آگ لگی ہمری جھونپڑیا میں


کبھی سوچا؟ ہم ،پوری قوم سنسنی خیزی کے نشے کی لت میں پڑ چکے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ اس بات پر خوشی سے پرجوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے گھر میں آگ لگی ہے۔ آگ لگی ہمری جھونپڑیا میں ہم گائے رے ملہار چلیں کچھ تاریخی معلومات کو دیکھتے ہیں،جس طرح برصغیر میں قدیم عمارتیں ماش کی دال، پتھر اور گارے سے تیار مرکب سے تعمیر ہوئیں اس طرح سیمنٹ کو سب سے پہلے اہل یونان نے استعمال کیا۔ یہ تین صدی قبل از مسیح کی بات ہے۔ یونانیوں نے پتہ چلایا کہ ریت، گول پتھروں اور کئی طرح کے دوسرے اجزا کو ملا کر مصنوعی پتھر تیار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ اگر کسی آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ کو اس ملغوبے میں شامل کر لیا جائے تو پھر یہ تعمیراتی مصالحہ زیر آب تعمیرات کے لئے بھی نہایت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ یونانی سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی آتش فشاں نما راکھ کا یہ استعمال کم ہوتا گیا۔ یہ انیسویں صدی تھی جب کسی ماہر تعمیرات نے سیمنٹ کی موجودہ شکل تیار کی۔

ہم گروہوں میں اس لئے تقسیم نہیں ہوئے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتے ہیں اور دوسرے ہمیں آگے نہیں نکلنے دیتے۔ ہم ایک ایسی خود اذیتی کا شکار ہیں جو ہمیں وہی ٹہنا کاٹنے کی ترغیب دیتی ہے جس پر ہم بیٹھے ہیں۔ ’’ہم‘‘ سے مراد صرف آپ اور میں نہیں، آپ جہاں اور جس ہجوم میں کھڑے ہو جائیں وہاں سب ’’ہم‘‘ ہی ہوں گے۔ کسی ادارے کسی ایوان میں چلے جائیں وہاں سب ایسے ہی ’’ہم‘‘ بیٹھے ملیں گے جو ہاتھوں میں آری پکڑے اپنے سہاروں کو کاٹ رہے ہیں۔ کیا سیاست کو گند کہنے والے درست تھے؟ آپ کے بارے میں سماج کا عمومی رویہ مناسب ہے؟

لوگ آپ کو بطور کھلاڑی، فنکار، ادیب اور استاد عزت دیتے ہیں۔ آپ نے یہ عزت اپنی ذاتی کاوش اور مسلسل محنت سے کمائی ہے۔ آپ چاہتے ہیں جس طرح آپ کے گھر حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق صاف ستھرا بیت الخلا ہے ایسا ہی بیت الخلا’’ہم‘‘ کے گھروں میں بھی ہو۔ جونہی آپ نے سماج سدھار کا ارادہ کیا ’’ہم‘‘ آپ کے خاندان، قوم اور دور و نزدیک کے رشتہ داروں کی کمزوریاں تلاش کرکے آپ کو شرمندہ کرنے کے مشن پر لگ جائیں گے۔ کیا حیرت کی بات نہیں عمران خان اتنی عزت اور ہر دلعزیزی کے باوجود بائیس برس تک سفر کے بعد اقتدار تک پہنچا لیکن کوئی بھی سیاستدان اپنے خاندان کی بدنامیوں کے باوجود پانچ سال سے زیادہ اقتدار سے دور نہیں رہتا۔

