طلبہ کس سے آزادی چاہتے ہیں؟


پاکستا ن میں طلبہ یونینز پر پابندیوں کو 36 برس ہو چکے ہیں اور طلبہ یونیز کے آخری انتخابات اسی کی دہائی کے آغاز پر ہوئے تھے۔ اور پھر دور آمریت میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے ان یونینز اور ان سے ملحقہ طلبہ تنظیموں پر پابندیاں عاء کر دی گئیں تھیں۔ اس سب کے بعد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء کی سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں جو دور آمریت میں کافی زیادہ رہیں اور جمہوری ادوار میں قدرے ان میں نرمی رہی۔

نرمی اس حد تک کہ طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں نے کچھ حد تک عروج پایا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ پارلیمانی سیاست میں کئی ایسے نام موجود ہیں جنہوں نے سیاست کے گر طلباء سیاست کے دوران سیکھے۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن جماعت اسلامی عوامی نیشنل پارٹی سر کردہ جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں کے چند موجودہ رہنما اپنے دور طالب علمی میں طلباء سیاست کا حصہ رہے ہیں۔

در اصل طلباء تنظیمیں زیر عتاب کیوں ہیں اس بارے میں تاریخ کے صفحوں میں یہ درج ہے۔ ۔ کہ بھٹو دور میں جماعت اسلامی کی ذیلی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت نے اس قدر قوت حاصل کی کہ 7791 میں اس تنظیم نے بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے بہترین حالات پیدا کیے۔ جمعیت کا خاصا یہ رہا کہ یہ طلباء تنظیم ہونے کے ساتھ بر سر اقتدار آمر کی آلہ کار بنی رہی۔ اور دیگر دائیں بازو کی طلباء تنطیموں پر رعب جمانے اور ان سے تصادم کرنے میں اسے خاص مہارت حاصل تھی۔

یہی حالات برابر جاری رہے یہاں تک کہ جمعیت کے ڈنڈا بردار جتھے بھی تعلیمی ادارووں کی زینت بننے لگے۔ اور بعد ازاں ان میں تصادم ہونے لگے تھے۔ جس کے باعث ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو نے لگیں۔ یہی نہیں مرکزی سیاسی تنظیمیں ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے لگیں تھی اور ضیاء الحق کو بھنک پڑ گئی کہ سیاسی جماعتوں کا طلبا ء میں یہ اثر و رسوخ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہے۔ اس واسطے طلبہ یونینز پر پابندی کی ابتدا وہاں سے ضیا الحق کے ایک حکمنامے کے تحت لگائی گئی۔

در اصل طلباء یونینز کے 1983 کے انتخابات میں اس وقت کی طلباء تنظیمیں جن میں پی ایس ایف، این ایس ایف، اور اے پی ایس او کے الائینس نے بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے جمعیت کو شکست دی۔ یہ تمام تنظیمیں جن کا الائینس تھا، جن میں پیپلز پارٹی کی پی اسی ایف اور بائیں بازو کی بڑی طلباء جماعت این ایس ایف، متحدہ قومی موومنٹ کی طلباء تنظیم اے پی ایس او۔ یہ جماعتیں نہ صرف ترقی پسند فکر رکھتیں تھیں۔ بلکہ اس وقت کے ملکی حالات کے تحت ان کا الائینس ضیاء حکومت کو اس سے بڑا خطرہ محسوس ہوا۔

چونکہ جمعیت طلباء تنظیموں میں وہ واحد جماعت تھی جس کو بڑے پیمانے پر حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے باوجود جمعیت کو ان ترقی پسند جماعتوں کے الائینس نے شکست دے کر انتخابات جیت لیے۔ جو کہ ضیاء الحق کے لیے درد سر بن گیا اس واسطے اگلے ہی برس یعنی 1984 میں ایک حکمنامے کے تحت ضیاء الحق نے طلباء یونینز پر پابندی لگا دی۔

اس پہلی پابندی کے بعد پابندیاں لگتی رہیں لیکن طلباء تنطیموں پر ضیاء دور میں لگی پابندی جو طلباء یونین کے انتخابات کے ٹھیک ایک سال بعد لگائی گئی۔ در اصل یہ اس ترقی پسند سوچ کو روکنے کا عندیہ تھا۔ عملی طور پر دور آمریت میں یہ سب کر کے دکھایا گیا کہ ذہنی نشونما کا عمل کیسے روکنا ہے۔ اگرچہ اس کی وجوہات کچھ بھی بتائی جائیں مگر اک بڑا سوال یہ بھی ہے، کہ کیا کچھ عناصر کو جوڑ کر سوچ کے دریچے بن ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں۔

1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ضیا ء دور کی لگی پابنیدیوں کو اٹھانے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن کراچی یونینیورسٹی میں ایم کیو ایم پاکستان کے طلباء ونگ اے پی ایس او، اور پیپلز پارٹی کے طلباء ونگ، پی ایس ایف، کے درمیان خونریز تصام کے بعد اک بار پھر ان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان واقعات سے نہ صرف یہ معلوم پڑتاہے کہ اس وقت کی طلبا سیاست میں برسر اقتدار حکومتی سیاسی جماعتوں کا عمل دخل رہا۔

جس کے باعث طاقت کے بل بوتے پر سیاست کارجحان طلباء تنطیموں تک پہنچا۔ جس کی بڑی مثال پیپلزپارٹی دور میں کراچی یونیورسٹی کا واقعہ ہے۔ ، بعد ازاں 1992 میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء اور ن لیگ کے طلباء ونگ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے درمیان لڑائی ہوئی۔ جس کے بعد باضابطہ طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام جامعات کو پابند کیا گیا، کہ وہ نئے داخلہ لینے والے طلبہ سے تحریری ضمانت لے کر انہیں داخلہ دیں کہ وہ کسی طلباء تنظیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔

