عوام کو این آر او دے دیں


پاکستان میں یوں تو ہر انتخابات ہی فتح یاب ہونیوالوں کی طرف سے ملکی تاریخ کے شفاف ترین اور شکست یافتوں کی طرف سے بدترین انتخابات ہوتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات ملکی تاریخ کے واحد انتخابات ہیں جن میں ہارنے والوں کے علاوہ جیتنے والوں نے بھی دھاندلی کے الزامات لگائے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پرانے پاکستان کی جگہ ”نیا پاکستان“ بن گیا۔ بلکہ عمران خان کے بقول ملک ”ریاست مدینہ“ کی طرز پر فلاحی ریاست بنے گا۔

حالانکہ وہ حسب عادت چند پہلے یوٹرن لے چکے ہیں کہ میں نے انتخابات سے قبل کبھی ریاست مدینہ کی بات نہیں کی۔ خیر ہم عوام کیا کہہ سکتے ہیں کیونکہ خان اعظم یہ بھی فرما چکے ہیں کہ یوٹرن لینے والا بڑا لیڈر ہوتا ہے اور ہم میں سے کوئی لیڈر ہے ہی نہیں لہذا اس کا فیصلہ قوم کے لیڈران کریں کے یوٹرن والا لیڈر ہوتا ہے نہیں ہوتا یا کچھ اور ہوتا ہے۔

تبدیلی سرکار کو ہم پہ مسلط ہوئے یا کروائے ہوئے 15 ماہ گزر گئے ہیں اس سے پہلے جگاڑو اینکر پرسنز ( جو اپنے آپ کو صحافی کہلوانے پر بھی بضد ہیں ) نے قوم کو یہ بتایا کے کیسے آپ کا پیسہ لوٹا گیا باہر سے آنیوالی امداد اور محصولات سے اکٹھا ہونیوالا پیسہ سابق حکمرانوں نے اپنی شاہ خرچیوں پر لگایا اور عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر بے یارو مدگار چھوڑ دیا۔ لہذا قوم کو اس وقت ایک مسیحا ضرورت ہے جیسے امریکی عوام کو واشنگٹن ملا جیسے روسیوں کو لینین ملا اور چائنہ والوں کے حصے میں ماوزے تنگ آیا ویسے ہی پاکستانیوں کو بھی راہنما ملنا چاہیے اور وہ مسیحا قوم کا حقیقی درد رکھنے والا دو روٹیوں پر قناعت کرنے والا موریوں والے کرتے پہننے والا اور سب سے بڑھ کے قوم کے مستقبل کی خاطر اپنے بچوں کو اپنے سے دور رکھنے والا راہنما جو کرکٹ کمنڑی سے کروڑوں روپے کماسکتا تھا سب کچھ چھوڑ کے عوام کے حقوق کے لیے جہدوجہد کر رہا ہے اور وہ کوئی اور نہیں پاکستان کو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والا ہنڈسیم کپتان عمران خان ہے۔ نوجوان طبقہ ان باتوں سے متاثر ہوا کے کپتان نیک ہے اور اب تو عدالت نے صادق و امین بھی کہہ دیا ہے۔ خود کپتان کہا کرتا تھا کے مجھے کچھ اور تو نہیں لیکن ٹیم بنانی آتی ہے میں نے 22 سال لگا کے ٹیم بنائی ہے اور اوپر ٹھیک بندہ بیٹھا ہو تو نیچے سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔

جب حکومت میں آئے تو آدھی سے زائد کابینہ سابق آمر پرویز مشرف کی باقی سابق صدر زرداری کی کابینہ سے اٹھا لائے اور کچھ وزرا اپنی جماعت سے بھی لیے۔ جن میں سرفہرست تحریک انصاف کے معاشی ارسطو سابق وزیر خزانہ اسد عمر ہیں جہنوں نے قوم کو بتایا کہ معاشی صورتحال سنگین ہے اور یہ ٹیکنیکلز مسائل ہیں لیکن حل یہ موسیقی سننے سے ہوں گئے۔ یاد رہے کے تحریک انصاف میں دو لوگ کنفرم تھے کے اگر ان کی حکومت آئی تو عمران خان وزیراعظم جبکہ اسد عمر وزیر خزانہ ہوں گئے اور اس ماہر معاشیات کی کارگردگی اتنی خراب رہی کے اسے ہٹا دیا گیا اور اب یہ صاحب دوبارہ کابینہ میں تشریف لا چکے ہیں۔

