توسیع کا تانگہ کچہری سے خالی لوٹ آیا


ہمارے محبوب لیڈر پیرانِ پیر، شیخ الشیوخ ، جناب شیخ رشید صاحب فرماتے ہیں، اور جو کچھ وہ فرماتے ہیں، ہم شوق سے گوش گزار کرتے ہیں۔ ہم ان کی باتوں پر غور و خوض کرتے ہیں اور مزے کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی سیاسی و عسکری بصیرت پر اندھا اعتماد ہے کیونکہ وہ دیوار کے پیچھے تک دیکھ سکتے ہیں۔ باتوں کی جنگ کے فیلڈ مارشل ہیں۔ باتوں باتوں میں دنیا فتح کر چکے ہیں۔ اگر آپ کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہیں، آپ کو ڈپریشن ہے یا نیند نہ آنے کی بیماری ہے توآپ شیخ صاحب کی کیسیٹ نکال کر سنیں اور بار بار سنیں، افاقہ ہوگا۔

فرماتے ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ میرے کالج فیلو ہیں۔ ان کی مدت ملازمت میں توسیع چھ ماہ کی ہے مگر اسے تین سال سمجھا جائے۔ شیخ صاحب کی بات کو صرف وہی بندہ جھٹلا سکتا ہے جس کا شیخ صاحب سے پالا  نہ پڑا ہو۔ شیخ صاحب نے ادھار لینا ہو تو دو جمع دو چھ کے برابر کرتے ہیں اور دینا ہو تو دو جمع دو تین۔ شیخ صاحب سیاست کے وہ طوطے ہیں جو سہ ماہی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ فرماتے ہیں اپوزیشن والے تو بھاگ بھاگ کر جنرل باجوہ کی توسیع کے لئے ووٹ دیں گے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔

شیخ صاحب کے ساتھی اور سابق نیلسن منڈیلا (الطاف حسین) کے چیلے، فروغ نسیم صاحب اپنے آپ کو اتنا بڑا قانون دان سمجھتے ہیں کہ فلمی ہیرو کی طرح، جو تھانیدار ہوتا ہے اور ڈاکو یا بدمعاش ولن کو قانونی طریقے سے سزا نہیں دلوا سکتا۔ آخر کار جوش میں آکر وردی اتار پھینکتا ہے اور خود ڈاکو بن کر ولن کو مار دیتا ہے، یوں حکومت سے وردی واپسی اور انعام کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ فروغ نسیم صاحب کی سپریم کورٹ میں بطور ہیرو انٹری ہوتی ہے۔

چیف صاحب اعلان کرتے ہیں، جناب آپ کا تو لائسنس ہی معطل ہے۔ باجوہ صاحب، جن کی وکالت کے لئے فروغ نسیم صاحب انٹری مارتے ہیں وہ اپنی توسیع کو بھول کر ان کے لائسنس کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ قوم کو اتنا بردبار محافظ کہاں سے ملے گا۔ عمران خان کو سیلوٹ ہے جو ایسے آرمی چیف کے لئے فکر مند رہے۔ اللہ بھلا کرے، چیف صاحب کا، جس نے خود کو اور پوری قوم کو ایمرجنسی سے نکالا ورنہ انور منصور تو لے گئے تھے

سوچنے کی بات ہے، اگر جنرل باجوہ کو توسیع نہ ملتی، تو کیا ملک میں اصلی جمہوریت آجاتی؟ وزیراعظم اپوزیشن والوں کو گلے لگا کر ملتے، عثمان بزدار، حمزہ شہباز کو جیل میں اپنے گھر سے کھانا بھجواتے؟ یا وزیر اعظم مستعفی ہو کر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر ڈالتے؟

جسٹس کھوسہ بہت سمجھ دار ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں، گاڈ فادر جیسی نادر روز گار کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے قلم کا تیر کہاں اور زبان کا نشتر کب چلانا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کون سے وزیر اعظم کو اقامے پر نکالنا ہے اور کس کو توہین عدالت کی سزا دینی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کس کو توسیع نہ دی تو ملک و قوم گونا گوں مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔

ایک وزیر جس نے اللہ کو جان دینی ہے، کہتا ہے ”آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے“۔ قوم کئی دن مضطرب رہی اور اضطراب کی واحد وجہ قوم کے باپ کی پدرانہ شفقت میں برکت کا معاملہ تھا۔ قوم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی شکر گزار ہے۔ آپ کی بدولت قوم کو آرمی چیف بابت آگاہی ملی۔ حکومت کو بھی شعور آیا۔

اس سارے قضیے کا اصل فائدہ شہباز شریف کو ہوا ہے۔ وہ مزے سے لنڈن کی گلیوں میں نئے نئے ہیٹ پہن کر پرانی انگریزی فلموں کے ہیرو بنے پھرتے ہیں۔ کوئی چینل ان کی بیرونی جائیدادوں کا چرچا نہیں کر رہا، نہ ہی کسی فواد، فیاض یا فردوس عاشق کی کوئی آواز سنائی دی ہے۔ تین دن شاہراہ دستور پر ٹریفک بلاک رہی اور کوئی ہارن نہیں بجا۔ وزیروں کی آنیاں جانیاں سب نے دیکھیں۔ مسئلہ الجھا تو جنرل صاحب کو خود ہی میدان میں آنا پڑا۔

ہزار راہیں جو مڑ کے دیکھیں

کہیں سے کوئی صدا نہ آئی۔

بڑی وفا سے نبھائی تو نے

ہماری تھوڑی سی بیوفائی

وزیراعظم فرماتے ہیں، عدالت کے فیصلے سے ملک دشمنوں کو مایوسی ہوئی۔ ان کی سازش ناکام ہوئی۔ ہندوستان میں جنرل باجوہ کی توسیع پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ ہندستانی فوج تھر تھر کانپ رہی ہے۔ مودی کے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہے۔ حکومت کو ذلت کے چار دن، ان ملک دشمنوں کی وجہ سے دیکھنے پڑے، جن کے پیسے ملک سے باہر پڑے ہیں اور ان کو ڈر ہے، جنرل باجوہ وہ پیسے واپس لے آئیں گے۔

جنرل باجوہ کے خلاف درخواست دینے والے راہی صاحب ابھی حیات ہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے ان کی درخواست مودی نے لکھ کر بھجوائی ہو۔ بظاہر یہ درخواست بے نامی لگتی ہے اور ایک بے نامی اثاثہ ہے۔ بے نامی جائیداد اور اقامہ رکھنے پر ایک وزیر اعظم اسی معزز عدالت سے برطرفی کی سزا پا چکے ہیں۔ حکومت نے واجد ضیا کو ایف آئی اے کا ڈائرکٹر مقرر کر دیا ہے۔ یہ کیس اس کے حوالے کرنے سے خاطر خواہ نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے، اگر جے آئی ٹی سے تحقیقات کرائی جائیں تو سراغ مودی تک جا سکتا ہے۔

جناب چیف جسٹس تاریخ کا رخ موڑنے ہی والے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، جو ہوتا آیا ہے، جو ہماری تاریخ ہے۔ قوم سولی پر لٹکی فیصلے کی منتظر تھی۔ حکومت کی سانس اٹکی ہوئی تھی۔ وزیروں کی زبانیں خشک ہوچکی تھیں۔ کھوسہ صاحب تین دن تک قوم کو ہیجان میں رکھنے کے بعد بل سے سانپ کی بجائے رسی نکال کر لے آئے۔

اسلام آباد کے سیاسی دنگل میں حسب سابق امپائر کی جیت ہوئی ہے۔ حکومت اس پر لڈیاں ڈالے یا بھنگڑے، حکومت نے ہمارے آئین اور اداروں کی جگ ہنسائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ابھی وقت ہے حکومت اپنی خواہشات پر جمہوریت کی ملمع کاری کرکے اسمبلی میں بیٹھ کر، اپوزیشن کو ساتھ ملا کر اپنی خفت مٹا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).