جانے انہوں نے اقتدار سے جڑے رہنے کا جو سیمنٹ ایجاد کیا ہے وہ جرائم کے باجود اپنی گرفت کمزور کیوں نہیں کرتا۔ ماہرین آثار قدیمہ فرعونوں کے مقبروں سے نکلنے والے ان کتبوں پر تحقیق کر رہے ہیں جن پر ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر سے مشابہہ چیزیں نقش ہیں۔ یہ کتبے پندرھویں صدی قبل از مسیح کے زمانے کے بتائے جاتے ہیں۔ یہ حیران کن ہے اور تاحال ایک معمہ کہ مستقبل کی سائنسی ایجادات کا نقش مصری اہل علم تک کیسے پہنچا۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ ٹائم مشین جیسی کسی ٹیکنالوجی تک پہنچ گئے تھے یا پھر کسی محقق کی قوت متخیلہ اس قدر طاقتور ہو گئی کہ اس نے ہزاروں سال بعد اڑنے والی مشینوں کے عکس بنا لئے۔

مصریوں کے رہن سہن میں اختراع بہت تھی۔ جس طرح آج مغرب کے پاس ٹیکنالوجی ہے اسی طرح اہل مصر کے پاس افرادی قوت کے موثر اور منظم استعمال کا شعور تھا۔ وہ نئی عمارت، نئی ٹیکنالوجی اور نئے علوم کو فروغ دے کر خوش ہوتے تھے۔ میڈم افشاں جاوید فلوریکلچر انسٹی ٹیوٹ میں ہمیں چین کے منگ خاندان سے متعلق بتاتیں کہ ان حکمرانوں نے پھولوں کو تادیر تروتازہ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اللہ ہماری استاد کو غریق رحمت کرے۔ میں نے گلاب پر کتاب لکھی۔ ایک باب برصغیر میں پھولوں خصوصاً گلاب کی تاریخ پر مختص تھا۔ میڈم حیران ہوئیں کہ یہ معلومات کہاں سے لیں۔ میں نے کہا آپ کے عطا کردہ فہم سے۔

بھارت میں ایک شخص نے چالیس سال تک تن تنہا درخت لگا کر ساحلی ویرانے کو 550 ہیکٹرز کے گھنے جنگل میں بدل دیا۔ اب اس جنگل میں چرند پرند کے ساتھ چیتے اور ہاتھی تک رہتے ہیں۔ پاکستان بھر میں کوئی ایسا قابل ذکر ادارہ نہیں جو یہاں تعمیر ہونے والی عمارتوں کو مضبوط بنانے کے لئے مقامی موسمی اثرات سے مزاحمت کرنے والا معیاری سیمنٹ بنا سکے۔ کوالٹی کنٹرول والے بیچارے مارکیٹ میں دستیاب سیمنٹ کو معیاری قرار دینے پر مجبور ہیں۔ یہ سیمنٹ زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے پی رہا ہے۔ کٹاس راج جھیل بار بار اس وجہ سے سوکھ رہی ہے کہ وہاں قریب میں سیمنٹ پلانٹ لگے ہیں۔

عدالت حکم دیتی ہے، ادارے دکھاوے کے کام کرتے ہیں اور پھر وہی چلن۔ دراصل ہماری توجہ کا زاویہ غلط ہو گیا ہے۔ ہم مادی ترقی کو سماجی و تہذیبی شعور سے الگ کرکے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

مادی ترقی کے لئے بھی ہمارے پاس اپنی ضرورتوں سے ہم آہنگ علم اور ٹیکنالوجی نہیں لہٰذا ہمارے گھروں کے نقشے کبھی کسی یورپی ملک کے برفانی علاقے کی آبادی جیسے ہوتے ہیں، کبھی امریکہ کے امرا کے فارم ہائوسز سے مشابہہ۔ ہم تیزی سے اپنی تاریخ، سماجی اور ثقافتی یادگاروں کو ملیامیٹ کرکے وہاں اجنبی نقش ابھار رہے ہیں۔ کیا پتہ مستقبل کا کوئی مورخ ’’ہم‘‘ پر تحقیق کرے تو اسے معلوم ہو کہ ’’یہ قوم آمریت مخالف تھی مگر بہتر سال میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی اصول نہ بنا سکی‘ یہ قوم سنسنی خیزی اور خود تخریبی کی امام تھی‘‘۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).