کا فلسفہ کہتا ہے ڈرپوک بندہ نہ رشوت لے سکتا ہے۔ نہ شیرنی کا دودھ شراب پی سکتا ہے اور نہ ہی معاشقے کر سکتا ہے۔ اور زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے یہ سب ضروری لوازمات ہیں۔ یار سفید پوشی بھی کسی بلا کا نام ہے کہ نہیں۔ مختصر زندگی کو بھرپور جینا چاہیے اور بھرپور جینے کے لیے پیسہ شرط ہے۔ تنخواہ بیوی بچوں کا حق ہے ٹھیک ہے بے شک ساری تنخواہ ماں باپ بیوی بچوں کو دو۔ مگر اوپری کمائی أپ کا اپنا حق یہ منطق بھی تملی نے ہی پیش کی۔

پچھلے ہفتے تملی کی طبیعت کافی خراب تھی معدے میں سوجن گردے میں درد اور شوگر کا مسئلہ تھا۔ میں بھی شام کو چہل قدمی کرتا گھر سے نکلا اورتملی کے گھر جا پہنچا۔ میں نے سوچا اس کی تیمارداری بھی ہوجائے گی اور چہل قدمی بھی۔ میں نے تملی کے گھر کے دروازے میں پہنچ کر أواز دی تو پاٶں گھسیٹتا ہوا باہر أگیا۔ سچ مچ تملی کی طبیعت کافی خراب تھی چہرے پہ سوجن بھی محسوس ہو رہی تھی۔ ہم گلے ملے تو میرے کان میں کہنے لگا ( باباجی گھٹی ناں ) باباجی دبانا مت۔

میں سمجھ گیا کہ اس کا مسئلہ زیادہ خراب ہے۔ بہرحال مجھے اندر لے گیا اس کے بیڈ کے سرہانے پڑے اسٹول پہ سیرپ گولیاں اور انجکشن بڑے سلیقے اور ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ مجھے کہنے لگا جی بابا جی چائے کہ بوتل کیا چلے گا۔ میں نے کہا یار تملی تجھے پتہ ہے بوتل میں پیتا نہیں اور چائے عشإ کی نماز کے بعد پیتا ہوں۔ بہرحال اس نے مچھلی سے میری تواضع کی۔ وہ تملی جو مچھلی بکرا اور کڑاہی کا شیدائی تھا معدے میں جلن اور سوجن کی وجہ سے ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتا تھا۔

نیسلے کا پانی اور گندم کا دلیہ اس کی خوراک تھی۔ میرا ہاتھ پکڑ کے افسردہ سے لہجے میں کہنے لگا باباجی بہت ڈر لگتا ہے۔ قبر نظر أتی ہے۔ بس ایک بار اللہ صحت ٹھیک کردے سب برے کام ختم۔ میں نے کہا دیکھ تملی میں تو تجھے ہمیشہ سے کہتا ہوں۔ شراب جوا بدکار عورتوں سے مراسم یہ سب بہت غلط کام ہیں۔ اب خمیازہ بھگت رہے ہو ناں۔ میری بات سن کر کروٹ لے کرلیٹ گیا اور کہنے لگا۔ باباجی ایک بات پوچھوں؟ میں نے کہا ہاں ضرور پوچھو۔

کہنے لگا باباجی أپ اور میں تیس سال سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ أپ پچھلے دنوں سخت بیمار تھے۔ وہیل چیٕر تک نوبت أگئی تھی۔ میں نے کہا ہاں بالکل میں کافی بیمار تھا۔ توپھر کہنے لگا۔ باباجی میں نے کبھی أپ کو شراب پیتے نہیں دیکھا۔ میں نے جواب دیا ہاں تملی میں شراب سگریٹ چرس ان بری عادتوں سے ہمیشہ دور رہتا ہوں۔ اس نے پھر سوال کیا۔ باباجی أپ کے بیوی کے علاوہ کسی عورت سے مراسم بھی کم ازکم میں نے کوئی نہیں دیکھا۔

میں نے کہا بالکل تملی میرے بری عورتوں سے بھی کبھی بھی ناجائز مراسم نہیں رہے۔ باباجی پولیس ملازم ہونے باوجود أپ رشوت سے نفرت کرتے ہیں تو پھر أپ بیمار کیوں ہوئے تھے۔ میں تملی کی بات سن کر ہنسنے لگا۔ میں نے کہا یار تملی تیری ساری باتیں درست ہیں مگر یار میں بھی انسان ہوں بیمار ہوسکتا ہوں۔ چھوٹی موٹی پریشانی بھی أسکتی ہے۔ اور یہ کہاں لکھا ہے کہ جو برے کام نہیں کرتا وہ بیمار نہیں ہوگا۔ تملی کہنے لگا تو پھر أپ کو کیوں لگتا ہے کہ میں اپنی بری عادتوں کی وجہ سے بیمار ہوا ہوں۔

میں نے تملی کا ہاتھ تھپتھپا کر کہا پاگل میں نے یہ نہیں کہا کہ تم اپنی بری خصلتوں کی وجہ سے بیمار ہو۔ بلکہ میں تو یہ کہہ رہاہوں کہ ہماری موت اورقبر کی حقیقت سے ڈرنے کی وجہ وہ بھیانک منظر ہے جو ہم اپنے برے اعمال کی وجہ سے ذرا سا بیمار ہوکر اپنے خیالات میں دیکھنے لگتے اور ڈرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ بیماری تو أتی ہے چلی جاتی ہے مگر جتنے دن ہم بیمار رہتے ہیں ایک طرح کے انجانے سے خوف میں مبتلإ رہتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں ہم اپنے أپ سے اللہ سے گناہ نہ کرنے کے کتنے عہد کرتے ہیں مگر ذرا سا سنبھل جائیں تو شراب کو شیرنی کا دودھ رشوت خوری کو مجبوری اور بدکاری کو سفید پوشی کانام دے کر اپنے أپ کو مطمعن کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

حقیت یہ ہے کہ ہم گناہ سے نہیں موت سے ڈرتے ہیں۔ جتنا مرضی شیرنی کا دودھ پیو یا بھرپور رنگین زندگی جیوقبر اور موت کے خوف کو اگر مات ہوسکتی ہے تو تقوہ پرہیزگاری اور اسلام کے اصولوں کے عین مطابق گزاری زندگی سے ہی ہوسکتی ہے۔ کیا فائدہ اس شیرنی کے دودھ کا جو پی کر بھی ڈرپوک ہی مرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).