دور آمریت میں طلباء تنظیموں پر پابندی لگنے کی وجہ کچھ تو سمجھ ا ٓتی ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں ان تنظیموں پر سے پابندیاں ہٹانے کی جو کوشش بھی کی گئی تو اس کے نتائیج خوفناک ملے۔ اسی کی بڑی وجہ بالکل یہی ہے، کہ جس طرح دور آمریت میں اسلامی جمعیت طلباء کو حکومتی سرپرستی میں دائیں بازوں کی جماعتوں پر دباؤ بڑھانے اور ان سے تصادم کرنے کے لیے پشت پناہی حاصل رہی۔ جمہور ی ادوار میں یہی کام برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے اپنے زیر سایہ اپنی طلباء تنظیموں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی۔

جس کے خوفناک نتائج بر آمد ہوئے اور نتیجاتا یہ ہوا کہ طلباء سیاست کو لڑائی جھگڑے اور خونریرزی سے تعبیر کیا گیا، اور اس سب میں اُس وقت کی تنظیمیں ذمہ دار ہیں۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ اکیسویں صدی میں پاکستان میں اگر طلبہ تنطیموں پر قدغن ہے۔ تو اسس کی وجوہات اسی اور نوے کی دہائیوں کی طلبہ تنظیموں کا طرز عمل ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر طلباء سیات پر نہ صرف قدغن ہے، بلکہ اس سیات کو برے اور ناپسندیدہ الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ طلباء سیاست پر قدغن کو اس کی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے قبول کیا جائے، یا اس پر پیشرفت اور چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ در اصل اس معاملے پر نہ ہی ایوانوں میں کوئی سنجیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ نہ ہی وہ لوگ کچھ زیادہ سنجیدہ ہیں جو اس پر نوحہ کر رہے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ سرخ جھنڈے لہرانے والے ببانگ دہل کہ رہے ہیں کہ ہمیں تعلیمی اداروں میں استحصالی نظام سے آزادی چائیے۔ مالی مسائل سے نمٹنے کے لیے اظہار کی آزادی چائیے۔ اور اپنے ان تمام حقوق کی آزادی چائیے جو اک ترقی یافتہ معاشرے کے طالب علم کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس سب کے لیے ہمیں ہماری یونینز کی آزادی درکار ہے۔ یہ سبھی مطالبات طلباء کی آواز بلند ہوئے بغیر نہیں حل ہو سکتے۔ طلباء کا مطالبہ ہے کہ طلباء سیات پر پابندی کے باعث طلباء ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں صحتمند کردار ادا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ طلباء کی فکری اور سیای تربیت نہیں ہو ہو پاتی اور نہ ہی پڑھے لکھے سیاستدان ملک کے سیاسی نظام کا حصہ بن رہے ہیں۔ بس وہی موروثی سیات ہے کہ جس میں سوائے استحصال کے کچھ بھی میسر نہیں۔ تقریبا سارے ہی اہل علم و دانش طلبا کے ان مطالبات کے حامی ہیں۔

لیکن اسی اور نوے کی طلباء سیاست جو تصام کے رویے کی وجہ سے پابندیو ں کا شکار رہے۔ موجودہ طلبہ سیاست میں ممکنہ طورپر وہ طرز عمل تو نہیں ہے مگر یہاں اک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ جو نظریات کی جنگ ہے جس میں طلباء کاسوشلسٹ کمیونسٹ ترقی پسند یا لبرل ہونے کے دعوے ہیں۔ یہ سارے نظریے اس مملکت اسلامی کے عام انسان کے لیے نہ صرف ناقابل فہم ہیں۔ جدید خطوط پر استوار مخصوص نظریات لیے ان طلباء کے یونینز بحالی کے احتجاج دیکھ کرعام انسان یہی کہ رہا ہے، کہ یہ ملحد اور فحاشی پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے، مگر یہ سوال عام انسان کا نہیں ہے۔

چونکہ آین و قانون سازی کرنے والے اور پابنیدیاں ہٹانے والے بالادست طبقات، ان سب نظریات سے نابلد نہیں ہیں۔ اس لیے طلبہ کے موجودہ مسائل اور مطالبات کے پیش نظر یونیز پر پابندیوں سے طلباء کا آزادی مانگنا جرم نہیں ہے، اس پر سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ے۔ ہاں البتہ یہ طے کرنا الگ ہے کہ نظریات کی سیاست میں سماجی اقدار کو بھی طے کرنا باقی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ طلبہ سیاست کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کو، لازمی طور پر اس ملک کے اقدار کے تناظر میں طلباء یونینز کی آزادی کو حاصل کرنے کے بعد برقرار رکھنا ہو گا۔

اسی صورت میں طلبہ کو حقوق اور سیاست کی آزادی مل سکتی ہے۔ طلباء جس نظام سے آزادی چاہتے ہیں اُس سماج کو یہ سمجھانا بھی باقی ہے، کہ ہماری تنظیموں کے پرچم کچھ بھی ہوں نعرے کیسے ہی کیوں نہ ہو، گانا بجانا اور تھیٹر کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ در اصل ہم محب وطن طلباء ہیں جو بس اپنے حقوق کی آزادی مانگ رہے ہیں۔ ۔ ْٓ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).