اس کے بعد وہ شعلہ بیان نوجوان وزیر آتے ہیں جو بیچارے عوام کے لیے انہتائی درد دل رکھتے ہیں اور یہ درد اتنا زیادہ ہے کے اس کی وجہ وہ آرام سے گفتگو بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ کپتان کے مراد نے انتخابات سے پہلے کہا تھا کے جس دن عمران خان کی حکومت آئے گی پہلے دن ہی باہر سے 200 ارب ڈالر جو سابقہ حکومتوں نے پاکستان سے لوٹے ہیں وہ واپس لائے جائیں گئے جن میں سے 100 ارب عوام پر لگایا جائے گا باقی 100 ارب دنیا کے منہ پر مارا جائے گا۔

لیکن حکومت میں آنے کے بعد سابق وزیر خزانہ نے کہا کے کون سے 200 ارب؟ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کپتان کی ٹیم کا ایک اور شاہکار جس سے کوئی بھی سوال کر لو تو جواب یہ ہی آئے گا کے ”میں نے جان اللہ کو دینی ہے۔ “ پچھلے 6 ماہ سے وہ ایک کیس میں ثبوت تو پیش کر نہیں سکے لیکن جان اللہ کو دینی والا جملہ دہراتے نظر آتے ہیں۔ کپتان کی ٹیم کی ایک وزیر ہیں جو فرماتی ہیں کے زیادہ بارشیں نیک حکمران یعنی کہ اپنے وزیراعظم کی وجہ سے ہوتی ہیں اور آلودگی میں اضافہ نیک حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی اپوزیشن کی گاڑیوں کے ناپاک دھوئیں سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور صاحب بھی ہیں جن کی قابلیت یہ ہے کے درود شریف پڑھ کے جھوٹ بولتے ہیں۔ خیر چھوڑہیے کپتان نے تو چن چن کے ہیرے اکٹھے کیے ہوئے ہیں جہڑا پنوں اوہی لال اے۔

یہ وہ نیا پاکستان ہے جس میں سابق آمر کے خلاف فیصلہ رکوانے کے لیے حکومتی مشینری استعمال کی جاتی ہے۔ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر وزیرقانون سے استعفی لے کے اسے عدالت بھیجا جاتا ہے اور توسیع مل حانے کے بعد دوبارہ کابینہ میں شامل بھی کیا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعوایدار سائیوال میں ہونیوالے قتل عام کے ذمہ دار پولیس والوں کو بچانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ جبکہ اس دوران نہ کسی وزیر کا استعفی آتا ہے اور نہ ہی کوئی وزیر ان یتیم ہوئے بچوں کے لیے وکیل بننے کو تیار ہوتا ہے۔

جو صاحب یہ کہتے تھے کے جس مقتول کے قاتل معلوم نہ ہوں اس کے قاتل حکمران ہوتے ہیں وہ بھی سن مظلوموں کی وکالت کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ پنجاب کے دارالامان سے یتیم کم سن بچیاں عیاشی کے لیے وزرا مشیروں اور امراء کو منتقل کرنے سے انکار کرنے والی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دی جاتی ہے۔ کپتان کی سربراہی میں قائم ہوئی انقلابی حکومت نے معاشی سیاسی معاشرتی عدم استحکام کے علاوہ عوام کو ابھی تک کچھ نہیں دیا اور خود کپتان سے سوال کریں معیشت کا یا قانون و انصاف کا سوال اٹھائیں خارجہ داخلہ یا دفاعی پالیسی پر تو جواب آتا ہے کہ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ اور یہ سب بیرونی سازش ہے۔ آخر پہ فقط یہ ہی کہنا چاہوں گا کہ اپوزیشن کو ”این آر او“ دیں یا نہ دیں خدارا عوام کو اپنی اس انقلابی انصافی حکومت سے ”این آر او دے“ دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).